ansar-abbasi urdu articles 206

سیاست پر کوئی کیا لکھے.انصارعباسی

مجھے اکثر کہا جاتا ہے کہ میں اپنے کالموں میں سیاست پر کیوں نہیں زیادہ لکھتا اور کیا وجہ ہے کہ اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ جیسے مسائل کو ہی زیادہ تر اپنا موضوع بناتا ہوں۔

سیاست پر بندہ کیا لکھے جب سیاست میں موجود اکا دکا ایماندار سیاسی رہنما بھی کسی ایسے سیاستدان کو اچھا اور زیرک گردانیں جس کے نام کے ساتھ پاکستان کیا دنیا بھر میں کرپشن کو جوڑا جاتا ہے۔

اس مسئلہ پر اور لوگ کافی بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں اور چٹ پٹا کالم بھی لکھ سکتے ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ میں اُس مسئلہ پر ہی لکھوں جو میری نظر میں زیادہ اہم ہے۔

گزشتہ روز ایک انگریزی اخبار میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن نے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں کو ہدایت جاری کی ہے کہ اساتذہ خواتین ہوں یا مرد ،اسکول، کالج میں جینز نہ پہنیں۔

خواتین اساتذہ کو جینز اور ٹائٹس پہننے سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ شلوار قمیض اور دوپٹہ اوڑھیں جبکہ مرد اساتذہ کو کہا گیا کہ وہ جینز نہ پہنیں، شلوار قمیض اور واسکٹ (جو ہمارا قومی لباس ہے) وہ زیبِ تن کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ توقع کے مطابق اس ہدایت نامہ نے ہمارے ملک میں مغربی کلچر سے متاثر ایک محدود سے طبقے کو مایوس بھی کیا اور غصہ بھی دلایا۔

میڈیا میں موجود اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے اس پر سیخ پا بھی ہو گئے اور سوال اٹھا دیا کہ حکومت کی توجہ تعلیم پر ہونی چاہئے کہ جینز پر؟ اسی طبقہ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ تو Moral Policing ہے۔ کمال ہے حکومت اگر یہ سمجھتی ہے اور بجا طور پر درست سمجھتی ہے کہ اساتذہ کو مہذب لباس پہن کر سکول کالج آنا چاہئے تاکہ طلبہ پر اچھا اثر پڑے۔

اُن کی بہتر تربیت ہو تو اسے بھی صرف اس لئے اسکینڈیلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیوں کہ اس طبقے کو اعتراض دراصل اس بات پر ہے کہ خواتین کو جینز اور ٹاٹس پہننے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔

Moral Policing کی گردان کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام حکم دیتا ہے کہ ہم اچھائی کی ترغیب دیں اور بُرائی سے روکیں اور جہاں تک ریاست اور حکومت کی بات ہے تو یہ اُن کا آئینی اور قانونی طور پر فرض ہے کہ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کو مغربی کلچر سے پاک کریں اور لباس کے معاملے میں ایک ڈریس کوڈ نہ صرف اساتذہ بلکہ طلباوطالبات دونوں کے لئے جاری کریں اور اس پر سختی سے علمدرآمدکروائیں۔

یہ ڈریس کوڈ صرف وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے ہی مختص نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو نجی تعلیمی اداروں پر بھی لاگو کیا جانا چاہئے۔

ہماری دینی و معاشرتی اقدار کے مطابق صوبوں کو بھی تعلیمی اداروں کے لئے ڈریس کوڈ جاری کرنا چاہئے۔ اس وقت تعلیمی اداروں خصوصا ًنجی یونیورسٹیوں کا جو حال ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔

نہ صرف مغربی لباس پہننا عام ہو گیا ہے بلکہ کئی درس گاہیں لڑکوں لڑکیوں میں دوستیوں اور افیئرز کے لئے زیادہ جانی جاتی ہیں۔ میں تو پہلے بھی کہہ چکا ہوںاور اب بھی اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ جس تیزی کے ساتھ تعلیمی اداروں کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔

اُس تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی اداروں کا نظام بنائے تا کہ لڑکا ہو یا لڑکی وہ تعلیم کے حصول کے اپنے اصل مقصد سے کسی بھی صورت میں دور نہ ہو۔

یہاں میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور افواج پاکستان کے ذمہ داروں سے بھی یہ گزارش کروں گا کہ پولیس اور افواج میں خواتین ملازمین کے لئے ایسا یونیفارم لاگو کریں جو ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کے مطابق ہو۔

کچھ علاقوں میں خواتین پولیس آفسرز جن کے لئے پینٹ کے اوپر لمبی کھلی شرٹ کا یونیفارم تھا، اب اُنہیں مردوں کی طرح کا یونیفارم دے دیا گیا ہے جس پر مجھے کچھ اعتراضات بھی موصول ہوئے۔

جہاں تک Moral Policing کا پروپیگنڈہ کرنے والوں اور بے حیائی کو پروموٹ کرنے والے میڈیا کا تعلق ہے تو میرا اُن سے ایک سوال ہے کہ ہر ایسے معاملہ کو وہ فوری طور پر اُٹھا دیتے ہیں اور اُسے اسکینڈلائز کرتے ہیں جس کا تعلق اسلامی شعائر اور احکامات پر عملداری سے ہوتا ہے لیکن اگر کہیں خواتین کو اُن کی مرضی کے خلاف مغربی لباس پہنایا جا رہا ہو اور وہ معاملہ سامنے بھی آ جائے تو اُس پر وہ کوئی چپ سادھ لیتے ہیں۔

حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک نجی کاروباری ادارے نے اپنے ہاں کام کرنے والی خواتین ورکرز جن کے ڈریس کوڈ پہلے پینٹ شرٹ کے علاوہ کوٹ بھی تھا، اُنہیں حکم دیا گیا کہ وہ کوٹ نہ پہنیں اور صرف پینٹ شرٹ پہنیں۔

اس پر خواتین ورکرز نے اعتراض کیا تو اُنہیں کہا گیا اگر ہماری مرضی کا لباس نہیں پہننا تو نوکری چھوڑ دیں، ہمیں دوسری ورکرز مل جائیں گی۔ یہ معاملہ ہمارے لبرل میڈیا اور مخصوص طبقے کو نظر ہی نہیں آیا۔

وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ بھئی کام سے مطلب رکھو، تمہارا خواتین ورکرز کے لباس کو کم کرنے سے کیا مطلب۔ یہ دراصل خواتین کا استحصال ہے جو ترقی ، آزادی اور حقوقِ نسواں کے نام پر کیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں