Seerat-ul-Nabi 163

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – سو اونٹنیوں کا انعام

نبی اکرم ﷺ کے ہجرت کر جانے کی خبر ایک صحابی حضرت حمزہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو ملی تو کہنے لگے:
“اب میرے مکہ میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں -”
پھر انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا – یہ گھرانہ مدینہ منورہ کے لیے نکل کھڑا ہوا – ابھی تنعیم کے مقام تک پہنچا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے – اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں یہ آیت نازل فرمائی:
“اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرے گا، پھر اسے موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہوگیا اور اللہ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں ، بڑے رحمت کرنے والے ہیں -” (آیت 100)
حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
“حسان کیا تم نے ابوبکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟”
انہوں نے عرض کیا:
“جی ہاں -”
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا.
سناؤ، میں سننا چاہتا ہوں .
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت بڑے شاعر تھے، ان کو شاعر رسول کا خطاب بھی ملا ہے، حضور اکرم ﷺ کی فرمائش پر انہوں نے جو دو شعر سنائے، ان کا ترجمہ یہ ہے.
حضرت ابوبکر صدیق جو دو میں کے دوسرے تھے، اس بلند و بالا غار میں تھے اور جب وہ پہاڑ پر پہنچ گئے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگائے.
یہ آنحضرت ﷺ کے عاشق زار تھے جیسا کہ ایک دنیا جانتی ہے اور اس عشق رسول میں ان کا کوئی ثانی یا برابر نہیں تھا.
یہ شعر سن کر آنحضرت ﷺ مسکرانے لگے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک نظر آئے. پھر ارشاد فرمایا.
تم نے سچ کہا حسان، وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا، وہ غار والے کے نزدیک (یعنی میرے نزدیک) سب سے زیادہ پیارے ہیں ، کوئی دوسرا شخص ان کی برابری نہیں کر سکتا.
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم ﷺ نے مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے چلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا.
اے ابو درداء، یہ کیا، تم اس شخص سے آگے چلتے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے افضل ہے. قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، انبیاء و مرسلین کے بعد ابو بکر سے زیادہ افضل آدمی پر نہ کبھی سورج طلوع ہوا اور نہ غروب ہوا.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا.
میرے پاس جبريل آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالٰی آپ کو حکم دیتا ہے کہ ابو بکر سے مشورہ کیا کیجیے.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا.
میری امت پر ابو بکر کی محبت واجب ہے.
یہ چند احادیث حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں اس لیے نقل کر دی گئیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہجرت کے ساتھی تھے اور یہ عظیم اعزاز ہے.
غار سے نکل کر حضور اقدس ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹوں پر سوار ہوئے اور راہبر کے ساتھ سفر شروع کیا. حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسی اونٹ پر سوار تھے.
غرض یہ مختصر سا قافلہ روانہ ہوا، راہبر انہیں ساحل سمندر کے راستے سے لے کر جا رہا تھا. راستے میں کوئی ملتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھتا.
یہ تمہارے ساتھ کون ہیں .
تو آپ اس کے جواب میں فرماتے.
میرے ساتھ میرے راہبر ہیں .
یعنی میرے ساتھ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں . ان کا مطلب تھا کہ یہ دین کا راستہ دکھانے والے ہیں مگر پوچھنے والے اس گول مول جواب سے یوں سمجھتے کہ یہ کوئی راہبر (گائیڈ) ہیں جو ساتھ جا رہے ہیں .
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس طرح جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو میرے پاس سے ٹالتے رہنا، یعنی اگر کوئی میرے بارے میں پوچھے تو تم یہی ذو معنی (گول مول) جواب دینا. کیونکہ نبی کے لیے کسی صورت میں جھوٹ بولنا مناسب نہیں … چاہے کسی بھی لحاظ سے ہو، چنانچہ جو شخص بھی آپ ﷺ کے بارے میں سوال کرتا رہا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یہی جواب دیتے. رہ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ…. وہ ان راستوں سے اکثر تجارت کے لیے جاتے رہتے تھے، انہیں اکثر لوگ جانتے تھے، ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کون ہیں .
ادھر قریش نے سو اونٹنیوں کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی سنا جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.
سراقہ رضی اللہ عنہ خود اپنی کہانی ان الفاظ میں سناتے ہیں .
میں نے یہ اعلان سنا ہی تھا کہ میرے پاس ساحلی بستی کا ایک آدمی آیا، اس نے کہا، کہ اے سراقہ. میں نے کچھ لوگوں کو ساحل کے قریب جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی ہیں .
مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ آنحضرت ﷺ اور ان کے ساتھی ہی ہو سکتے ہیں ، چنانچہ میں اٹھا، گھر گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ میری گھوڑی نکال کر چپکے سے وادی میں پہنچا دے، اور وہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ نکالا اور اپنے گھر کے پچھلی طرف نکل کر وادی میں پہنچا. اس رازداری میں مقصد یہ تھا کہ میں اکیلا ہی کام کر ڈالوں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کر لوں . میں نے اپنی زرہ بھی پہن لی تھی، پھر میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس طرف روانہ ہوا، میں نے اپنی گھوڑی کو بہت تیز دوڑایا. یہاں تک کہ آخر کار میں آنحضرت ﷺ سے کچھ فاصلے پر پہنچ گیا، لیکن اسی وقت میری گھوڑی کو ٹھوکر لگی، وہ منہ کے بل نیچے گری، میں بھی نیچے گرا، پھر گھوڑی اٹھ کر ہنہنانے لگی. میں اٹھا، میرے ترکش میں فال کے تیر تھے. یہ وہ تیر تھے جن سے عرب کے لوگ فال نکالتے تھے، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا تھا، کرو، اور کسی پر لکھا ہوتا تھا، نہ کرو، میں نے ان میں سے ایک تیر لیا، اور فال نکالی،… یعنی میں جاننا چاہتا تھا، یہ کام کروں یا نہ کروں ،… فال میں انکار نکلا، یعنی یہ کام نہ کرو، لیکن یہ بات میری مرضی کے خلاف تھی، میں سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کرنا چاہتا تھا، نہ والا تیر نکلنے کے باوجود میں گھوڑی پر سوار ہو کر آگے بڑھا. یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کے بہت قریب پہنچ گیا جو کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے تھے، البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مڑ کر بار بار دیکھ رہے تھے.
اسی وقت میری گھوڑی کی اگلی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں ، حالانکہ وہاں زمین سخت اور پتھریلی تھی. میں گھوڑی سے اترا… اسے ڈانٹا…. وہ کھڑی ہو گئی لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک زمین میں دھنسی ہوئی تھیں وہ زمین سے نہ نکلیں .
میں نے پھر فال نکالی. انکار والا تیر ہی نکلا. آخر میں پکار اٹھا.
میری طرف دیکھیے، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا اور نہ میری طرف سے آپ کو کوئی ناگوار بات پیش آئے گی…. میں سراقہ بن مالک ہوں ، آپ کا ہمدرد ہوں …. آپ کو نقصان پہنچانے والا نہیں ہوں …. مجھے معلوم نہیں کہ میری بستی کے لوگ بھی آپ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں یا نہیں .
یہ کہنے سے میرا مطلب تھا، اگر کچھ اور لوگ اس طرف آ رہے ہوں گے تو میں انہیں روک دوں گا. اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا.
اس سے پوچھو، یہ کیا چاہتا ہے.
اب میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا…. اپنے ارادے کے بارے میں بتا دیا اور بولا.
بس آپ دعا کر دیجئے کہ میری گھوڑی کی ٹانگیں زمین سے نکل آئیں …. میں وعدہ کرتا ہوں ، اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں