Muhammad Mushtaq 316

سٹیٹ بینک، آئی ایم ایف اور ایچ ای سی. مشتاق احمد

سٹیٹ بینک، آئی ایم ایف اور ایچ ای سی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عجیب ہنگامہ برپا ہے کہ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی تحویل میں دے دیا گیا، سٹیٹ بینک کو ریاست بالاتر اور عدالت سے ماورا حیثیت دے دی گئی، قومے فروختند، اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ؟
اور یہ سب کچھ ایک آرڈی نینس کے ذریعے؟
جبکہ وہ آرڈی نینس ابھی آیا بھی نہیں؟
یار اگر آرڈی نینس میں اتنی طاقت ہے جبکہ وہ ایک عارضی قانون ہوتا ہے، تو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون، ایکٹ، میں کتنی طاقت ہوگی جبکہ وہ مستقل قانون ہوتا ہے؟ اور پھر دستور میں کتنی طاقت ہوگی جبکہ تمام قوانین (ایکٹس بھی اور آرڈی نینسز بھی) اس کے ماتحت ہونے ضروری ہیں؟
آرڈی نینس نے تو چار مہینے بعد ختم ہونا ہے، الا یہ کہ اسے دوبارہ جاری کیا جائے، یا پارلیمنٹ اسے ایکٹ میں تبدیل کردے۔ پارلیمنٹ تو اسے ختم بھی کرسکتی ہے۔
اور آرڈی نینس ہو یا ایکٹ، اسے دستور سے تصادم کی بنیاد پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ، جبکہ شریعت کے تصادم کی بنیاد پر شریعت کورٹ، کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
یہاں تک کہ اگر کسی آرڈی نینس یا ایکٹ میں یہ تصریح بھی کی گئی ہو کہ اس کی کسی شق کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، تب بھی اس آرڈی نینس کو، اور ایسی ouster clause کو، عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
اور ہاں،
اس دوران میں حکومت ایک آرڈی نینس کے ذریعے ایچ ای سی کے چیئرمین کی مقررہ مدتِ ملازمت میں کٹ لگاچکی اور اس آرڈی نینس کے ذریعے قانون اور دستور کے بعض مسلّمات کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔ چنانچہ سندھ ہائی کورٹ نے آج اس پر ابتدائی طور پر عبوری حکم جاری کردیا ہے۔
اس لیے، دوستو!
جیسے ہم پنج نسلی گوریلوں کی بے ہنگم اچھل کود کی مخالفت کرتے ہیں، ایسے ہی پٹواریوں، سوری ویلج افسران، کی لایعنی بکواس کو بھی یکسر مسترد کرتے ہیں۔