Seerat-ul-Nabi 111

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – پہلی وحی

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – پہلی وحی

انہوں نے آتے ہی کہا:
’’اقرأ۔ یعنی پڑھئے۔
آپ نے فرمایا:
’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ (یعنی میں پڑھا لکھا نہیں )۔
اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو سینے سے لگاکر بھینچا۔ آپ فرماتے ہیں ، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے موت کا گمان ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑدیا، پھر کہا:
’’پڑھیے۔ ’’یعنی جو میں کہوں ، وہ پڑھیے۔ اس پر آپ نے فرمایا:
میں کیا پڑھوں ؟‘‘
تب جبرائیل علیہ السلام نے سورۃ العلق کی یہ آیات پڑھیں :
ترجمہ: اے پیغمبر ﷺ! آپ (پر جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے (یعنی جب پڑھیں ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر پڑھا کیجئے) جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قران پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور ایسا ہے) جس نے لکھے پڑھوں کو قلم سے تعلیم دی۔ (اور عام طور پر) انسانوں کو (دوسرے ذریعوں سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔
آپ فرماتے ہیں :
’’میں نے ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ دیا جس کے بعد وہ فرشتہ میرے پاس سے چلا گیا، ایسا لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہو، یعنی یہ کلمات مجھے زبانی یاد ہوگئے، اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب غار میں آئے تو پہلے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے:
’’اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں ۔‘‘
آپ کی گھر تشریف آوری سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب معمول آپ کے لئے کھانا تیار کرکے ایک شخص کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا مگر اس شخص کو آپ غٓار میں نظر نہ آئے۔ اس شخص نے واپس آکر یہ بات سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا کو بتائی۔ انہوں نے آپ کی تلاش میں آپ کے عزیزواقارب کے گھر آدمی بھیجے۔ مگر آپ وہاں بھی نہ ملے۔ اس لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں ۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ آٓپ تشریف لے آئے۔ آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس کی تفصیل سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا سے بیان فرمائی۔ حضرت جبرائیل کا یہ جملہ بھی بتایا کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں ۔
یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’آپ کو خوش خبری ہو۔۔۔ آپ یقین کیجئے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘
پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔ غار والا سارا واقعہ انہیں سنایا۔ ورقہ بن نوفل پرانی کتابوں کے عالم تھے۔ ساری بات سن کر وہ پکار اٹھے:
’’قدوس۔۔۔ قدوس۔۔۔ قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، خدیجہ! اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں ، ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرئیل آئے تھے جو موسی علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے۔ محمد اس امت کے نبی ہیں ۔ یہ اس بات پر یقین کرلیں ۔‘‘
قدوس کا مطلب ہے، وہ ذات جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ لفظ تعجب کے وقت بولا جاتا ہے جیسے ہم کہہ دیتے ہیں ، اللہ۔۔۔ اللہ۔
ورقہ بن نوفل کو جبرئیل کا نام سن کر حیرت اس لئے ہوئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کے سر کو بوسہ دیا تھا اور پھر کہا تھا:
’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں گے۔ میں آپ کی مدد کرتا، اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں ، جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، آپ کو تکالیف پہنچائے گی۔ آپ کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں گی اور آپ کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کا ساتھ دوں گا، اللہ کے دین کی حمایت کروں گا۔‘‘
آپ یہ سن کر حیران ہوئے اور فرمایا:
’’میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟‘‘
جواب میں ورقہ نے کہا:
’’ہاں ! اس لئے کہ جو چیز آپ لے کر آئے ہیں ، اسے لے کر جو بھی آٓیا، اس پر ظلم ڈھائے گئے۔۔۔ اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں ضرور آپ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘
ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا:
’’تمہارے خاوند بے شک سچے ہیں ، درحقیقت یہ باتیں نبوت کی ابتدا ہیں ۔۔۔ یہ اس امت کے نبی ہیں ۔‘‘
لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حجون کے مقام پر دفن کیا گیا۔ چونکہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی تھی۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :
” میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا ہے۔ان کے جسم پر سرخ لباس تھا”۔
ورقہ سے ملاقات کے بعد آپ گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک مدت تک جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے نہیں آئے۔ درمیان میں جو وقفہ ڈالا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ آپ کے مبارک دل پر جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر جو خوف پیدا ہوگیا تھا، اس کا اثر زائل ہوجائے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے آپ کے دل میں وحی کا شوق پیدا ہوجائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جبرئیل علیہ السلام کی آمد کے بعد سلسلہ رک جانے کے بعد آپ کوصدمہ ہوا ۔ کئی بار آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے، تاکہ خود کو وہاں سے گرا کر ختم کردیں ، لیکن جب بھی آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے، جبرائیل علیہ السلام آپ کو پکارتے:
” اے محمد! آپ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہے۔”
یہ کلمات سن کر آپ سکون محسوس کرتے، لیکن جب پھر وحی کا وقفہ کچھ اور گزجاتا تو آپ بے قرار ہوجاتے، رنج محسوس کرتے اور اسی طرح پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے، چنانچہ پھر جبرائیل علیہ السلام آجاتے اور آپ کو تسلی دیتے، آخر دوبارہ وحی ہوئی ۔
سورہ مدثر کی پہلی تین آیات اتری۔
ترجمہ ۔: اے کپڑے میں لپیٹنے والے اٹھو ! (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیار ہوجاؤ ) پھر کافروں کو ڈراؤ اور پھر اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس طرح آپ کو نبوت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں ۔
“سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور اللہ کی طرف سے جو کچھ آنحضرت لے کر آئے، اس کی تصدیق کی۔ مشرکین کی طرف سے آپ کو جب بھی تکلیف پہنچی، صدمہ پہنچا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دلاسا دیا۔‌”
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا ہیں ۔جو آپ کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے آپ کی زبان سے نبوت ملنے کا ذکر سنتے ہی فوراً آپ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے ۔ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہا ہیں ۔جو آپ پر پہلے ایمان لائے، اور ان کے ایمان لانے کا واقع کچھ اس طرح ہے۔
ایک دن آپ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے۔اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ ان کے ساتھ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ نئی بات دیکھ کر پوچھا:
“یہ آپ کیا کررہے ہیں ”
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں ، میں تمھیں بھی اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، لات اور عزّٰی کی عبادت سے روکتا ہوں ۔‌
حضرت علی نے یہ سن کر عرض کیا ؛
” یہ ایک نئی بات ہے، اس کے بارے میں میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔اس لیے میں اپنے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، میں اپنے والد سے مشورہ کرلوں ۔”
ان کا جواب سن کر آپ نے ارشاد فرمایا؛
“علی! اگر تم مسلمان نہیں ہوتے تو بھی اس بات کو چھپائے رکھنا۔”
انہوں نے وعدہ کیا اور اس کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ رات بھر سوچتے رہے۔آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی ۔سویرے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔
علماء نے لکھا ہے، اس وقت حضرت علی کی عمر ۸ سال کے قریب تھی اس سے پہلے بھی انہوں نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی تھی۔ وہ بچپن ہی سے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔
انہوں نے آتے ہی کہا:
’’اقرأ۔ یعنی پڑھئے۔
آپ نے فرمایا:
’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ (یعنی میں پڑھا لکھا نہیں )۔
اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو سینے سے لگاکر بھینچا۔ آپ فرماتے ہیں ، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے موت کا گمان ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑدیا، پھر کہا:
’’پڑھیے۔ ’’یعنی جو میں کہوں ، وہ پڑھیے۔ اس پر آپ نے فرمایا:
میں کیا پڑھوں ؟‘‘
تب جبرائیل علیہ السلام نے سورۃ العلق کی یہ آیات پڑھیں :
ترجمہ: اے پیغمبر ﷺ! آپ (پر جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے (یعنی جب پڑھیں ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر پڑھا کیجئے) جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قران پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور ایسا ہے) جس نے لکھے پڑھوں کو قلم سے تعلیم دی۔ (اور عام طور پر) انسانوں کو (دوسرے ذریعوں سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔
آپ فرماتے ہیں :
’’میں نے ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ دیا جس کے بعد وہ فرشتہ میرے پاس سے چلا گیا، ایسا لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہو، یعنی یہ کلمات مجھے زبانی یاد ہوگئے، اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب غار میں آئے تو پہلے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے:
’’اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں ۔‘‘
آپ کی گھر تشریف آوری سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب معمول آپ کے لئے کھانا تیار کرکے ایک شخص کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا مگر اس شخص کو آپ غٓار میں نظر نہ آئے۔ اس شخص نے واپس آکر یہ بات سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا کو بتائی۔ انہوں نے آپ کی تلاش میں آپ کے عزیزواقارب کے گھر آدمی بھیجے۔ مگر آپ وہاں بھی نہ ملے۔ اس لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں ۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ آٓپ تشریف لے آئے۔ آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس کی تفصیل سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا سے بیان فرمائی۔ حضرت جبرائیل کا یہ جملہ بھی بتایا کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں ۔
یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’آپ کو خوش خبری ہو۔۔۔ آپ یقین کیجئے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘
پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔ غار والا سارا واقعہ انہیں سنایا۔ ورقہ بن نوفل پرانی کتابوں کے عالم تھے۔ ساری بات سن کر وہ پکار اٹھے:
’’قدوس۔۔۔ قدوس۔۔۔ قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، خدیجہ! اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں ، ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرئیل آئے تھے جو موسی علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے۔ محمد اس امت کے نبی ہیں ۔ یہ اس بات پر یقین کرلیں ۔‘‘
قدوس کا مطلب ہے، وہ ذات جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ لفظ تعجب کے وقت بولا جاتا ہے جیسے ہم کہہ دیتے ہیں ، اللہ۔۔۔ اللہ۔
ورقہ بن نوفل کو جبرئیل کا نام سن کر حیرت اس لئے ہوئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کے سر کو بوسہ دیا تھا اور پھر کہا تھا:
’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں گے۔ میں آپ کی مدد کرتا، اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں ، جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، آپ کو تکالیف پہنچائے گی۔ آپ کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں گی اور آپ کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کا ساتھ دوں گا، اللہ کے دین کی حمایت کروں گا۔‘‘
آپ یہ سن کر حیران ہوئے اور فرمایا:
’’میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟‘‘
جواب میں ورقہ نے کہا:
’’ہاں ! اس لئے کہ جو چیز آپ لے کر آئے ہیں ، اسے لے کر جو بھی آٓیا، اس پر ظلم ڈھائے گئے۔۔۔ اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں ضرور آپ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘
ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا:
’’تمہارے خاوند بے شک سچے ہیں ، درحقیقت یہ باتیں نبوت کی ابتدا ہیں ۔۔۔ یہ اس امت کے نبی ہیں ۔‘‘
لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حجون کے مقام پر دفن کیا گیا۔ چونکہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی تھی۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :
” میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا ہے۔ان کے جسم پر سرخ لباس تھا”۔
ورقہ سے ملاقات کے بعد آپ گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک مدت تک جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے نہیں آئے۔ درمیان میں جو وقفہ ڈالا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ آپ کے مبارک دل پر جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر جو خوف پیدا ہوگیا تھا، اس کا اثر زائل ہوجائے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے آپ کے دل میں وحی کا شوق پیدا ہوجائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جبرئیل علیہ السلام کی آمد کے بعد سلسلہ رک جانے کے بعد آپ کوصدمہ ہوا ۔ کئی بار آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے، تاکہ خود کو وہاں سے گرا کر ختم کردیں ، لیکن جب بھی آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے، جبرائیل علیہ السلام آپ کو پکارتے:
” اے محمد! آپ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہے۔”
یہ کلمات سن کر آپ سکون محسوس کرتے، لیکن جب پھر وحی کا وقفہ کچھ اور گزجاتا تو آپ بے قرار ہوجاتے، رنج محسوس کرتے اور اسی طرح پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے، چنانچہ پھر جبرائیل علیہ السلام آجاتے اور آپ کو تسلی دیتے، آخر دوبارہ وحی ہوئی ۔
سورہ مدثر کی پہلی تین آیات اتری۔
ترجمہ ۔: اے کپڑے میں لپیٹنے والے اٹھو ! (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیار ہوجاؤ ) پھر کافروں کو ڈراؤ اور پھر اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس طرح آپ کو نبوت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں ۔
“سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور اللہ کی طرف سے جو کچھ آنحضرت لے کر آئے، اس کی تصدیق کی۔ مشرکین کی طرف سے آپ کو جب بھی تکلیف پہنچی، صدمہ پہنچا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دلاسا دیا۔‌”
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا ہیں ۔جو آپ کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے آپ کی زبان سے نبوت ملنے کا ذکر سنتے ہی فوراً آپ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے ۔ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہا ہیں ۔جو آپ پر پہلے ایمان لائے، اور ان کے ایمان لانے کا واقع کچھ اس طرح ہے۔
ایک دن آپ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے۔اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ ان کے ساتھ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ نئی بات دیکھ کر پوچھا:
“یہ آپ کیا کررہے ہیں ”
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں ، میں تمھیں بھی اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، لات اور عزّٰی کی عبادت سے روکتا ہوں ۔‌
حضرت علی نے یہ سن کر عرض کیا ؛
” یہ ایک نئی بات ہے، اس کے بارے میں میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔اس لیے میں اپنے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، میں اپنے والد سے مشورہ کرلوں ۔”
ان کا جواب سن کر آپ نے ارشاد فرمایا؛
“علی! اگر تم مسلمان نہیں ہوتے تو بھی اس بات کو چھپائے رکھنا۔”
انہوں نے وعدہ کیا اور اس کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ رات بھر سوچتے رہے۔آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی ۔سویرے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔
علماء نے لکھا ہے، اس وقت حضرت علی کی عمر ۸ سال کے قریب تھی اس سے پہلے بھی انہوں نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی تھی۔ وہ بچپن ہی سے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں