344

سوار محمد حسین شہید، نشان حیدر کی سوانح عمری

سوار محمد حسین شہید، نشان حیدر

تعارف:
ہر طرف آگ، بارود اور دھوئیں کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس آگ کے طوفان میں ایک پرجوش جوان ہر قسم کے خطرے سے بے نیاز ہو کر اگلے مورچوں کے درمیان دوڑ دوڑ کر شجاعت کا ایک نیا ورق لکھ رہاتھا۔ یہ سوار محمد حسین شہید نشان حیدر تھے۔ان کے خاندان کے کسی فرد کے بھی یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا بیٹا وطن عزیز کی خاطر اپنی جان،جان آفرین کے سپرد کر دے گا اور ان کے خاندان کا نام امرکرجائے گا۔سوار محمد حسین پوری دنیا کی فوجی تاریخ میں یقیناًایک مثال کا درجہ رکھتے ہیں کہ وہ ایک ڈرائیور ہونے کے باجود حملہ آور دشمن پر اپنی گن سے پل پڑے اور انہیں بھاگنے پر مجبو رکردیا۔
سوار محمد حسین شہید1971کی جنگ میں اپنے ساتھیوں کو ایک مورچہ سے دوسرے مورچے تک اسلحہ پہنچاتے رہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر دشمن کے 16ٹینکوں کو تباہ کیا اور شکرگڑھ کے محاظ پر دشمن کو ایک بہت بڑے علاقے سے بے دخل کر دیا۔ دشمن نے بوکھلاہٹ میں آکر ان کی پوزیشن پر حملہ کر دیا۔ 10دسمبر1971 کوظفروال۔ شکر گڑھ کے علاقے ہرڑخو رد میں دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینک کی نشاندہی کے لئے جیسے ہی وہ مورچے سے اٹھے ، دشمن نے مشین گن کی گولیوں کی بوچھاڑسے ان کا سینہ چھلنی کردیا ۔وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے لیکن ان کے جانباز ساتھیوں نے دشمن کو پسپا کر دیا۔ دشمن بھاری مالی و جانی نقصان کے بعد فرار ہو گیا۔ اس جانبازی اور بے لوث خدمت کے صلے میں سوار محمد شہید کوبہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
ابتدائی زندگی:
سوار محمد حسین 18جون1949ء کو ڈھوک پیر بخش ،تحصیل گجر خان ( ضلع راولپنڈی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام روز علی تھا۔یہ ایک غریب مگر دین دار گھرانہ تھا ۔جہاں نماز روزے کی پابندی سب سے افضل سمجھی جاتی تھی۔انکے والدین اگرچہ دنیاوی تعلیم سے بہرہ مند نہ تھے لیکن دینی تعلیم اور احکامات کو بہت خوب جانتے تھے۔یہ ایک خود دار اور غیرت مند گھرانہ تھا جس میں سوار محمد حسین پیدا ہوئے۔سوار محمد حسین شہید کو سب سے پہلے کلام اللہ کی تعلیم سے روشناس کروایا گیاجو کہ اس دور میں لازمی ہوتی تھی۔اس کے بعدانہیں ضلع جھنگ پیرو میں ایک پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔اگرچہ ان کے والد گرامی ایک غریب کاشتکار تھے مگر تعلیم کی ضرورت اور افادیت سے ضرور باخبر تھے۔پرائمری تعلیم کے بعد ان کوہائی سکول دیوی میں داخل کروایا گیا۔اس سکول میں انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔یہ وہ وقت تھا جب 1965ء کی جنگ بند ہو چکی تھی مگر اس کے اثرات پورے ملک پر ابھی بھی موجو دتھے۔3ستمبر1966ء میں جاتلی کے مقام پر پاک فوج کا کیمپ لگایا گیا جس میں فوج میں شامل ہونے والے خواہشمند جوانوں کو بھرتی کیا جا رہا تھا۔سوار محمد حسین نے جب یہ سنا تو انہوں نے بھی جاتلی جانا پسند کیا ۔چنانچہ انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست دل پذیر خان کو اپنے ساتھ لیا اور جاتلی پہنچ گئے۔ دونوں دوست صحت و تندرستی میں اپنی مثال آپ تھے۔جب یہ دونوں جاتلی ریسٹ ہاؤس میں ریکروٹنگ آفیسر کے رو برو پیش ہوئے تو ان کو ایک انٹرویو کے بعد فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔سوار محمد حسین کی تو شروع سے یہی خواہش تھی کہ مادر وطن کی حفاظت کے لئے فوج میں شامل ہوجائیں۔اب ان کا خواب پورا ہو رہا تھا۔ وہ خوشی خوشی گھر واپس آئے اور سب کو بتایا کہ وہ فوج میں شامل ہو گئے ہیں۔فوج میں بھرتی ہوئے ابھی دو برس ہی گزرے تھے کہ ان کے گھر والوں نے شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔انکے گھر والوں نے ان کی خالہ زاد محترمہ ارزاں بی بی کو پسند کیا۔یوں ان کی شادی محترمہ ارزاں بی بی سے ہو گئی۔ان سے ان کے دو بچے ہوئے۔وہ اس وقت سیالکوٹ میں تھے ۔
خاندان:
گجرات اور جہلم کے علاقوں کو یہ اعزاز صدیوں سے حاصل رہاہے کہ یہاں پر بہادروں اور دلیروں کی کبھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ان علاقوں میں دلیری،بے خوفی اور جانبازی قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور اب بھی پاک فوج میں ان علاقوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے ۔سوار محمد حسین راجپوتوں کے جنجوعہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو کہ بہادری اور دلیری میں اپنی مثال آپ ہے۔ان کا خاندان طویل عرصے سے ڈھوک پیر بخش میں قیام پذیر ہے۔دراصل یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی تمام تر آبادی ایک دوسرے سے رشتوں میں بندھی ہوئی تھی۔یہ گاؤں جو اب اچھا خاصا قصبہ بن چکا ہے، مندرہ سے دس میل کے فاصلے پر آباد ہے۔اس گاؤں کو بہادروں کا گاؤں کہا جاتاہے۔یہ خاندان معاشی طور پر بد حالی کا شکار تھاکیونکہ سوار محمد حسین کے والد گرامی جناب روز علی صاحب اپنے اہل خانہ کے علاوہ اپنے بھائی کے کنبہ کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے تھے۔جناب روز علی ایک غریب مگر محنتی اور جفاکش انسان تھے۔انہوں نے یہی جفاکشی سوار محمد حسین میں بھی پیدا کی۔جناب روز علی صاحب ایک دیندار شخصیت تھے۔سوار محمد حسین شہید کی والدہ بھی نماز روزے کی سخت پابند تھیں۔سوار محمد حسین کے نانا جناب حوالدار احمد خان صاحب ایک معروف شخصیت تھے ۔انہوں نے جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج میں اپنی بہادری اور دلیری کا سکہ جمایا اور چار تمغے بہادری اور دلیری کے اعتراف کے طور پر برطانوی فوج نے ان کو دئیے تھے۔سوار محمد حسین شہید میں بھی ایسی ہی دلیری اور بہادری موجود تھی۔سوار محمد حسین کے نا نا کے علاوہ ان کے ایک قریبی رشتہ دار شہامدخان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بے مثال دلیری اور بہادری کے صلہ میں برطانیہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز (وکٹوریہ کراس) حاصل کیا۔یہ اعزاز کسی ہندوستانی اور پھر کسی مسلمان کو ملنا بڑی اہم بات تھی۔سوار محمد حسین شہید بہادروں اور دلیروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ ابھی نو عمر ہی تھے تو آپ میں سپاہیانہ اوصاف دکھائی دیتے تھے۔ان کا ایک واقع کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جبکہ آپ ایک نو عمر طالب علم تھے تو آپ میں جنگ کرنے کا شدید ترین جذبہ پایا جاتا تھا۔آپ کی ان دنوں یہی خواہش تھی کہ وہ بھی فوج میں بھرتی ہو جائیں اور وطن کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیں۔ان کی یہ خواہش اللہ نے 1971کی جنگ میں پوری کردی۔
سیرت و کردار:
سوار محمد حسین بہت ہی بے خوف،نڈر اور بہادر شخص تھے جبکہ صاف گوئی ان کی اضافی خوبی شمار کی جاتی تھی۔آپ کی گفتگو مسحور کن اور لہجہ ادب و احترام سے بھرپور تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت ہی سریلی آواز سے نوازا تھا۔جب دوستوں کی محفل ہوتی تو سب دوست ان سے کچھ سنانے کی فرمائش کرتے تھے ۔مشہور لوک گیت ان کو بہت پسند تھے ۔جب محرم الحرام کا مہینہ آتا تووہ بڑے ادب و احترام کے ساتھ سانحہ کربلا کے واقعات پڑھتے تو سننے والے آبدیدہ ہو جاتے ۔جب ان کو کچھ تھوڑا وقت حاصل ہوتا تو اس موقع میں وہ اپنا دل مطالعہ میں لگاتے ۔انکے پسندیدہ موضوعات سیرت اولیائے کرام اور سانحہ کربلا پر لکھی گئی کتب تھیں۔وہ اپنے پیرو مرشد کا بے حد احترام کرتے اور گاؤں میں آنے کے بعد سب سے پہلے اپنے پیرومرشد کو ملتے تھے۔اور جب واپس جاتے تو سب سے آخر میں ان سے ملاقات کرتے۔سوار محمد حسین کی آنکھیں نیلی تھیں اور وہ سرخ و سفید رنگ کے مالک تھے۔ان کا جسم سڈول اور قد طویل تھا۔ طویل قد اور سڈول جسم نے ان کو ایک باوقار شخصیت بنا دیاتھا ۔وہ فطری طور پر بے حد سادہ طبیعت کے مالک تھے۔وہ غذا میں بھی سادگی پسند کرتے تھے مگر دودھ،دہی اور لسی کو وہ حد پسند کرتے تھے۔کھانے پینے کے علاوہ ان کا لباس بھی سادگی کا اعلیٰ نمونہ تھا۔جب وہ ڈیوٹی پر نہ ہوتے تو اکثرشلوار قمیض زیب تن کرتے تھے اور اسی طرح جب وہ اپنے گھر آتے تو پھر ان کا لباس شلوار قمیض ہوتاتھا۔سوار محمد حسین کی طبیعت بہت سادہ تھی۔سوار محمد حسین کے والد گرامی جناب روز علی بزرگان دین سے عقیدت رکھنے والے تھے اور یہی خاصیت سوار محمد حسین میں بھی موجود تھی۔بزرگان دین سے عقیدت اور محبت کی وجہ سے ہی محمد حسین شہید کے اندر ملنساری اور شرافت کی خصوصیات موجود تھیں۔ ان کی خوش گفتاری اور خوش مزاجی دوسروں کے دل کو موہ لیا کرتی تھی ۔کہتے ہیں کہ چہرہ انسان کے جذبات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ سوار محمد حسین کے چہرے پر ہر وقت ایک پر سکون مسکراہٹ قائم رہتی تھی۔تمام عمر انہوں نے کبھی کسی کو ناراض نہیں کیا۔وہ ایک ہمدرد اور مہمان نواز شخص تھے۔ان کی تنخواہ کم تھی اور وہ ایک شادی شدہ شخص تھے مگر آپ حتی المقدور دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے۔وہ ایک ایسے شخص تھے جن پر پوری طرح اعتماد کیا جا سکتا تھا۔سوار محمد حسین کی ازدواجی زندگی خوشیوں سے بھرپور تھی۔ حالانکہ ان کی ازدواجی زندگی طویل نہ ثابت ہوئی بلکہ صرف چار برس پر محیط تھی مگر اس کے باوجود ان کی زندگی ایک مثالی زندگی تھی۔ان چار برسوں میں ایک مرتبہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ ان میں اور ان کی زوجہ میں ناراضگی پیدا ہوئی ہو۔ان کی زوجہ کی طبیعت بھی ان جیسی تھی۔ چنانچہ دونوں ایک دوسرے کا دل و جان سے خیال رکھتے تھے۔سوار محمد حسین اوائل عمری سے ہی جذبہ وطن کی محبت کے جذبہ سے سرشار ۔وہ کھیلوں میں بھی خاصی دلچسپی لیتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں ان کے کبڈی،رسہ کشی ، اور والی بال پسندیدہ کھیل تھے اور وہ اپنے سکول کی ٹیموں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔فوج میں شمولیت جب اختیار کی تو انہوں نے باسکٹ بال کے کھیل میں بھی خاصی مہارت حاصل کر لی۔
پیشہ ورانہ زندگی:
کچھ لوگ پیدائشی سپاہی پیدا ہوتے ہیں سوار محمد حسین شہید بھی ایسے ہی تھے۔ابھی پوری طرح انہوں نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ ان کے انداز و اطوار میں سپاہیانہ جھلک صاف دکھائی دینے لگی تھی۔انہوں نے فوج میں شمولیت کا پختہ ارادہ1965ء کی جنگ کے دوران ہی کر لیا تھا۔جب ان کو فوج میں شامل کر لیا گیا تو ان کو ابتدائی تربیت کے لئے نوشہرہ روانہ کر دیا گیا۔نوشہرہ سے تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کو سیالکوٹ میں تعینات کر دیا گیا۔جہاں وہ تادم شہادت تعینات رہے۔وہ اپنی خدمات خوش اسلوبی اور دلیری سے سر انجام دیتے رہے۔تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کو 20لانسر جو آرمڈ کور کی ایک یونٹ ہے میں بطورڈرائیور تعینات کیا گیا۔سوار محمد حسین کی فوج میں شمولیت کو یہ پانچواں برس تھا جب بھارت نے مغربی پاکستان میں بھی جنگ چھیڑ دی۔مشرقی پاکستان میں تو جنگ پہلے سے ہی جاری تھی مگر مشرقی پاکستان سے مواصلاتی اور کمک کا رابطہ کاٹنے کیلئے مغربی پاکستان پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔اس وقت سوار محمد حسین نازک ترین محاذ یعنی شکر گڑھ میں تعینات تھے۔ان کا شعبہ نہایت ہی اہم نوعیت کا تھا۔وہ اس شعبہ سے تعلق رکھتے تھے جس نے گاڑیوں پر اسلحہ اور فوجیوں کو لے کر جانا ہوتا تھا۔یہ بڑی ہی مہارت اور جانفشانی کا کام تھا۔اس شعبہ میں ہر ڈرائیور ہی بہت اہم ہوتا تھا کیونکہ اس کی گاڑی پر جو اسلحہ بارود ہوتا اس کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ہر ڈرائیور کو دشمن کی پیدل فوج اور فضائیہ سے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔جنگ کے دوران تمام گاڑیوں کو کسی محفوظ مقام پر کھڑا کیا جاتا تھا اور ان سے برابر رابطہ قائم رکھا جاتا تھا۔ اگر فوری طور پر کوئی ضرورت پیش آ جائے تو ان کو فوری حکم دیا جائے ۔ ڈرائیور کو ہر وقت اس کی گاڑی میں موجود رہنا لازمی ہوتا تھاجبکہ ان کو دوسرا کوئی کام نہیں سونپا جاتا تھا۔اس کامطلب یہ ہوا کہ ان کا یہ کام بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔سوار محمد حسین کے ذمہ اپنی گاڑی میں احکامات کا انتظار کرنا ہوتا تھا ۔مگر انہوں نے قوانین کو فرض پر قربان کرتے ہوئے پوری طرح جنگ میں شرکت کی اور اپنے افسران کو ہر قسم کا سلحہ اور بارود پہنچاتے رہے۔ اگرچہ یہ ان کی ذمہ داری نہ تھی اور اگر وہ چاہتے تو دوسرے ڈرائیوروں کی طرح اپنی گاڑی میں کسی بھی قسم کا انتظار کرنے کیلئے بیٹھ سکتے تھے۔مگر شوق شہادت میں وہ خود ہی اگلے مورچوں تک چلے جاتے اور مجاہدوں کو گولہ اور بارود سپلائی کرتے۔سرکاری طور پر ان کی شہادت کے بعد یہ اعتراف کیا گیا کہ سوار محمد حسین نے تن تنہا ہی دشمن کے سولہ ٹینکوں کو تباہ کیا تھا۔یہ کارنامہ ایک ایسے فوجی کا تھا جو محض ایک ڈرائیور تھا۔بلاشبہ یہی وہ جذبہ تھا جس کے زیر اثر وہ فضا میں بھارتی طیاروں کو دیکھ کر نعرے بلند کیا کرتے تھے ۔پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔
شہادت اور نشان حیدر:
بھارت نے جب مغربی پاکستان پر حملہ کیا تو سوار محمد حسین شہید تمام رات اپنے ساتھیوں کو تیزی سے اسلحہ سپلائی کر رہے تھے۔اسلحہ سپلائی کرنے کے بعد وہ ایک مورچہ میں چلے گئے اور وہاں پر موجودفوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تو ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں تھا مگر وہ اپنے دلی جذبات کے ہاتھوں مجبور تھے۔جنگ کے ابتدائی لمحات میں جنگ اپنے زوروں پر تھی۔اس وقت بھی دشمن اپنی پوری قوت کے ساتھ فائرنگ کر رہا تھا۔ مگر فائرنگ کی سوار محمد حسین کو ہرگز کوئی پرواہ نہ تھی اسی طرح دو دن گزر گئے ۔جنگ پورے زوروں پر پہنچ چکی تھی۔5دسمبر1971ء کو 20لانسر کو بھی دشمن کے مقابل آنے کے احکامات ملے ۔جب سوار محمد حسین کو یہ اطلاع ملی تو وہ اپنے کمانڈنگ آفیسرلیفٹیننٹ کرنل محمد طفیل کے پاس گئے اور عرض کی کہ انہیں اسلحہ کی فراہمی کے فرائض سونپے جائیں۔اپنے کمانڈنگ آفیسر کو انہوں نے یہ بتایا کہ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں اور میرے ساتھی جنگ میں مصروف رہیں۔چنانچہ ان کو با ضابطہ طورپر اسلحہ کی فراہمی کی اجازت مل گئی۔ اسی کے ساتھ ان کو ایک گن بھی دے دی گئی ۔اب سوار محمد حسین ایک ڈرائیور ہی نہیں تھے بلکہ ایک مکمل لڑاکا سپاہی تھے۔اس کے بعد وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اگلے مورچوں پر دشمن کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ اس دن کمانڈنگ آفیسر کو یہ کہا گیا کہ نالہ کے درمیانی علاقے میں اپنی پوزیشن اچھی طرح مضبوط کر لیں۔یہ علاقہ تقریبًا سولہ میل کا تھا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا مگر پاک فوج کے جوانوں نے یہ کام پوری ذمہ داری اور جانفشانی سے سر انجام دیا۔ اس علاقے سے بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ با آسانی پاکستانی علاقے میں داخل ہو سکتی ہے مگر 5دسمبر تا 9دسمبرپاک فوج کے جوانوں نے نہ صرف دشمن کو روکے رکھا بلکہ اس کے ہر حملہ کو پوری قوت کے ساتھ پسپا کردیا۔یہ بات بھارتی فوجیوں کیلئے غیر متوقع تھی۔ اس کو تو یہ خیال تھا کہ یہ ایک کمزور محاذ ہے اور اس کو بڑی آسانی سے فتح کیا جا سکتا ہے۔
اس تمام عرصے میں سوار محمد حسین پوری طرح جنگ میں شامل رہے اور ایک لمحہ بھی آرام سے نہیں گزارا۔یہ 9 دسمبر کا دن تھا ۔سوار محمد حسین شہید دشمن کے ٹھکانوں کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔آخر کار ان کو یہ اطلاع مل ہی گئی کہ موضع ہررڑ خورد میں دشمن کھیڑا نامی گاؤں میں چھپا ہوا ہے۔یہ معلوم کر کے وہ پھولے نہ سمائے۔ ان کو اس بات کی بہت خوشی ہو رہی تھی کہ انہوں نے دشمن کا ٹھکانہ دیکھ لیا ہے۔انہوں نے سوچا کہ اگر میں یہ بات افسران بالا سے جا کر کہوں گا تو ہو سکتا ہے کہ کاروائی کرنے میں دیر ہو جائے ۔چنانچہ وہ ایک محفوظ جگہ پر بیٹھ گئے اور پوزیشن سنبھال کر اچانک دشمن پر فائرنگ شروع کر دی ۔کسی طرح بھی بھارتی فوج یہ خیال نہیں کر سکتی تھی کی ان پر اچانک حملہ ہو سکتا ہے ۔جب تک صورت حال ان پر عیاں ہوتی وہ متعدد بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کر چکے تھے۔سوار محمد حسین شہید نے واپسی میں دیر نہیں کی اور فوری طور پر اپنے کمانڈنگ افسر سے مل کر دشمن کی موجودہ پوزیشنیں بتائیں اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح انہوں نے دشمن پر حملہ کیا اور ان کو پریشان کیا ہے۔یہ سارا دن سوار محمد حسین شہید نے اپنے ساتھیوں کو پوزیشن بتانے میں صرف کر دیا ۔آخر کار پوری منصوبہ بندی کرنے کے بعد پاک فوج نے بھارتی ٹھکانے پر حملہ کر دیا۔ یہ بالکل اچانک حملہ تھا جس میں بھارت کو بھاری نقصان ہوا ۔بھارتی فوج کے متعدد ٹینک ناکارہ بنا دئیے گئے اور اسلحہ ڈپو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔پاک فوج نے بھارت کے مورچوں پر قبضہ کر لیا۔بھارتی فوج نے اس مورچے پر دوبارہ قبضہ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر کامیاب نہ ہوسکی۔دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ ہررڑ کلاں اور ہررڑ خورد کے درمیانی علاقے میں پاکستان کے تین اسکواڈرن متعین کئے گئے۔یہ تین اسکواڈرن بھارت کی فوج کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے ۔سنٹر والے اسکواڈرن میں سوار محمدحسین شہید موجود تھے۔اس راستے میں بارودی سرنگیں نہیں بچھائی گئیں تھیں۔ چنانچہ بھارتی فوج نے جدید ترین اسلحہ کے ساتھ پیش قدمی کی اور اپنے قدموں کو مضبوط کر لیا۔یہ ایک انتہائی خطرناک صور ت حال تھی۔یہی وہ موقع تھا جس وقت سوار محمد حسین نے اپنی جان پر کھیل کر وہ کارنامہ سر انجام دیا۔سوار محمد حسین اپنے مورچے سے نکل کر اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن کے مورچوں تک جا پہنچے اور اس کی تمام پوزیشنوں کا پوری طرح جائزہ لیا اور ذہن نشین کر کے اپنے مورچے میں واپس چلے گئے۔یہ اندھیری رات تھی آپ تمام رات اپنےاس مشن میں مصروف عمل رہے۔بھارتی فوج کے پاس نہ تو اسلحہ کی کمی تھی اور نہ ہی افرادی قوت کی کمی تھی۔اس اچانک حملے کے بعد بھارتیفوج نے اندھا دھند گولہ باری شروع کر دی۔پاک فوج کے جوانوں نے ہر طرف سے بھارتی فوج پر یلغار قائم کر رکھی تھی۔سوار محمد حسین اب صرف ڈرائیور نہ تھے بلکہ ایک اہم ترین مجاہد تھے۔وہ بھی ایک مورچہ میں ڈٹ گئے اور فائرنگ کرتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ بار بار اپنے مورچے میں نعرہ لگاتے ۔ اس دوران اپنے ساتھیوں کو دشمن کے ٹھکانے کی بھی نشاندہی کرتے جاتے۔پاک فوج کے جیالے مجاہد سوار محمد حسین شہید کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے اور دشمن پر تاک تاک کر حملہ کر رہے تھے۔اسی طرح سوار محمد حسین اپنے مورچے میں کھڑے ہو کر اپنے ایک ساتھی کو دشمن کا ٹھکانہ بتا رہے تھے کہ دشمن کی ایک مشین گن کی گولیوں کی ایک باڑ نے ان کے سینے کو چھلنی کر دیااور وہ اسی وقت درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔مگر ان کی قربانی کسی طرح رائیگاں نہیں گئی بلکہ پاک فوج نے بھارت کے اس حملے کو بری طرح پسپا کر دیا۔ان کی جانبازی اور جانثاری کے اعتراف کے طور پر ان کو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔اس کا اعلان صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کیا اور کہا کہ محمد سوار حسین شہید کی یہ قربانی ہماری تاریخ کا قابل فخر سرمایہ ہے اور انشااللہ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں