319

سلطنت دہلی (حصہ دوئم)

سلطنت دہلی (حصہ دوئم)

1290 تا 1525

ا۔ خلجی سلطنت

خلجیوں کا خاندانی پس منظر:

محقق نظام احمدشخصی کی روایت کے مطابق خلجی خاندان کا تعلق چنگیز خان کے داماد قالیج خان سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قالیج خان اپنی بیوی سے ناراض ہو گیا لیکن اس سے ناراضگی کا اظہار اس لئے نہیں کر سکتا تھا کہ اسے چنگیز خان کا ڈر تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد وہ چنگیز خان سے چھپ چھپا کر جرستان کے علاقے کوہستان کی طرف فرار ہو گیا اور اس کا قبیلہ پہاڑوں میں آباد ہو گیا۔

چنگیز خان کی وفات کے بعد منگولوں نے قالیج خان کی طرف کبھی توجہ نہ دی ۔یوں یہ قبیلہ وہاں مضبوطی سے استوار ہو گیا اور وقت کے ساتھ پھلتا پھولتا گیا۔ اسی دوران اس قبیلے نے مبلغین اسلام کے ہاتھوں اسلام کیا۔ جب ہندوستان میں دہلی سلطنت قائم ہوئی اور اس کے ڈنکے دور دور تک بجنے لگے تو قالیج خان کے قبیلے کے لوگ جوق در جوق ہندستان آکر بسنے لگے اور بعض تو شاہی دربار میں اہم مراتب پر فائز ہوئے ۔ ان ہی لوگوں میں سلطان جلال الدین فیرزو شاہ اور سلطان محمود خلجی بھی شامل تھے۔ یہ قبیلہ قالیج خان کی نسبت سے قلجی کہلانے لگا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غلط ہندوستانی تلفظ کی وجہ سے”ق” کو “خ “سے تبدیل کر دیا گیا اور یہ لوگ خلجی بن گئے۔ وہ ہندوستا ن کے مملوک سلطانوں کے خدمتگار بنےاور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہندوستان کے دربار میں اپنی سیاسی ساکھ بنائی اور فوج اور انتظامی میدان میں ایک اہم طاقت بن کر ابھرے۔

جلال الدین فیروز خلجی:

تخت نشینی:

668ہجری میں سلطان جلال الدین جو کہ بنگال کا ایک مشہور سردار تھا ؛نے کیلو کھری کی طرف مارچ کیا اور چند دن سلطان شمس الدین کی نیابت کی لیکن پھر اچانک بادشا ہ کا کام تمام کر کے کیلو کھری میں خود تخت نشین ہوگیا۔ وہ گزشتہ بادشاہوں کے برعکس ملنسار، نیک ، حلیم و بردبار اور رحم دل تھا۔ اس نے کیلو کھر ی کو ہی اپنا پایہ تخت بنایا اور دریائے جمنا کے کنارے ایک زبردست باغ لگایا۔ اس شہر میں اس نے مساجد، تفریحی مقامات بنا کر اسے”شہر نو” کا نام دیا۔

جلال الدین خلجی کے دور کے اہم واقعات:

جلال الدین 70 سال کی عمر میں تخت نشین ہو ا۔ اس نے بہت سی اہم مہمات سر کیں اور کئی علاقوں میں اس نے سیاست سے کام لے کر بغیر جنگ و جدل ملک میں امن و مان قائم کر لیا۔ اس نے بلبن کے بھتیجے ملک بجوبن کشیل خان کو حاکم کڑہ مقرر کر کے اودھ روانہ کیا۔ اپنے بھائی کو عارض ممالک بنا کر یغرش خان کا خطاب دیا۔ اپنے بڑے بیٹے کو اختیار الدین خان خاناں ،منجھلے بیٹے کو ارکلی خان او سب سے چھوٹے بیٹے کو قدر خان کا خطاب دیا۔ ہر ایک کو ایک ایک جاگیر عنایت کی ۔ اس نیک دل بادشاہ نے اپنے بھتیجوں کو جو شہاب الدین مسعود کے فرزند تھے؛ پر بھی تحائف کی برسات کر دی۔ علاؤالدین کو الغ خان کا خطاب دیا۔

الماس بیگ کو آخر بیگ کا لقب عطاہوا۔ جلال الدین نے اپنے بھانجے ملک احمد حبیب کو باربک اوت، ملک خرم کو میردر ،خواجہ خطیر کو وزیر الممالک اورامیر الامرا ءفخرالدین کو کوتوال دہلی مقرر کیا۔ بادشاہ کے جو د وکرم اور سخاوت کا سن کر دہلی کے پرانے امراء اس کے پاس آ کر بسنے لگے۔ تخت پر بیٹھنے کے دو سال بعد ہی اس کے بھتیجے ملک چھجو نے ایک کثیر فوج کےہمراہ دہلی کی طرف کوچ کیا۔ بادشاہ کو خبر ملی تو اس نے اپنے بیٹے ارکلی خان کو لشکر کا سپہ سالار بنا کر مقابلے کے لئے بھیجا ۔ دہلی کے قریب دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا جس میں ملک چھجو شکست کھا گیا اور ارکلی خان نے اسے گرفتار کر کے اپنے والد کے دربار میں بھیجا۔ سلطان نے ملک چھجو کو محافے میں بٹھا کر ملتان روانہ کر دیا اور والی ملتان کو لکھا کہ اس کی خوب خاطر مدارت کی جائے۔ سلطان کے اس اقدام سےخلجی امرائے سلطنت بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور شکایت کی کہ بادشاہ نے جو نرمی اور صلہ رحمی کی روش اپنائی ہوئی ہے ؛اس سے سلطنت کے امیر و وزیر بغاوت پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ میں غیاث الدین بلبن کاایک ادنیٰ نمک خوار تھا۔ بلبن کی حکومت پر قبضہ کر کے اس کےامیروں پر جود و ستم کرنا میرے شایان شان نہیں ۔ اس پرخلجی امیر پیچ وتاب کھاتے ہوئے وقتی طور پر چپ ہوگئے۔

جلال الدین کی شخصیت:

جلال الدین خلجی ایک بزرگ مسلمان، ایماندار ، صاف گواور حسن ظن رکھنے والا بادشاہ تھا۔ وہ ہر وقت عام و خاص کی بھلائی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں کوشاں رہتا تھا۔ اس نے اپنا زیادہ تروقت عبادت الہی میں مشغول ہو کر گزارا۔ اس کی طرح اس کے بیٹے بھی تھےہوبہو اس کی طرح تھے لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور ان کے بجائے اس کا بھتیجا تخت پر بیٹھ گیا۔ جلال الدین خوش اخلاق اور پسندیدہ عادات کا مالک تھا۔ اس نے کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگایا۔

وہ پانچ وقت نماز پڑھتا تھا ۔ اس کو سادھا زندگی پسند تھی۔وہ اپنے امراء کی بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے ابن الوقت امیروں اور وزیروں پر مکمل بھروسہ کرتا تھا۔ وہ انتہائی معصوم حکمران تھا جس کو آئین جہاں بانی کی پیچیدگیوں کا کوئی علم نہ تھا۔ اپنی اسی کمزوری کی وجہ سے 74سال کی عمر میں وہ اپنے بھتیجے علاؤالدین خلجی کے ہاتھوں دریا کے کنارے قتل ہوا۔

جلال الدین کا قتل:

جلال الدین جیسا منصف مزاج اور نیک دل بادشاہ خلجی امراء کی آنکھوںمیں کھٹکنے لگا۔ وہ اس کو راستے سے ہٹانے کے منصونے بنانے لگے۔ اس سازش میں جلال الدین خلجی کا بھتیجا علاؤالدین پیش پیش تھا۔ و ہ کافی عرصہ سے بادشاہ کی نظروں سے دور لکھنوتی میں مقیم تھااور بادشاہ کو ٹھکانے لگا کر خود سلطان بننے کا خواب دیکھ رہا تھا ۔ لہذااس نے بادشاہ سے دور رہ کر خود کو مضبوط کرنا شروع کردیا۔ اس نے مال غنیمت اور لوٹ مار سے ایک زبردست فوج تیار کر لی ۔ادھر سلطان جلال الدین کو اس کے وزیر ملک حبیب نے علاؤالدین خلجی کے اصل ارادوں سے آگاہ کر نے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے بھتیجے کے خلاف کچھ بھی سننے پر آمادہ نہ ہوا۔ علاؤالدین خلجی نے اپنے مشیروں سے مشورہ کر کے کڑھ نامی علاقے میں قیام کیا اور جلال الدین کو وہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

اس نے اپنے بھائی الماس بیگ جو سلطان جلال الدین کا داماد بھی تھا کو سلطان کے پاس بھیجا اور درخواست کی میرا بھائی آپ کے خوف سے چھپا ہوا ہے۔ اگر ظل سبخانی نظر کرم کریں اور کڑھ جا کر اپنے بھتیجے کو گلے لگالیں تو اس کے دل سے شاہی خوف جاتا رہے گا ۔ کہا جاتا ہے کہ اہل دربار کی رائے کے برخلاف سلطان جلال الدین صرف 500 سپاہیوں کے ساتھ علاؤالدین کو ملنے کڑھ چلا گیا۔ جب بادشاہ دریا کے کنارے پہنچا تو الماس بیگ کی باتوں میں آ کر اس نے اپنے پانچ سو سپاہیوں کو دریا کے پار چھوڑ کر اکیلے کشتی میں دریا عبور کیا اور اور سیدھا علاؤالدین کے پھندے میں جا پھنسا ۔ علاؤالدین کے پہلے سے تیار سپاہی دریا کے کنارے جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے۔ پس انہوں نے بادشاہ کو دیکھتے ہی ہلہ بول دیا اور بادشاہ کی گردن قلم کر دی ۔ بادشاہ کے سپاہی کف افسوس ملتے رہ گئے۔ بادشاہ کے بعد اس کے سپاہیوں کو بھی انتہائی بے دردی سے سے تہ تیغ کر دیا گیا۔

جب ملک احمد حبیب کو بادشاہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ فرار ہو گیا۔ سلطان جلالالدین کی بیوہ ملکہ بیگم جہاں نے بادشاہ کے بڑے اور بہادر بیٹے ارکلی خان کے بجائے سنگین غلطی کرتے ہوئے عجلت میں اس کے چھوٹے بھائی کو تخت پر بٹھا دیا۔ارکلی خان اس وقت ملتان میں تھا ۔وہ اپنے چھوٹے بھائی کی تخت نشینی کا سن کر بہت مایوس ہوا۔ اسےجیسے ہی اپنے چھوٹے بھائی رکن الدین ابراہیم کی تخت نشینی کی اطلاع ملی تو وہ بددل ہو کر دہلی کے معاملات سے کنارہ کش ہو گیا۔ جلال الدین خلجی نے سات سال اور کچھ ماہ اوپرحکومت کی۔

سلطان علاؤ الدین خلجی:

تخت نشینی:

جب علاؤالدین کو ارکلی خان کی جگہ رکن الدین ابراہیم جیسے بچے کی تخت نشینی کی اطلاع ملی تو اس نے اپنی سپاہ کو فوراَ کوچ کا حکم دیا ۔اب ملکہ جہاں کو اپنی غلطی کااحساس ہو چکا تھا لہذا اس نے جلال الدین کے بہادر بیٹے ارکلی خان کو خط لکھ کر ملتان سے دہلی آنے کا حکم دیا لیکن اس نے اس نازک موڑ پر ملکہ کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور یہ جواز پیش کیا کہ ہمارے پاس لڑنے کے لئے نہ توفوج ہے اور نہ ہی خزانہ۔ ان حالات میں علاؤالدین کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ علاؤالدین جب دہلی پہنچا تو رکن الدین کے امراء نے اس سے غداری کی اور علاؤالدین سے جا ملے۔ چنانچہ 666 ہجری میں علاؤالدین خلجی نہایت شان و شوکت سے دہلی میں داخل ہوااور تخت دہلی پر جلوہ افروز ہو گیا۔

جلال الدین کی اولاد اور اس کے خیرخواہوں سے نمٹنا:

996 ہجری میں علاؤالدین نے جلال الدین کے بیٹوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پا کر اطمینان سے حکومت کرے۔تب تک اس نے داخلی اور خارجی انتشار سے قابو پا کر خود کو جنگ کے لئے تیار کر لیا تھا۔چنانچہ اپنے بھائی الماس بیگ اور ظفر خان کو ایک لشکر جرار دے کر ملتان پر چڑھائی کا حکم دیا۔ دو ماہ کے محاصرے کے بعد دونوں بھائیوں نے امان کے وعدے پر الماس بیگ اور ظفر خان کی ضمانت پر علائی لشکر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ تاہم بادشاہ علاؤالدین نے ضمانت یا وعدے کا پاس نہ کرتے ہوئے جلال الدین کے بیٹوں کو گرفتار کر کے ان کی آنکھوں میں سلائی پھیروا دی۔ ملکہ جہاں اور دیگر اہل و عیال کو ہانسی کے قلعے میں نظر بند کر دیا۔ جلالی امراء اور ان کی اولادوں کی تمام جائیداد کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔

علاؤالدین خلجی کی شخصیت:

علاؤالدین خلجی ہندوستان کا ایک مضبوط اور بہادر بادشاہ گزرا ہے۔وہ ہندوستان کے خوش قسمت ترین بادشاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ مضبو ط قوت ارادی کامالک، اولعزم اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والا بادشاہ تھا۔ اس نے کسی بھی موقع پر کبھی کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ وہ اپنے چچا جلال الدین کے برعکس انتہائی چالاک اور بیدار مغز حکمران تھا جو دشمن کے عزائم اور چالوں کو بروقت بھانپ لیتا تھا۔ وہ خود پڑھا لکھا نہیں تھا نہ اس کو علم سے دلچسپی تھی لیکن وہ ملک کے انتظام و انصرام میں انتہائی دلچسپی لیتا تھا۔ وہ وعدہ خلاف اور پرلے درجے کا ابن الوقت تھا۔

اس کو دربار سجانے اور اپنے لشکر کے جاو جلا ل سے عوام و خواص کو مرعوب کرنے کا بہت شوق تھا۔وہ مملکت کے کاموں میں کسی بھی صلہ رحمی کا روا دارنہیں تھا۔ اس نے اپنے تاج وتخت کو مضبوط بنانے کے لئے شاہی خاندان کے ہر اس فرد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جو کبھی بھی تخت کا دعویدار ہو سکتا تھا۔وہ اتنا سفاک تھا کہ اپنی حکم عدولی پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر ان کی کھال میں بھس بھر واکر چوکوں میں لٹکا دیتا تھا۔ اس کی حکم عدولی کا ملک کےاندر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

وہ محنتی اور کام سے لگن رکھتا تھا لیکن طبعاًعیش پر ست اور لہو و لہب میں ڈوبا ہوا شخص تھا۔ اس نے رعایا پر تو شراب نوشی بند کر رکھی تھی لیکن خود شراب و کباب کا رسیا تھا۔ اپنی اسی کمزوری کی وجہ سے وہ لقمہ اجل بنا۔

علاؤالدین کے دور کے اہم واقعات:

علاؤالدین خلجی ایک طالع آزما حکمران تھا جو نچلا نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اس کے دور میں اندرونی سازشوں اور بغاوتوں کے علاوہ بیرونی فتوحات کا طویل سلسلہ چل پڑا جو اس کی وفات تک جاری رہا۔اس نے چھوٹے بڑے کل ملا کر اٹھاسی معرکوں میں حصہ لیا ۔ وہ پہلا مسلمان حکمران تھا جو لڑائی میں ہاتھی پر بیٹھ کر جاتا تھا اور سب سے آگے رہتا تھا۔ اس کے دور میں منگول غول وسطی ایشیا سے ایک ڈراؤنے خواب کی مانند نکلے اور ہندوستان پر پے درپے حملے کرنے لگے لیکن علاؤالدین نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کر کے انہوں مار بھگایا۔اس نے اندرونی اور بیرونی شورشوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور ملک میں استحکام لا کر اسے ترقی کی راہ پر ڈالا۔ یوں اس کا دور ہندوستان میں مسلم حکمرانی کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے دور کے چیدہ چیدواقعات و مہمات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:۔

1۔ بادشاہ کے تخت نشین ہوتے ہی پہلا حملہ منگولوں کی طرف سے ہوا۔ دوا خان حاکم ماوراالنہر نے ایک لاکھ لشکر جرارکے ساتھ ہندوستان پر حملہ کیا۔ علاؤالدین نے اپنے بھائی الماس بیگ اور ظفر خان کو اس حملے کو روکنےکے لئے بھیجا ۔ لاہور کے مقام پر ایک خونریز لڑائی کے بعد منگولوں کو شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر بھاگے اور اپنے ملک تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اس سے علاؤالدین ایک مضبوط حکمران بن کرابھرا۔

2۔ 797 ہجری کے اوائل میں الماس بیگ اور نصرت خان نے گجرات پر حملہ کیا اور گجرات کے حاکم رائے کرن کو شکست دے کر گجرات پر قبضہ کر لیا۔گجرات ایک وسیع اور زرخیز علاقہ تھا ۔اس سے حکومت کو کافی مالیہ ولگان حاصل ہوا۔

3۔ قطلغ خواجہ جو دوا خان کا بیٹا اورحاکم ماواالنہر تھا؛نے اگلے سال ایک لاکھ لشکر کے ساتھ ہندوستان پر پھر چڑھائی کی۔منگول لشکر ہندوستان کے مرکز تک پہنچ آیا اور کیلی کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔اس گھمسان کی جنگ میں علاؤالدین خلجی نے بالآخر فتح پائی ۔تاہم اس کا بہادر سپہ سالار ظفر خان مغلوں کے تیروں کا شکار ہو کر شہید ہوگیا۔اس کی شہادت پر علاؤالدین مغموم ہونے کے بجائے خوش ہوا کیونکہ اس کی بہادری بادشاہ کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ قتلغ خواجہ فرا رہو کر سیدھا ماورانہر جا پہنچا ۔

4۔ بادشاہ کا سکندر ثانی بننے کا خواب تھا۔ مسلسل فتوحات کی وجہ سے اس میں بہت غرور آگیا تھا۔ اس نے اپنے مقربین سے سکندر بادشاہ کی طرح پوری دنیا فتح کرنے کے منصوبے پر مشورہ کیا لیکن اس کےمقرب خاص علاؤالملک نے سمجھا بجھا کر اسے منصوبہ ترک کرنے پر رضا مند کر لیا۔

5۔ بادشاہ نے فتوحات کی بنا پر اپنا لقب سکندر ثانی رکھا اور عوام و خاص اسے اسی لقب سے یاد کرتے تھے۔

6۔ علاؤالدین خلجی نے 699 ہجری میں رنتھبور پر چڑھائی کی اور طویل کے محاصرے کے بعد قلعہ فتح کر لیا ۔

7۔ بادشاہ پر اس کے بھتیجے سلیمان خلجی نے اس وقت تیروں سے حملہ کردیا جب وہ جنگل میں تنہا شکار کھیل رہاتھا۔اس لڑائی میں وہ بال بال بچا لیکن شدید زخمی ہوا۔اس کا بھتیجا اس کو مردہ سمجھ کر شہر پہنچا اور تخت نشین ہو گیا۔ بادشاہ کو جب ہوش آیا تو اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ محل کی راہ لی اور بغیر کسی لڑائی کے اس نے تخت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس کا بھتیجا سلیمان اور اس کا دست راست اکت خان جان بچا کر بھاگ نکلے جن کو بعد میں گرفتار کر کے ان کے سر قلم کر دئیے گئے۔اس نے سازشی عناصر کو چن چن کر قتل کروایا۔

8۔ نظام حاجی مولا جس نے بادشاہ کے خلاف سازش کی اور بادشاہ کی غیرموجودگی میں اس نے دہلی پر قبضہ کر نا چاہا۔ بادشاہ کا مشہور سپہ سالار ملک حمیدالدین اپنے بیٹوں کے ساتھ زبردستی شہر میں گھس گیا اور حاجی مولا کا سر قلم کر کے بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔

9۔ بادشاہ نے اپنے مشیروں سے جب پوچھا کہ آئے دن ملک میں فتنے فساد اور بغاوتیں ہوتی ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں۔ اس کو بتایا گیا کہ بادشاہ کو عوام کی اچھائی اور برائی سے باخبر رہنا چاہیے، شراب نوشی پر پابندی کی جائے، شاہی امراء کا ایک دوسرے سے رشتہ برادری کرنا اور ان رشتوں سے جب اتحاد بن جاتے ہیں تو برادری کی بنیاد پر امراء بادشاہ کے خلاف بغاوت کرتے ہیں؛ لہذا بادشاہ نے امراء کے لئے قانون بنایا کہ شادی بیاہ سے پہلے بادشاہ کی اجازت لینا ضروری ہے ۔

دولت کی زیادتی کو ختم کرنے کے لئے بادشاہ نے امراء پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کئے۔اسی طرح اس نے جاسوسی کا ایسا زبردست نظام قائم کیا کہ امراء اگر سرگوشی بھی کرتے تو اگلے دن بادشاہ کو معلوم ہوجاتا۔

10۔ بادشاہ چونکہ ان پڑھ تھا لہذا اس نے کئی مفسد عقائد کوپروان چٖڑھایا لیکن بعد کے دور میں اس نے اس بدعت سے توبہ کرلی اور پھر دین مصطفےٰ پر استوار ہو گیا۔

11۔ ماوراالنہر کے حاکم نے ایک لاکھ لشکر جرار کے ساتھ دہلی پر ایک مرتبہ پھرحملہ کیا۔ ایک مہینے تک اس نے علاؤالدین کے لشکر کے سامنے ڈیرے ڈالے رکھے۔اس مرتبہ علاؤالدین میں مقابلے کی سکت نہ تھی کیوں کہ اس کی فوج گجرات اور بنگال کے محاذوں پر بکھری پڑی تھی۔

ان حالات میں علاؤالدین حضر ت نظام الدین اولیاء کے آشیانے پر دہلی گیا اور دعا کے لئے ملتمس ہوا۔ ان کی دعا سے طرغی خان منگول اپنے لشکر سمیت محاصرہ اٹھا کر فرار ہو گیا۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ علاؤالدین بادشاہ دنیا کا خوش قسمت ترین حکمران تھا۔اس کوکئی مرتبہ قسمت نے بچایا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ نظام الدین اولیاء کی دعائیں تھیں۔

انتظامی اصلاحات:

علاؤالدین خلجی سے پہلے مسلمان حکمرانوں نے پرانے نظام کو ہی اپنائے رکھا تھا۔ انہوں نے فوج کی بھرتی زمینداروں اور جاگیرداروں کے ذمہ لگا رکھی تھی ۔اس بادشاہ نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک میں دیرپا قانونی ، مذہبی ، معاشرتی اور معاشی اصلاحات نافذ کیں جن کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے:۔

1۔ قیمتوں کا تعین: مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرنا اور پھر کسی کی جرات نہ ہونا کہ ان میں کمی بیشی کرے۔

2۔ ضابطوں کا نفاذ:مثال کے طور پر بادشاہ کے منتظم مارکیٹ سے غلہ لے لیتے تھے جب کسی جگہ قحط پڑجاتا یا جس علاقے میں غلے کی کمی ہو جاتی وہاں سرکاری غلہ پہنچا دیا جاتا۔

3۔ کپڑوں کا نرخ مقرر کیا ۔

4۔ گائے، بیل، بکری ،بھینس، ہاتھی وغیرہ کے ریٹ مقرر کرنے کے قواعد بنائے۔

5۔ بادشاہ نے چیزوں کے ریٹ کنٹرول کرنے کے لئے سرائے عدل کے نام سے سستے شاہی بازار لگائے اور تاجروں کو مجبور کیا کہ وہاں اپنی اشیاء فروخت کریں۔

6۔ فوج داری اور دیوانی قوانین بنائے اور ان پر عام و خاص سے عمل کروایا۔

7۔ فوج کی باقاعدہ تنخواہ مقرر کی اور پایہ تخت میں کل وقتی فوج بھرتی کی جو کسی بھی ہنگامی حالت میں کوچ کے لئے تیار رہتی تھی۔

8۔ اپنے دور حکومت کے آخر میں اس نے علماء کی خوب خاطر مدارت کی اور ان کو انعام واکرام سے نوازا۔

9۔ بادشاہ نے ملک کافور سے قربت قائم کرلی اور اسے علائی لشکر کا سپہ سالار بنایا۔اس نے منگولوں کے خلاف علائی لشکر کی قیادت کی اور کئی معرکوں میں منگولوں کو مار بھگایا۔ اس نے ہندوستان کے کئی قلعے فتح کئے اور بے شمار خزانہ بادشاہ کے قدموں لا ڈھیر کیا۔

وہ یوں بادشاہ م کامنظور نظر اور مملکت کا وائسرائے بن گیا۔ جیسا کہ ایسے تعلقات کا نتیجہ ہوتا ہے اس نے بادشاہ کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ یہی شخص علاؤالدین کے زوال کا سبب بنا۔ اس نے بادشاہ کے آخری دنوں میں اس کے بڑے بیٹے ملک خضرخان کو ولی عہدی سے برخاست کر واکےاس کے چھوٹے بیٹے شہاب الدین عمر کو ولی عہد بنوا یاتاکہ وہ اس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا رہے۔ بادشاہ نے مرنے سے پہلے ملک کافور کو ایک وصیت نامہ بھی لکھ دیا۔ بادشاہ کی وفات کے بعد اس نے اس کے چھوٹے بیٹے کو کٹھ پتلی بنا کر تخت پر بٹھا دیا اور خود حکومت کرنے لگا۔

وفات:

علاؤالدین خلجی نے کم و بیش بیس سال حکمرانی کی۔ اس کی حکومت کے آخری دور میں ملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ ہو گیا۔ اس کے نائب السسلطنت ملک کافور نے بادشاہ کے معاملات میں خوب دخل اندازی کی۔ جس سے اس کا خاندان اس کے خلاف ہوگیا۔ وہ 6 شوال 716 ہجری کی رات کو وفات پا گیا۔

شہاب الدین عمر بن سلطان علاؤالدین خلجی:

علامہ صدر جہاں گجراتی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ ملک کافور نے علاؤالدین خلجی کی وفات کے دوسر ے دن ہی تمام امراء کو جمع کیا اور علاؤالدین کی وصیت پڑھ کر سنائی۔ پھر اس نے سات سالہ شہاب الدین کو تخت پربٹھا دیا اور ملک سہیل کو گوالیار بھیجا جہاں شہزادہ خضرخان اور شہزادہ شادی خان اپنی ماں ملکہ جہاں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ملک سہیل نے گوالیار پہنچ کر دونوں شہزادوں کو دھوکے سے قابو کیا اور اندھا کر کے ان کی ماں کے ساتھ گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا۔ اس نے شہاب الدین کی والدہ سے زبردستی نکاح کر لیا حالانکہ کہ وہ شادی کے لئے ناکارہ تھا۔

بی بی ماہک کا شیخ نجم الدین سے امداد طلب کرنا:

مبارک شاہ باد شاہ کی والدہ بی بی ماہک نے ایک شخص کو خفیہ طور پر شیخ الاسلام حضرت نجم الدین سے دعا کروانے دہلی بھیجا ۔اس نے سر سے ٹوپی اتاری اور کہا کہ غیبی مدد کا انتظار کرو ۔یہ ٹوپی اس وقت سر پر رکھوں گا جب ظالم اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔

مبار ک شاہ کے قتل کی سازش:

ملک کافور کمسن شہزادے کو محل سے نکال کر دربار میں کسی یرغمال کی طرح لاتا اور پھر اسی طرح اس کو محل کے اندر واپس بھیج دیتا اور خود خواجہ سراؤں کے ساتھ چوسر کھیلتا رہتا۔ وہ ہر وقت شاہی خاندان کو مٹانے کے حیلے بہانے تلاش کرتا رہتا تھا۔ وہ خیمہ لگا کر مبارک شاہ پر پہرہ دیتا تھا۔ ایک رات اس نے شاہی محل کے ہزار ستون کے راستے سے چند خواجہ سراؤں کو مبارک شاہ خلجی کا سر قلم کرنے کے لئے روانہ کیا۔ جب خواجہ سرا مبارک شاہ کی محفل میں پہنچے تو مبارک شاہ نے اپنے والدکی خدمات اور ان سے تعلق کا واسطہ دے کر اور سونے کے زیورات دے کر جان بچائی۔

خواجہ سرا شرمندہ ہو کر واپس آئے اور سید ھا ملک کافور کے پاس پہنچے جو اس وقت اپنی خواب گاہ میں تھا۔انہوں نے اپنے کماندار خواجہ سرا بشیر اور مبشر کو سارا ماجرا سنایا ۔دونوں نے ملک کافور کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ جب رات کو شاہی محل کے دروازے بند ہوگئے تو بشیر اور مبشر سیدھے ملک کافور کی خواب گاہ میں پہنچے اور اس کو اس کے حمایتیوں سمیت قتل کر دیا۔مبارک شاہ نے دو ماہ تک اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین کی طرف سے ملک کا انتظام سنبھالا لیکن پھر اس نے اپنے سات سالہ بھائی کو معزول کر کے اس کی آنکھوں میں سلائی پھیروا دی اور اسے گوالیا ر کے قلعے میں قید کر دیا۔جس وقت علائی خاندان پر اپنے اور غیروں کے ہاتھوں مظالم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے تو کسی نے مجذوب شیخ بشیر سے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔شیخ نے فرمایا کہ یہ اس کفران نعمت کا وبال ہے جو علاؤالدین سے اپنے بزرگ چچا جلال الدین کے حق میں سر زد ہوا۔

قطب الدین مبار شاہ خلجی:

قطب الدین مبارک شاہ 717ہجری کو تخت شاہی پر بیٹھا۔ اس کے دور میں پائکوں کے سردار مبشر اور بشیر جو بہت مغرور اور خود سر ہو چکے تھے ؛قتل کر دئیے گئے۔

امراء پر عنایات شاہی اور قیدیوں سے اچھا سلوک:

نئے بادشاہ نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے امراء اور وزراء کو خوب نوازا ۔اس نے ملک دینا شحنہ پیل کو ظفر خان کا خطاب دیا۔ بادشاہ کے چچا مولائی خان کوشیر شاہ کا خطاب ملا۔ وہ حسن نامی نوکر پر ایسا فدا ہوا کہ اس پر سب کچھ نچھاور کر دیا۔ شادی خان جو ملک نائب تھا کی تمام مرعات بھی حسن کو دے دیں۔ اس نےجیلوں میں بند 70 ہزار قیدی رہا کردئیے۔ اس نے تنگدستوں اور عاجزوں کے وظائف لگائے۔ اس نے جلال الدین کی اولاد کو مرعات شاہی سے نواز کر کچھ تلافی کی کوشش کی۔ اس نے اپنے سخت گیر والد علاؤالدین خلجی کے بہت سے قوانین موقوف کر دئیے اور شراب پر عائد پابندی بھی ختم کر دی۔

گجرات کی بغاوت:

اس دوران گجرات اور مالوہ کی ہندو آبادی نے بغاوت کر دی۔ قطب الدین نے علائی امیر عین الملک ملتانی کو سپہ سالار بنا کر گجرات بھیجا۔ اس امیر نے بغاوت کو سختی سے کچل ڈالا۔

دیوکڑھ کی بغاوت:

علاؤالدین خلجی کی وفات کے بعد دیو کڑھ کے ہر پال دیو جو راجہ رام دیو کا داماد تھا نے مقامی ہندوؤں کو ساتھ ملا کر دکن میں بغاوت کر دی۔ قطب الدین نے ایک غلام بچے کو وفا بیگ کا خطاب دے کر دہلی میں اپنا جانشین بنایا اور خود دکن کی طرف کوچ کر گیا۔اس نے ہر پال دیو کو شکست دی اور قتل کر کے اس کی لاش دیو کڑھ کے حصار سے لٹکادی۔

بادشاہ کے قتل کی سازش:

بادشاہ کثرت سے شراب نوشی کرنے لگا۔ وہ اگرچہ بہادر تھا لیکن اس نےاپنی تمام اچھی خوبیوں کو ترک کردیا تھا۔ان حالات میں اس کے چچا زاد بھائی ملک اسدالدین کے دماغ میں حکمرانی کا سودا سمایا۔ اس نے چوب داروں سے بادشاہ کےقتل کی سازش کی اور قرار پایا کہ جب بادشاہ” کاتی ساگون “سے گزر کر حرم سرائے میں داخل ہو تو اس کا کام تما م کر دیا جائے ۔ ایک چوب دار نے یہ خبر بروقت بادشاہ کے گوش گزار کر دی۔ بادشاہ نے اسدالدین کو گرفتار کر کے قتل کرو ادیا۔

قطب الدین کا غرور:

قطب الدین نے پہلے کچھ سال تو اچھی حکمرانی کی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اس میں غرور آتا گیا۔اس نے اپنے مخلص وزیروں اور مشیروں کے مشوروں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ وہ اپنے خیرخواہوں کو فحش گالیا ں دیتا تھا۔ اس نے ملک ظفر خان او ر ملک شاہین جو اس کے نمک خوار وفادار تھے بےقصور قتل کر دئیے ۔

دربار میں بازاری عورتوں کی نشت وبرخاست:

اس کے دربار میں بازاری عورتیں بڑے بڑے انعام پانے لگیں۔ وہ خود بھی عورتوں کا لباس پہن لیتا اور اسی لباس میں دربار کی کاروائی منعقد کرتا۔ وہ عین الملک اور قرا ء بیگ نامی ممتاز امراء کی بے ادبی ان عورتوں سے کرواتا تھا۔اس کے دور میں ایک امیر خسرو خان اس کا منظور نظر بنا جس نے رفتہ رفتہ تمام ملکی امور پر قبضہ کرلیا۔ خسرو خان نے بادشاہ کی منظور ی سے اپنا ایک ذاتی لشکر محل میں داخل کروایا جس سے وفادار امراء چوکنا ہوگئے اور قاضی ضیاءالدین نے بادشاہ کو سارا ماجرا سنایا لیکن قاضی کی ایک نہ چلی اور خسرو خان کامیاب ہو ا۔ خسرو خان نے جاہر نامی ایک پردار بچے کو قاضی کے قتل پر معمور کیا ۔اس نے موقع پا کر قاضی ضیاء الدین کو قتل کر دیا۔ یہ قاضی بادشاہ کا اتالیق بھی تھا۔

قطب الدین کا قتل:

قطب الدین خلوت خانے میں خسرو خان کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول تھا کہ شور سن کر باہر نکلا۔ خسرو خان نے بادشاہ کو ادھر ہی دبوچ لیا اور اس کا تن سر سے جدا کر دیا ۔ اسی اثنا میں خسرو کے سپاہیوں نے شاہی ملازمین کو بے دریغ قتل کیا۔اس کے بعد امراء کو گرفتار کر کے قتل کیا گیا۔

خسرو خان:

ان کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اس پروار بچے نے تمام امراء کو دربار میں طلب کیا ۔اس نے نامی گرامی امیر عین الملک اور ملک جونا کو دربار میں کھڑے رکھا۔اس نے علاؤالدین خلجی کی بیٹی کو اپنے بھائی کے حوالے کیا۔اس نے قطب الدین کی بیوہ کو اپنے حرم میں داخل کیا۔ شاہی خواتین کو اس نے گجرات کے ہندوؤں کے حوالے کردیا۔اس نے بے دردی سے شاہی خزانے کو لٹایا اور علاؤالدین خلجی کے بھانجے کو گوشہ نشینی سے نکال کر قتل کردیا۔ خسرو خان چونکہ ہندو تھا لہذا اس کے دور حکومت میں قرآن کی کھلی بے ادبی کی جانے لگی۔خسرو نے ملک جونا کو انعام واکرام سے نوازا کیونکہ اس کا باپ غازی ملک حاکم لاہور تھا اور خسرو اس سے ڈرتا تھا۔

خسرو کا قتل:

ادھر ملک جونا جو غازی ملک کا فرزندتھا ؛جوش انتقام میں جلا جا رہا تھا۔وہ فوری انتقام لینا چاہتا تھا۔ ایک رات موقع پا کر وہ خسرو کی نظروں سے بچتا بچاتا دیپالپور جا پہنچا۔خسر و خان کو جب اس کے فرا ر کی اطلاع ملی تو اس کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہیوں کو دوڑایا لیکن وقت گزر چکا تھا ۔ملک جونا سیدھا اپنے والد کے پاس جاپہنچا۔اس نے بیٹے کے ساتھ مل کر خسرو خان سے قطب الدین کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ چنانچہ وہ ایک لشکر جرار لے کر دہلی کی طرف کوچ کرگیا۔

ادھر خسرو خان نے ایک لشکر جرار کے ساتھ سرستی کے مقام پر ڈیرے ڈالے۔ غازی ملک نے کچھ ہی دیر کی معرکہ آرائی کے بعد خسرو خان کی فوج کو شکست فاش دی۔خسرو کا ایک بہادر امیر جو علائی سردار بھی رہ چکا تھا خسرو کا ساتھ چھوڑ گیا۔ اس پر خسرو خان فرار ہو کر اندرپت جا پہنچا جہاں ایک زبردست لڑائی کے بعد تلپت کی طرف بھاگا اور اپنے بھائی کے ساتھ ایک باغ میں پناہ لی ۔غازی ملک نے اسے تلاش کر اس کو بھائی سمیت قتل کر دیا۔ یوں غازی خان اور اس کے بہادر بیٹے ملک جونا خان نے مسلمانوں پر کئے گئے مظالم کا انتقام لے لیا۔اس پر دہلی کے مسلمان بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے باہم مل کر مشورہ کیا کی غازی خان تغلق کو تخت دہلی پر بٹھا دیا جائے۔ یوں ہندوستان کا شاہی تخت جس کا مرکز دہلی تھا خلجی خاندان سے نکل کر تغلق خاندان کے ہاتھ میں چلا گیا۔

ب۔تغلق سلطنت

تغلق خاندان کا پس منظر:

مورخ فرشتہ کے مطابق بادشاہ غیاث الدین تغلق کاباپ ملک تغلق، سلطان غیاث الدین بلبن کا ترکی غلام تھا۔ ملک تغلق نے اہل جبت کے ساتھ رشتہ بندی قائم کی اور اسی خاندان کی ایک لڑکی بیاہ لایا ۔اس لڑکی کے بطن سے غیاث الدین تغلق شاہ پیدا ہوا جس کا اصل نام غازی ملک تھا۔ طبقات ناصری میں لکھا ہے کہ لفظ تغلق اصل میں قتلغ تھا۔ اہل ہند نے اس ترکی لفظ کو کثرت استعمال سے بالکل مغلوب کر کے تغلق بنا دیا لیکن بعض لوگ اس کا تلفظ قتلو کرتے ہیں ۔

سلطان غیاث الدین تغلق:

قطب الدین مبارک جیسے ناعاقبت اندیش حکمران اور اس کے خاندان کے قتل اور بے عزتی کے بعد غازی ملک نے انتقام لیا اور لوگوں اکٹھا کر کے کہا کہ میں نے ہندوؤ ں سے مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے ۔اب آپ جس کو چاہیں اپنا بادشاہ نامزد کر دیں میں بھی اس کی بیعت کروں گا۔ تمام مسلم اکابرین نے غازی ملک کو ہی اپنا بادشاہ چن لیا۔ یوں وہ 721 ہجری کو تخت نشین ہو گیا۔ اس کا بیٹا جونا خان جو بعد میں سلطان محمد شاہ تغلق کہلایا اس کا دست راست بن گیا۔

سلطان غیاث الدین تغلق کے کردار پر ایک نظر:

یہ بادشاہ بڑا حلیم اور بردبار تھا۔ سخاوت اور عقل اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ پاک باز اور صالح مسلمان تھا جو پانچ وقت نماز اداکرتا تھا۔ وہ علائی خاندان کے باقی ماندہ افراد کی بہت عزت کرتا تھا۔ اس نے ان لوگوں کو بھی سزا دی جنہوں قطب الدین مبارک کی بیوہ کا نکاح عدت گزرنے سے پہلے ہی خسرو خان سے کر دیا تھا۔

انتظام مملکت کی طرف توجہ:

غیاث الدین تغلق نے اپنے بیٹے فخرالدین جونا کو اپنا ولی عہد نامزد کیا اور اسے الغ خان کا خطاب دیا۔ اس نے نے اہم امراء کو ملک کے بندوبست اور امن و امان کا فریضہ سونپا۔ وہ جب تک کسی شخص کو کسی کام کا اہل نہ سمجھتا اسے کوئی کام تفویض نہیں کرتا تھا۔ اس کو خوبصورت باغات اورعمارات بنانے کا شوق تھا۔ اس نے گوشہ نشینوں اور غریبوں کے وظائف مقرر کئے۔ اس نے تغلق آباد کا قلعہ بنایا۔ وہ نشے کے قریب بھی نہ گیا۔

غیاث الدین تغلق کے عہد کے اہم واقعات:

غیاث الدین تغلق ایک اولعزم بادشاہ تھا۔ اس نے تخت نشین ہوتے ہی فتنوں کو دبانے ، بغاوتوں کو کچلنے اور فتوحات پر توجہ دی۔ اس کے دور کے چیدہ چیدہ واقعات مندرجہ ذیل ہیں:۔

1۔ اس کے عہد میں حاکم ورنگل لدردیونے خراج دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ بادشاہ نے اپنے بیٹے الغ خان کو اس مہم کوکر سر کرنے پر معمور کیا۔اس نے ورنگل پہنچ کر لدر دیو نے خوب بہادری سے مقابلہ کیا اور ورنگل کا قلعہ الغ خان فتح نہ کر سکا۔ ایک مہینے کے محاصرے کے بعدمسلمان لشکر میں وبا پھوٹ پڑی۔الغ خان کے بعض امیروں نے لشکر میں افواہ پھیلائی کہ سلطان غیاث الدین تغلق انتقال کر گیا ہے۔اس وجہ سے لشکر میں بددلی پھیل گئی اورفرار ہو کر لشکر دیو گڑھ پہنچ گیا۔

2۔ اس دورا ن بادشاہ کی صحت کی خبر دیوگڑھ پہنچی ۔ الغ خان نے اپنے نامی گرامی امیروں کو گرفتار کر کے دلی بھیجا جہاں ان کو موت کے گھاٹ اتار ا گیا۔ ان امیروں میں امیر ملک تگین، عبید شاعر اورملک کافور شامل تھے۔

3۔ الغ خان تین ماہ بعد پھر ورنگل کی طرف لپکا۔ اس نے نے لدر دیو سے خونریز جنگ کی اور اس کو اس کے اہل وعیال کے سمیت گرفتار کر کے دلی بھیجا۔اس فتح کا کئی دن تک دلی میں جشن منایا گیا۔

4۔ لکھنوتی پر لشکر کشی: 724 ہجری کو لکھنوتی اور ستار گاؤں سے اطلاع ملی کہ وہاں کے حاکم رعایا پر ظلم کر رہے ہیں غیاث الدین نے الغ خان کو دہلی میں چھوڑا اور خود لکھنوتی جا پہنچا۔اس کے امیر تاتار خان نے پرانے جاگیردار بہادر شاہ کو گرفتار کر کے بادشاہ کے حضور پیش کیا۔

5 ۔ واپسی پر بادشاہ نے ترہٹ کے راجہ کو ایک طویل جنگ کے بعد شکست دی اور ترہٹ پر قبضہ کر لیا۔ اس نے ترہٹ کی حکومت ملک تلیغہ کے بیٹے ملک احمد خان کے سپرد کی اور خود دہلی کی طرف کوچ کر گیا۔

6۔ بادشاہ جب افغان پور پہنچا تو اس نے تین دن میں اپنے والد کے لئے ایک محل بنایا جس کاافتتاح اس نے اپنے باپ سے کروایا۔

غیاث الدین تغلق کی وفات:

بادشاہ افغان پور میں بنا ئے گئے نئےمحل کی سیر کو گیا۔ وہاں قیام کیا اور کھانا کھایا۔ اس کا بیٹا الغ خان والد کو محل کے اندر چھوڑ کر باہر کسی کام سے گیا۔ عین اسی وقت تین دن میں بنائے گئے محل کی چھت نیچے آگری اور بادشاہ اپنے اکابرین امراء کے ساتھ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اکثر مورخین کی رائے کے مطابق اس کے بیٹے الغ خان نے ایک سازش کے تحت اپنے باپ کو محل کے نیچے دے کر مارنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جب بادشاہ دستر خوان پر بیٹھا ہی تھا کہ وہ بادشاہ کی روانگی کی تیاری کے بہانے الغ خان باہر چلا گیا اور جیسے وہ باہر نکلا، اس کے خاص ملازمین نے محل کو گرا دیا ۔ مورخ حاجی محمد قندہاری کے مطابق جب بادشاہ کھانے کے بعد ہاتھ دھو رہا تھا تو اچانک محل پر آسمانی بجلی آن گری۔ مورخ صدر جہاں گجراتی کے بقول الغ خان نے اس محل کو طلسم کے ذریعے کھڑا کیا تھا اور جیسے ہی طلسم ٹوٹا ؛چھت سیدھی بادشاہ پر آن گری۔ مورخ ابوقاسم فرشتہ کے بقول یہ محض حادثہ تھا کیونکہ الغ خان بادشاہ کے ساتھ ہی تھا جو معجزانہ طور پر بچ گیا۔

محمد شاہ تغلق:

غیاث الد ین کےمرنے کے بعد اس کا بیٹا تین دن رسم تعزیت بجالایا۔چوتھے دن رنج وغم کے بجائےشادی اور مسرت کا دور دورہ ہوا اور بیٹے نے باپ کی جگہ تخت سلطنت پر جلوس کر کے خود کو محمد شاہ کے نام سے موسو م کیا۔تخت نشینی کے چالیس دن بعد محمد تغلق ایک نیک ساعت میں تغلق آباد سے دہلی روانہ ہوا۔ محمد تغلق بڑا عالی شان فرماں روا تھا۔ہفت اقلیم کی بادشاہت بھی اس کے لیے بساط شطر نج سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی تھی۔ یہ بادشاہ چاہتا تھا کہ خدا کی ہر مخلوق اس کے حکم کی تعمیل کرے اور تمام روئے زمین کے باشند ے اس کے زر خرید غلام کہلائیں۔اگر موروثی اسلام مانع نہ ہوتا تو شاید فرعون کی طرح یہ بادشاہ بھی خدا ئی کا ڈنکا بجاتا۔

بادشاہ کا کردار:

محمد شاہ تغلق ایک ممتاز حکمران تھا جو مجموعہ اضداد بھی تھا۔اس کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جاتا ہے:۔

1۔اس کی سخاوت کا یہ عا لم تھا کہ ایک ادنٰی فقیرکو شاہی خزانہ دے دیتا تھا۔

2۔ محمد شاہ تغلق تقریر کا ماہر تھا۔ وہ عربی اور فارسی کے خطوط اور مراسلے ایسی قابلیت سے لکھتا تھا کہ بڑے بڑے ادیب اورلکھاری عش عش کر اٹھتے تھے۔

3۔ باشاہ کا خط ایسا صاف تھا کہ خوش نویس بھی اس کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔

4۔ اس نے نظام حکومت چلانے کے لئے کئی قوانین بنائے اور علائی قوانین کو مزید بہتر کیا۔

5۔ وہ فہم و فراست اور ذہنی ذکاوت میں اپنے تمام ہم عصر بادشاہوں سے ممتاز تھا۔

6۔ وہ لوگو ں کی صورت دیکھ کر ان کے دل کی بات جان لیتا تھا۔ وہ چہرہ شناس تھا۔

7۔ وہ علم تاریخ کا ماہر تھا۔ اس کا حا فظہ بہت تیز تھا جو بات ایک مرتبہ سن لیتا وہ عمر بھر نہ بھولتا۔اس کو شاہنامہ، ابومسلم اور داستان امیر حمزہ زبانی یاد تھے۔

8۔ وہ فارسی کا بہت اچھا شاعر تھا اور فقہ کا ماہر تھا۔

9۔ محمد تغلق مجموعہ اضداد تھا۔ وہ نیکی اور بدی کا کامل نمونہ تھا۔ وہ چاہتا کہ بادشاہت کے ساتھ نبوت بھی اسے مل جائے اور حضرت سلیمان کی طرح ملکی اور شرعی کاموں کا سر چشمہ کہلائے۔ دوسری یہ حالت تھی کہ اسلام کی پوری پیروی کرتا تھا۔ وہ نماز کا پابند تھا ۔وہ نشہ نہیں کرتا تھا اور فسق و فجور اور حرام چیزوں کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا کر دیکھتا تھا۔

10۔ وہ عوام پر ظلم کرنے، اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے اور ان کو سولی پر لٹکانے میں دیر نہیں لگاتا تھا۔

11۔محمد تغلق نے تتر خاں کو جسےغیا ث الد ین تغلق نے حاکم ستار گا ؤںمقرر کیا تھااور جو مرحوم بادشاہ کا منہ بولا بھائی بھی تھا بہرام خاں کا خطا ب دیا ۔

12۔محمد تغلق نے ملک سنجر بد خشانی کو اسی لاکھ اور ملک الملوک عمادالدین کو ریحانی کو ستر لاکھ اور مولانا عضدالدین اپنے استاد کوچالیس لاکھ تنگے ایک دفعہ یکمشت عطا کیے۔ ملک ناصر الدین کو ہر سال لاکھوں تنگے عنایت کرتا تھا۔

13۔قاضی غزنین کو بھی ہر سال اس کی سوچ سے زیادہ انعا م دیتا تھا۔

محمد شاہ تغلق کے دور حکومت کے اہم واقعات :

1۔محمد تغلق کے ابتدائی زمانے میں جبکہ حکومت پورے طور پر مضبوط نہ ہوئی تھی ایک اسلامی بادشاہ مسمی ترمشرین بن داؤد خاں حاکم خاندان چغتائی جو اپنے وقت کا مشہور بہادر سخی اور منصف تھا ؛کثیر فوج اور لشکر جرار ہمراہ لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا ۔مگر محمد تغلق نے اپنے میں مقابلے کی طاقت نہ پائی اور عاجزی اور نیاز مندی سے پیش آیا اور زرو جوہرات دے کر صلح کی۔ اس طرح اس نے اپنی رعایا کی جان بچائی۔

2۔ترمشرین خاں نے نوا ح دہلی سے تو کوچ کیا مگر گجرات پہنچ کر چونکہ یہ شہر سر راہ واقع تھا ؛اس نے جی کھول کر لوٹا اور بہت سا مال غنیمت اور بے شمار قیدی گر فتار کر کے سندھ اور ملتان کے راستے اپنے وطن کو روا نہ ہوا۔

3۔ تر مشرین کے حادثے کے بعد محمد تعلق کو ترتیب لشکر اور انتظام سلطنت کی طرف پوری توجہ ہوئی ۔بادشاہ نے دورونزدیک کے ہر ملک کو فوج اور اسباب جنگ سے آراستہ کیا ۔

4۔محمد تغلق کی سلطنت کے زوال کئ اسباب یہ تھے ۔ میان دو آب میں خراج کی زیادتی ۔ بادشاہ کا تین لاکھ ستر ہزار سوار وں کا ایک لشکر خراسان اور ماوراءالنہر کی فتح کے لیے مرتب کرنا اور ان کے اخراجات سے خزانہ خالی ہو جانا۔

5۔ کوہ ہماچل کی طرف لشکر روانہ کرنے کی توجہ یہ ہے کہ بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کسی نہ کسی طرح چین اور ہما چل کو جو ہندوستان اور مملکت چین کے درمیان واقع ہیں؛ فتح کرے ۔

6۔جب اسلامی لشکر سرحد چین پر پہنچا تو اس کی آبادی اور امرائے چین کی شوکت وحشمت اورشہرکے قلعوں کی بلندی اور مضبوط راستوں کی تنگی اور رسد رسانی کی کمی کا خیال کر کے خسروملک کے چھکے چھوٹ گئے اور اس بات پر تیار ہو گیا کہ بغیر جنگ کے وہ وہاں سے پلٹ جائے۔

7۔ملک گر شاسپ نے قلعہ ساغر کو بے حد مستحکم کیا اور خیل وحشم اورسپاہ ورعیت کی فرمانروائی اور تربیت میں جان و دل سے مشغول ہوا۔گر شاسپ نے اپنے خیال میں بادشاہ کی سیا سی گرفت سے اپنے کو محفوظ سمجھ کر شاہی اطاعت سے انکار کیا اور دکن کے بہت سےامیرو ں کو ہم خیال بنا کر ملک کے بہترین حصوں پر قابض ہو گیا ۔

8۔گر شاسپ نے بالادیو کے پاس پناہ لی۔بالا دیو شاہی لشکر کےتعاقب سے کچھ ایسا خوف زدہ ہوا کہ گرشاسپ کو گرفتار کر کے خواجہ جہاں کے پاس بھیج دیا۔

9۔جب محمد تغلق کو گر شا سپ کے فتنے سے نجات ملی اور دہلی کا ہر چھوٹا بڑا شاہی حکم کے مطابق دولت آباد میں آ کر متوطن ہو گیا تو بادشاہ نے کند ہانہ کے قلعہ پر جو خیبر کے

نوا ح میں واقع ہے۔

10 ۔ حاکم ملتان کی بغاوت : محمد شاہ تغلق کو وسیع و عریض ملک میں جا بجا بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس سلسلے میں لاہور سے بہرام ابیہ حاکم ملتان نے بغاوت کا جھنڈا بلند کر کے ملتان و پنجاب کو تخت و تاراج کر رہا ہے۔ اس پر محمد تغلق نے ایک لاکھ لشکر جرار کے ساتھ بہرام ابیہ پر ملتان جا کر چڑھائی کی اور ایک خون ریز معرکے بعد بہرام کو شکست ہوئی۔ محمد شاہ تغلق ملتان میں قتل عام کا حکم دے ہی رہا تھا کہ حضرت شیخ رکن الدین نے اس کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کیا۔ محمد تغلق نے قوام الملک کو حاکم مقرر کیا اور ایک لشکر بہرام کے تعاقب میں روانہ کیا ۔لشکر نے باغی کا سر قلم کر کے بادشاہ کے حضور میں حاضر کیا۔

11۔ محمد شاہ تغلق کے دور میں شاہو افغان نامی سردار نے پنجاب میں بغاوت کر کے بہزاد نائب ملتان کو قتل کیا اور قوام الملک کو شہر سے باہر نکال کر خود مختاری کا اعلان کیا۔ محمد شاہ نے دہلی لشکر کے ساتھ ملتان کوچ کیا۔راستے میں اس کو خبر ملی کی اس کی والدہ مخدومہ جہاں وفات پا چکی ہیں۔ بادشاہ کو بہت صدمہ ہوا۔اس نے راستے میں ہی سوگ منایا اور ملتا ن کی طرف کوچ جاری رکھا۔ جب یہ خبر شاہ افغان کو ملی تو اس نے اپنے گناہ کی معافی چاہی اور محمد شاہ کو ایک خط لکھ کر خود افغانستان کی راہ لی۔

دولت آباد کی تعمیر اور دہلی کی تباہی:

محمد شاہ تغلق نے دولت آباد کے نام سے نیا شہر بسا یا جس کی وجہ سے دہلی تباہ و برباد ہو گیا۔ لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ شہر اجڑ گیا، جنگلی جانور شہر میں پھرنے لگے۔ محمد شاہ نے جب مزید سختی کی تو لوگ فرار ہو کر پہاڑوں میں چلے گئے۔بادشاہ جب مہمات سے واپس آیا تو اس نے اپنی آنکھوں سے دہلی کو اجڑا ہوا پایا۔ سلطنت کی یہ تباہی دیکھ کر بادشاہ نے ملک کی آبادی اور زراعت کی زیادتی کی طرف توجہ کی اور چند روز تک اپنی خون خوار تلوار اپنی نیام رکھ کر خلق خدا کے حال پر مہربان ہوا۔ محمد تغلق نے رعایا کو خزانے سے روپیہ دیا اور کسانوں کو کنویں کھودنے اور ہل چلانے کا تاکیدی حکم نافذ ہوا ۔اس سے دہلی کے علاقے دوبارہ آباد ہونے لگے۔

خلیفہ کی طرف سے خلعت:

محمد شاہ کا عقیدہ تھا کہ اس کی حکومت اس وقت تک جائز نہیں جب تک عباسی خلیفہ اس کو تسلیم نہ کرے۔ چنانچہ اس نے حاجی رجب اور حاجی سعید حرمزی کو بغداد بھیجا۔ وہ خلیفہ سے ہندوستان کی بادشاہی کا عہد نامہ اور خلعت فاخرہ لے کر 744 ہجری میں ہندوستان آئے اور بادشاہ نے ایک بہت بڑا جشن منعقد کر کے اس خلعت کو عوام کو دکھایا۔

اصلاحات:

محمد شاہ تغلق اپنے زمانے سے آگے کی سوچ رکھتا تھا۔ اس کی اصلاحات کی تفصیل کچھ یوں ہے:-

1۔ تانبے کے سکے رائج کرنا: اس نے ملک میں تانبے کے سکے رائج کر کے عوام کو گمراہ کیا لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ کہ تانبے کی کرنسی بھی چل سکتی ہے یا نہیں۔تاجروں نے تانبے کے بہت سے جعلی سکے بنا کر جعلی کرنسی کو فروغ دیا۔

2۔ اس نے سکندر اعظم بننے کے لئے پوری دنیا کو فتح کر نے کی منصوبہ بندی کی لیکن مشیروں کی بات مان کر اپنے ارادے سے باز رہا۔

3۔ اس نے ملک میں مالیہ ،لگان اور تنخواہوں کا باقاعدہ نظام قائم کیا۔

محمد شاہ کا انتقال:

بادشاہ نے کرنال کے مقام پر جب وہ ایک بغاوت کو فرو کرنے کے لئے خیمہ زن تھا؛ اچانک مچھلی کھانے سے بیمار پڑ گیا۔ وہ بیماری کی حالت میں ٹھٹھہ کی طرف گامزن رہاکہ بخار کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ 21 محرم 752 ہجری میں بادشاہ فوت ہو گیا۔ اس کے انتقال پر اس کا چچا زاد بھائی فیروز شاہ تغلق جو اس کی بیماری میں اس کی تیماداری دل وجان سے کرتا رہا تھا ، اس کا ولی عہد منتخب ہوا۔

فیروز شاہ تغلق:

فیروز شاہ تغلق نے 23 محرم 752 ہجری میں تخت شاہی پر بیٹھا۔اس وقت اس کی عمر 50 سال سے کچھ اوپر تھی۔ تخت نشینی کے دن بادشاہ نے ہزاروں مظلوم لوگوں کو ٹھٹھہ میں جو منگولوں کے قیدی تھے آزاد کردیا۔ فیروز شاہ کا تخت پر بیٹھنا ملک کے لئے مبارک ثابت ہوا۔ ملک میں امن و امان اور رعایا فارغ البال ہو گئی۔ اب بادشاہ سفر کی منزلیں طے کرتا ہوا سیستان پہنچا اور گھکھڑوں کے سر پر جا نمودار ہوا۔ فیروز شاہ نے گکھڑ پہنچ کر عالموں ،درویشوں ، امیروں اور ارکان سلطنت کو انعامات سے نوازا۔ اس نے پرانے بادشاہوں کے احکامات بحال رکھے اور ان کے اجراء کے احکامات نافذ کئے۔ جو لوگ قندھار، سیستان، خراسان، عراق ، مصر اور بغداد سے سلطان محمد کے دربارمیں امداد اور نوکری کے آئے تھے بادشاہ نے ان کو بھی انعامات دئیے ۔

فتوحات ، بغاوتو ںاور اس کے عہد کے اہم واقعات:

1۔ فیروز شاہ ابھی تخت پر بیٹھا ہی تھا اور پایہ تخت سے دور تھا کہ دہلی میں خواجہ جہاں نامی ایک سردار نے ایک مجہول الانسب بچے کو تخت پر بٹھا دیا۔ خواجہ جہاں محمد شاہ تغلق کا سسر تھا اور اس وقت اس کی عمر 90 سال تھی۔ا س نے بچے کے بارے میں یہ مشہور کر دیا کہ وہ محمد شاہ کا صلبی بیٹا ہے۔ اس کے خلاف فیروز شاہ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس کے بوڑھے پن کی وجہ سے معاف کرنے کا وعدہ کیا۔اس پر خواجہ جہاں نے معافی مانگی اور فیروز شاہ کی بیعت کر لی۔

2۔ فیروز شاہ تغلق نےبادشاہ بنتے ہی حضرت بابا فرید گنج شکر کے دربار پر حاضری دی اور دربار کے مجاوروں کوانعام واکرام سے نوازا۔

3۔ فیروز شاہ کے ہاں ایک خوبصورت شہزادے کی پیدائش ہوئی جس کا نام شہزادہ فتح خان رکھا گیا۔ یہ شہزادہ بڑا ہوکر قابل ، رحم دل اوربہادر سپہ سالار بنا لیکن جوانی میں اچانک بیمار ہوا اور انتقال کر گیا۔ فیروز شاہ کی زندگی میں یہ واقعہ غموں کے پہاڑ لے کر آیا۔

4۔ جلوس کے سال ہی فیروز شاہ کے ہاں ایک دوسرا شہزادہ پیدا ہوا جس کانام شہزادہ محمد خان رکھا گیا۔

5۔ حاجی الیاس لکھنوتی اور بنگالہ کا امیر تھا۔ اس نے بادشاہ کو لگان اور خراج دینا بند کر دیا اور علم بغاوت بلند کیا۔ چنانچہ شوال 754 ہجری میں بادشاہ نے خان جہاں کو تمام اختیارات دے کر اپنی نیابت میں دہلی چھوڑا اور خود حاجی الیاس کی سرکوبی کے لئے لکھنوتی روانہ ہوا۔ حاجی الیاس کے ساتھ گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں اسے شکست ہوئی اور بادشاہ نےاس کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا ۔حاجی الیا س فرار ہو گیا اور اگلے سال تحائف کے ساتھ دربار شاہی میں حاضر ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اسے معاف کر دیا گیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد حاجی الیاس فوت ہو گیا۔

6۔ فیروز شاہ نے 755 ہجری میں دریا جمنا کے کنارے فیروز آباد کے نام سے ایک خوبصورت شہر بسایا۔

7۔ فیروز شاہ نے اکدالہ کی تسخیر کا عہد کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں سکندر شاہ نامی امیر نے تغلق اعمال کو نکال کر قلعے پر قبضہ کر لیا تھا۔ فیروز شاہ اکدالہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ سکندر خان بادشاہ سے ڈر کیا اور 48 ہاتھی اور دوسرے بیش قیمت تحائف دے کر بادشاہ کو پیش کئے اور جان کی امان چاہی۔ بادشاہ نے اسے معاف کردیا۔

8۔ بادشاہ نے سرہند کو سمانہ کے مضافات سے علیحدہ کر کے دس کوس زمین اور سر ہند کے رقبے میں داخل کی اور وہاں کی حکومت ملک ضیاالملک اور شمس الدین امورجا کے حوالے کی۔

9۔ بادشاہ نے سنا کہ سکندر ذوالقرنین کے آنے پر برہمنوں نے نوشابہ کی صورت کا بت بنا کر اپنے گھروں میں رکھ دیا تھا اور اب اس شہر میں اسی بت کی پوجا کی جاتی ہے۔ چناچہ اس نے محمود غزنوی کی یاد تازہ کرتے ہوئے تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔

10۔ شہزادہ فتح خان کی وفات: 776 ہجری میں اس کے عظیم فرزند شہزادہ فتح خان نے اچانک بیماری سے وفات پائی۔

11۔ اسی سال بادشاہ بڑھاپے کی کمزوری طاری ہوئی اور خان جہاں وزیر نیابت سے خود بادشاہ بن بیٹھا۔ اس نے بادشاہ کو اس کے بیٹے شہزادہ محمد خان کے خلاف کیا اور کہا کہ اس کا بیٹا اس کو معزول کر کے قتل کرنا چاہتا ہے اور خود بادشاہ بنے گا۔ بادشاہ نے بیٹے کو نظر بند کر دیا۔ لیکن شہزادہ اس کو دھوکہ دے کر روپوش ہوگیا۔ پھر شہزادے نے بھیس بدلہ اور پالکی میں بیٹھ کر باپ کو ملنے چلا گیا۔ اس نے باپ کے پاس پہنچ کر سار ماجرا اس کے گوش گزار کیا اور خان جہاں کی سازش کا حال سنایا۔ بادشاہ کو بیٹے کی بات کا یقین آگیا اور اس نے خان جہاں کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ شہزادے نے خان جہان کو غلامو ں کی فوج کے ساتھ گھیر لیا لیکن وہ شدید زخمی حالت میں میوات کی طرف فرار ہوگیا۔

اس نے خان خاناں کے تمام ہمدردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود باپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ اس پر بادشاہ نے اسے تخت پر بٹھا دیا اور خود بادشاہ گوشہ نشین ہوگیا۔

بادشاہ کی شخصیت:

فیروز شاہ تغلق اپنے چچا زاد بھائی محمد شاہ تغلق سے بالکل مختلف واقع ہوا۔ اس نے ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا کیا۔ وہ صاف گو، مخلص اور نرم گفتگو بادشاہ تھا۔ وہ اپنے وقت کا زیرک ، عقل مند اور باحوصلہ بادشاہ تھا۔ اس کے دربار میں اہل علم کی قدر تھی۔ چنانچہ دور دور سے اہل علم و ہنر اس کے دربار میں اکٹھے ہو چکے تھے۔رعایا اور سپاہی دونوں اس سے راضی اور خوش رہے۔ اس کے زمانے میں کسی کو ظلم و ستم کی مجال نہ تھی۔اس بادشاہ نے اپنے حالات پر خود ایک کتاب لکھی جسے تاریخ فیروز شاہی کہا جاتا ہے۔ فیروز شاہ پہلا حکمران ہے جس نے افغانوں پر بھروسہ کیا اوران کی حوصلہ افزائی کی۔اس نے افغانوں پر بے حد نوازش کی اور جو افغان امیر محمد شاہ کے دور میں ایک صدی منصب دار تھا اس کو ترقی دے ایک ہزاروی منصب دار بنا دیا گیا۔

فیروز شاہ کا انتقال:

فیروز شاہ 38 سال 9 ماہ حکومت کرنے کے بعد 90 سال کی عمر میں 13 رمضان 799 ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔

فیروز شاہ تغلق کے بعد کےکمزور تغلق حکمرانوں کا مختصر احوال:

1۔ ناصر الدین محمد اپنے والد فیروز شاہ تغلق کی زندگی ہی میں تخت نشین ہوا۔ اس نے اپنے والد کے پختہ کار مصاحبین اور امراء کو گھر بٹھا دیا اور ناتجربہ کار لوگوں کا آگے لایا جس پر فیروزشاہ کے امراء ملک بہاؤالدین اور ملک کمال الدین نے فیروز شاہی غلاموں کے ساتھ بغاوت کر دی۔ ناصرالدین نے فیروزی غلاموں کو شکست دی لیکن غلام چالاکی سے بوڑھے فیروز شاہ جو اپنے حواس میں نہ تھا، میدان جنگ میں لے آئے اور ناصرالدین مجبوراَ بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

2۔ تغلق شاہ کی تخت نشینی:

بوڑھے فیروز شاہ نے غلاموں کے بے جا دباؤ پر شہزادہ فتح محمد کے بیٹے تغلق شاہ کو بادشاہ بنایا۔ تغلق شاہ عیاش اور ناتجربہ کار تھا ۔اس کو فیروز شاہ کے غلاموں نے فیروز شاہ کی وفات کے بعد قتل کردیا۔

3۔ ابوبکر شاہ کی تخت نشینی:

فیروز شاہ کے غلاموں نے فتح محمد کے دوسرے بیٹے ابو بکر کو بادشاہ بنایا اس نے مضبوط امیر رکن الدین جو بادشاہ گر بن چکا تھا کو ایک رات اچانک بلا کر قتل کردیا۔ ادھر ناصر الدین جو نگر کوٹ کے قلعے میں پناہ گزین تھا، اس نازک صورت حال سے ایک مرتبہ پھر فائدہ اٹھایا اور 792ہجری میں دہلی پہنچا اور شدید لڑائی کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے فیروز شاہ کےتمام غلاموں کو قتل کروا دیا۔ اس نے کئی بغاوتیں کچلیں لیکن اس عرصہ میں 796وہ بیمار پڑا اور وفات پا گیا۔

4۔ سکندر شاہ بن ناصر الدین کی تخت نشینی:

19ربیع الاول 796 ہجری کو سکندر شاہ کی تاج پوشی ہوئی لیکن بیماری کی وجہ سے ایک ماہ کی حکومت کرنے کے بعد وہ وفات پاگیا۔

5۔ امیر تیمور لنگ کا ہندوستان پر حملہ:

سال 800 ہجری میں ہندوستان بدترین افراتفری کا شکار ہو چکا تھا۔ جب امیر تیمور نے ان حالات کا سنا تو اس نے ہندوستان کو تاراج کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اس نے میرٹھ،دہلی،جموں اور لاہور کو فتح کیا اور اس نے ہندوستان کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور بلند و بالا عمارات کو زمین بوس کردیا۔ امیرتیمور کے حملوں نے فیروزشاہی حکومت کو جڑوں سے کمزور کر دیا۔

6۔ سلطان ناصر الدین محمود کی وفات اور تغلق حکومت کا خاتمہ:

امیر تیمور نے ناصر الدین محمود کو باجگزار بنایا اور اس کو ہندوستانی تخت پر بیٹھا رہنے دیا۔ چنانچہ اس نے اس طوائف الملوکی اور افتاد زمانہ جس میں بہت سے صوبے پایہ تخت دہلی سے آزاد ہوچکے تھے؛ تقریباَ بیس سال حکومت کی۔ ناصرالدین خاندان تغلق کا آخری حکمران تھا۔

7۔ ان حالات میں دہلی کے تخت پر دولت خان لودھی 814 ہجری میں براجمان ہو ا جس وقت دولت خان لودھی اندرونی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے دہلی سے باہر تھا ؛خضر خان نامی ایک مضبوط امیر نے دولت خان لودھی کو شکست دے کر قید کر لیا ۔ دولت خان لودھی نے ایک سال دہلی پر حکومت کی۔

ج۔سادات خاندان کی حکومت

1414 تا 1451 عیسوی

سید خاندان کا پس منظر:

محمود شاہی تاریخ کے مصنف نے مورخ خضرخان کو سید لکھا ہے۔ خضر خان کے والد کا نام سیلمان شاہ تھا جو حاکم ملتان مروان دولت کا منہ بولا بیٹا تھا۔ سید خضر کا خاندان وقت کے ساتھ ساتھ امور سلطنت میں اہم عہدے حاصل کرتا رہا تاآنکہ تغلق حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس خاندان نے اس وقت عروج حاصل کیا جب امیر تیمور ہندوستا ن آیا ۔خضر خان نے امیر تیمور کے دربار میں رہ کر بڑی بڑی مرعات حاصل کیں۔ پھر جب فیروشاہ کا انتقال ہو ا تو خضر خان نے دولت خان لودھی کو شکست دے کر دہلی کے تاج و تخت پر قبضہ کرلیا۔

سیدخضر خان:

خضر خان سید خاندان کا پہلا حکمران تھا۔ اس نے 1414 سے لیکر 1421 عیسوی تک دہلی کے تخت پر حکومت کی ۔اس نے سکوں پر فیروز شاہ کانام لکھا رہنے دیا جب کہ خطبے میں وہ امیر لنگ اور اس کے انتقال کے بعد اسے جانشین امیر شاہ رخ کے نام سے چلاتا رہا۔ اس نے اپنے دور حکومت میں کھینتر،اٹاوہ اور میوات کے علاقوں کو دوباہ اپنی قلم رو میں شامل کیا۔اس طویل چپقلش کے بعد ہندوستان میں امن وامان قائم ہوا۔ خضر خان سمجھدار، مدبر اور بہادر حکمران تھا۔

معزالدین ابو الفتح مبارک شاہ بن خضر خان:

باپ کی وفات پر 1421 میں دہلی میں تخت نشین ہوا۔ وہ اپنے باپ کا فرمانبردار بیٹا تھا۔ اس نے تخت نشین ہوتے ہی والد کے تمام اعمال کو ان کے مناصب پر بحال رکھا۔ اس نے اپنے دور میں کئی علاقے فتح کیا۔ اس نے کوہستان کے علاقے پر چڑھائی کی اور ملک طغا کو شکست دی۔ اس نے میوات کی بغاوتوں کو کچل کر اسے دوبارہ امن کا گہوارہ بنایا۔ اس نے 837 ہجری میں دریائے جمنا کے کنارے ایک نیا شہر آباد کیا اور اس کی سیر کیا لئے بروز جمعہ گیا۔ 9 رجب 837 ہجری کا دن تھا جب بادشاہ کو مبارک آباد کی سیر پر تھا ۔ ایک مفسد جماعت میراں صدر کے بانی قاضی عبدالصدر نے ہندوؤں کی ایک جماعت کے ساتھ بادشاہ کا سر قلم کر دیا۔ مبارک شاہ نے 13 سال تین مہینے تیرہ دن حکومت کی۔ یہ بادشاہ اپنے والد کی طرح بہادر، مستقل مزاج، سمجھدار اور نیک دل تھا اس کے منہ سے کبھی بھی فحش کلمات نہ سنے گئے۔

محمد شاہ بن فرید خان بن خضر خان:

مبارک شاہ کی شہادت کے بعد محمد شاہ نے سلطنت سنبھالی۔ اس کے ایک وزیر سرورالملک کو بے پناہ اختیار ملے۔اس نے مبارک شاہ کے اعمال کو چن چن کر قتل کیا اور اس نے میراں صدر سے مل کر بادشاہ کو کٹھ پتلی بنا دیا۔ سرورالملک نے تمام مبارک شاہی امیروں کو قتل یا نظر بند کردیا۔ اس پر بادشاہ بھی اس کے خلاف ہو گیا۔ ایک دن جب سرورملک اپنے حواریوں کے ساتھ بادشاہ پر حملہ آور ہونے کے لئے آیا لیکن شاہی باڈی گارڈوں نے وزیر کا کام تما م کر کے ایک بہت بڑے فتنے سے جان چھڑائی۔محمد شاہ جب اندرونی فتنوں سے فارغ ہوا تو عیش پرستی میں مبتلا ہوگیا۔اس دوران ایک افغان امیر بہلول لودھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ منظر عام پر آیا اور ہندوستان کے علاقے سر ہند سے اس نے اپنی فتوحات کا آغاز کرتے ہوئے دہلی کی جانب پیش قدمی کی اور دہلی کے سوا تمام علاقوں پر قابض ہوگیا۔اس نے محمد شاہ کے انتقال کے بعد سید خاندان کے آخری فرمانروا علاؤالدین بن سلطان محمد شاہ جس نے 849 ہجری میں اپنے باپ کے انتقال پر سید حکومت سنھبالی تھی کو دہلی سے نکال کر خود حکمران بن گیا۔

واقعات کے مطابق علاؤالدین کے ایک مشہور وزیر حمید خان سے تمام درباری نالاں تھے انہوں نے بادشاہ سے درخواست کی وہ حمید خان کو قتل کر دے۔ بادشاہ ناسمجھ تھا۔ اس نے حمید خان کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ حمید کے خاندان کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے حمید خان کو دہلی سے نکال دیا۔ اس کے بعد حمید خان ایک لشکر کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوا اور بادشاہ کے حرم سر اکو خوب لوٹا۔ حمید خان کی چال تھی کہ وہ بہلول جیسے طاقتور افغان سردار کو برائے نام بادشاہ بنا کر خود اصل حکمرانی کرے۔ لیکن اس کی یہ چال کامیاب نہ ہو سکی۔اس کے مقابلے میں افغان بہت متحد اور قوی تھے۔ پس بہلول لودھی نے خود کو بادشاہ مشہور کیا اور دیپالپور کو اپنا گڑھ بنایا۔ کچھ ہی عرصہ میں اس نے حمید خان کا کانٹا نکا ل دیا۔ سلطان علاؤالدین نے 883 ہجری میں انتقال کیا۔اس نے دہلی پر سات سال حکمرانی کی اور اٹھائیس سال وہ بدایوں کا امیر رہا۔ وہ ایک کمزور اور سست حکمران تھا۔اس کو عیش و عشرت کا شوق تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنے دادا خضر خان کی حکومت لودھیوں کے حوالے کر دی۔

د۔خاندان لودھی کی حکومت

بہلول لودھی :

کہا جاتا ہے کہ لودھی افغانستان کے باشندے تھے۔ وہ ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آتے تھے۔ بہلول لودھی کے داد ابہرام خان لودھی نے اپنے بھائی سے ناراض ہو کر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اس کے پانچ بیٹے تھے ان میں سے ایک بہت بہادر تھا جس کا نام سلطان شاہ تھا ۔وہ سید خضر خان جو اس وقت ملتان کا حاکم تھا کی فوج میں ملازم ہوا۔ سلطان شاہ نے خضر خان کے مقابلے آنے والے ملو اقبال کو لڑائی میں تہ تیغ کیا اور ملو باغی کے لشکر کو شکست فاش دی۔ اس پر اس کو اسلام خان کا خطاب ملا اس کے دوسرے بھائی کا نام کالا شاہ جس کے بیٹے کا نام بہلول لودھی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کالا ،دورالہ کا حاکم تھا۔ایک دن اس کا مکان گرا جس کے نیچے بہلول لودھی کی والدہ آکر فوت ہوگئی۔ بہلول لودھی کی ولادت کا زمانہ سر پر تھا۔ پس حکیموں نے بہلول لودھی کو ماں کے پیٹ سےزندہ نکال دیا۔ اس نے ملک کالا جو نیازی پٹھانوں کے ساتھ ایک معرکے میں مارا گیا تھا۔اس پر بہلول اپنے چچا اسلام خان کے پاس سرہند چلا گیا اور اس بہادر سردار کی زیر نگرانی پرورش پائی۔

تخت نشینی:

اسلام خان جوکہ سرہند کا مضبوط سردار تھا نے بہلول کو پالا ۔اس نے مرتے وقت بہلول کو اپنا جانشین بنایا۔ اس وقت افغان ایک مضبوط قوت بن چکے تھے۔ اس نے ان کی مدد سے دہلی پر چڑھائی کی۔ اس نے حمید خان کی مدد سے تاج دہلی پر قبضہ کیا ۔ بہلول لودھی مستقل مزاج ، خداپرست، صاف گو، تلوار کا دھنی اور نیک دل بادشاہ تھا۔ وہ سیاست کا ماہر تھا۔اس نے طویل عرصہ تک تاج و تخت کے لئے جدوجہد کی۔ اس نے دہلی کے تخت پر بیٹھتے ہی حمید خان کو قید کر دیا اور اسے گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔

بہلول لودھی کےدور کے اہم واقعات اور فتوحات:

1۔ تخت نشین ہوتے ہی بہلول لودھی نے اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا اور اپنے بیٹے کو دہلی میں چھوڑ کر 855 ہجری میں دیپالپور روانہ ہوا۔ سید خاندان کے افراد اس کے جانی دشمن تھے ۔لہذا انہوں نے سلطان محمود شاہ شرقی کو جونپور سے بلایا۔دونوں لشکروں کے مابین دہلی کے نزدیک جنگ ہوئی۔ اسلام خان کے بیٹے قطب خان لودھی نے اسے شکست فاش دی۔ سلطان محمود شاہ شرقی کا ایک اتحادی دریا خان لودھی جنگ سے کنارہ کش ہوگیا۔

2۔ محمود شاہ شرقی کی شکست سے بہلول لودھی کا اقتدار دہلی پر مضبوط ہو گیا۔ اس نے جونپور پر حملہ کردیا جو محمود شاہ کا پایہ تخت تھا۔ایک طویل لڑائی ہوئی جس میں بہلول ناکام ہوا۔

3۔ سلطان محمود شاہ شرقی کے انتقال کے بعد اس کا بیٹاحسین شاہ تخت نشین ہوا۔ اس نے موقع دیکھ کر دہلی کی طرف کوچ کیا تاکہ ہندوستان پر قبضہ کیا جا سکے۔اس مہم میں افغانوں کے ساتھ خون ریز لڑائی ہوئی اور قطب خان لودھی کی سیاست سے حسین خان دھوکہ کھا گیا۔ جیسے ہی حسین شاہ صلح کر کے واپس جانے لگا پٹھانوں نے اس کے لشکر پر تابڑ توڑ حملے کئے اور اس کا خزانہ لوٹ لیا۔

4۔اس کے بعد بہلول نے اٹاوہ فتح کیا۔ اس نے اپنے حریف حسین شاہ شرقی سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے آگے بڑھ کر جونپور پر حملہ کر دیا۔ بہلول لدھی کو فتح حاصل ہوئی۔شرقی خاندان کی ایک مشہور خاتون مسمات خونزہ بی بی لودھی لشکر کے ہاتھ لگی۔ اس نے اپنے بیٹے باربک شاہ کو جونپور کا والی مقرر کیا اور خود کالپی پر جا کر قابض ہوگیا۔

5۔ بہلول لودھی کی زندگی کااکثر حصہ گھوڑے کی پیٹھ پر گزرا ۔اس نے بہت سی فتوحات کے بعد ملک کو اپنے بیٹوں اور دیگر افغان امراء میں تقسیم کیا۔

6۔ انتقال: بہلول لودھی بہت سی مہمات کے بعد واپس دہلی آرہا تھا کہ راستے میں بیمار پڑ گیا۔ اس سفر میں شہزادہ نظام خان المعروف سکندر لودھی کی ماں بھی اس کی ہمراہ تھی۔ وزیروں کے مشورہ کے بعد اس کے چھ بیٹوں میں سے نظام خان کے نام بادشاہت ہوئی۔ اتفاق سے سکیٹ کے علاقے میں جب بادشاہ واپس آرہا تھا ، مرض شدت اختیار کر گیا اور 894 ہجری میں وہ اس جان فانی سے کوچ کر گیا۔اس بادشاہ نے اڑتیس سال آٹھ ماہ اور سات روز حکمرانی کی۔

بادشاہ کا شخصیت :

سلطان بہلول لودھی پابند صوم و صلواۃ تھا۔ وہ اکثر عالموں اور درویشوں کی صحبت میں رہتا۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتا۔ اس کو بادشاہ بنانے والے افغان امیر اور سپاہی تھے ۔چنانچہ وہ ان کے ساتھ برادرانہ سلوک کرتا تھا۔ وہ جنگی چالوں کا ماہر اور چالاک تھا۔ اس کے لئے ہر دن کسی ایک امیر کے گھر سے کھانا آتا تھا۔ وہ مغل سپاہیوں کی بہادری کا سچے دل سے معترف تھا۔ اس نے ہندوستان کے طول و عرض سے بہادر سپاہی اکٹھے کر رکھے تھے۔

سلطان سکندر لودھی:

تخت نشینی:

جب بادشاہ سکیٹ میں وفات پا گیا تو امیروں نے جانشینی کے بارے میں مشورے شروع کئے۔ بالآخر قرعہ فال اس کے بڑے بیٹے سکندر لودھی (نظام خان) کے نام نکلا۔اس کو تخت نشین کر نے میں اس کی والدہ زیبا خاتون جو ایک سنار کی بیٹی تھی اور اس کے اتالیق اور وزیر خان خاناں کا بڑا ہاتھ تھا۔ چنانچہ خان خاناں نے بلاتاخیر سکندر لودھی کوکوشک سلطان فیروز کے نام سے مشہور جگہ جو دریائے بیاس کے کنارے ہے، تخت نشین کردیا۔ اس نے باپ کا جنازہ دہلی روانہ کیا اور خود عیسیٰ خان لودھی کے سرپر جا پہنچا۔ اس نے عیسیٰ خان پر فتح پائی۔اسکو گرفتار کر کے معاف کیا اور دہلی روانہ ہوا۔

سکندر لودھی کے دور حکومت کے اہم واقعات وکارنامے:

1۔ اس نے عیسی ٰ خان سے نمٹنے کے بعد اپنے بڑے بھائی باربک شاہ سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا ۔چنانچہ قنوج میں دونوں بھائیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ باربک شاہ کے ساتھ بہلول کا ایک نامی گرامی امیر کالاپہاڑ تھا۔ اسکو سکندر لودھی نے گرفتار کر لیا۔اس کو گھوڑے سے اتر کر ملا اور اس کو اپنے باپ کے احسانات سے شرمند ہ کیا۔ کالاپہاڑ کا لشکر اس کے ساتھ مل کر باربک شاہ پر حملہ آورہوا۔ باربک شاہ مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے فرار ہوگیا۔ اس جنگ میں سکندر کا دوسرا بھائی مبارک خان گرفتار ہوا۔اس نے بدایوں میں باربک کو گرفتار کر کے معاف کیا اور واپس جونپو ر کی حکومت اس کو سونپ دی۔

2۔ اس نے حاکم بیانہ سلطان شرف کو شکست دے کر بیانہ کا علاقہ اس سے چھین لیا۔

3۔ اس نے جونپور کے زمینداروں کے ایک لاکھ کے قریب لشکر کو شکست فاش دی اور باربک کو وہاں کا دوبارہ حاکم بنا کر واپس آیا۔

4۔ بنارس شہر سے اٹھارہ کوس دور بادشاہ نے حسین شاہ شرقی کو شکست فاش دی اور وہ پٹنہ کی طرف بھاگا ۔اس کے بعد اس نے بہار میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ اس کے ساتھ ہی جونپور کے حکمرانوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

5۔ سلطان شرقی کی مہم سےفراغت کے بعد سلطان نے ملک کھندو حاکم بہار کو شکست دی اور پورا صوبہ بہار پہلی بار سلطان سکند ر کے قبضے میں چلا آیا۔

6۔ سلطان نے دہلی کے بجائے آگرہ کو پایہ تخت بنایا۔ اس کے بعد گوالیار کو فتح کیا۔

7۔ اس کے بعد سلطان نے قلعہ اودیت نگر اور قلعہ نرور فتح کئے۔

8۔وفات: سلطان کو ایک ایسی بیماری کا شکا ر ہوگیا کہ اس کے حلق سے پانی کا ایک گھونٹ نہیں جاتا تھا۔ وہ 7 ذیقعد 923 ہجری کو اسی بیماری سے وفات پا گیا۔اس کو آگرہ میں دفن کیا گیا۔اس نے 30 سال کچھ ماہ حکمرانی کی۔

شخصیت:

افغان بادشاہ سکندر لودھی ظاہر ی حسن وجمال کا مرقع اور باطنی خوبیوں سے لیس تھا۔ وہ بہت محنتی اور انصاف پسند تھا۔ وہ عوامی بادشاہ تھا اور ہر وقت ان کے درمیان رہتا تھا۔ وہ مساکین اور غرباء میں چھ مہینے کے وظائف تقسیم کرتا تھا۔ وہ صوفیاء کرام اور علمائے حق کی قدر کرتا تھا۔ اس کے دور میں علم وہنر کا بول بالا ہوا۔ وہ عسکری اعمال پر کڑی نظر رکھتا تھا۔وہ ایک ذہین اور مدبر حکمران تھا۔اس کو شعر وشاعری کا شوق تھا۔

سلطان ابراہیم لودھی:

ابراہیم لودھی نے آگرہ میں 923 ہجری کو تخت پر جلو س کیا۔ اس نے باپ داد ا کے دستور کے خلاف پٹھانوں کو وہ وقعت نہ دی جو اس کے باپ دادا نے دی تھی۔ چنانچہ بادشاہت کے آغاز سے افغان امیر اس سےناراض رہنے لگے۔ اس نے اعلان کیا کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا لہذا ہرآدمی بادشاہ کی تعظیم بجا لائے اور اس کے لئے دل وجان سے کام کرے۔ افغان امیر جو بہلول لودھی اور سکندر لودھی کے زمانے میں ان کے ساتھ بیٹھتے تھے اب اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے لگے۔

اہم واقعات:

1۔ افغان امیر اس سے بدظن ہوگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جونپور میں شہزادہ جلال اور آگرہ میں ابراہیم لودھی حکومت کرے۔شہزادہ جلال نے جونپور میں اپنی مستقل حکومت قائم کرلی۔ایک طویل کشمکش کے بعد بادشاہ کے سپہ سالار ملک آدم کے ہاتھوں شہزادہ جلال الدین نے شکست کھائی اور بادشاہ سے معافی کا خواستگار ہوا۔ بادشاہ نے اسے معاف کر کے کالپی کی جاگیر عطاکی۔یوں ممالک شرقیہ کا جھگڑا ختم ہوگیا۔

2۔ بادشاہ نے اپنے باپ کے نامی گرامی امیر میا ں بھورا کو بلاسبب گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔

3۔ بادشاہ نے گوالیار کے قلعہ کو راجہ مان سنگھ کے بیٹےبکر ماجیت سے ایک طویل جنگ کے بعد چھین لیا۔ اس نے اس قلعہ سے گائے کی ایک بہت بڑی مورت کو دہلی کے بغدادی دروازے پر نصب کیا جو بادشاہ جلال الدین اکبر کی بادشاہت تک وہاں نصب رہی۔

4۔ بادشاہ نے اعظم ہمایوں اور اس کے بیٹے فتح خان کو آگرہ بلا کر قید میں ڈال دیا۔انہوں نے بعد میں بادشاہ سے بغاوت کی اور اسلام خان سے مل کر ابراہیم لودھی کو بہت نقصان پہنچایا۔بادشاہ نے ایک طویل جنگ کے بعد باغیوں کو شکست دی۔

5۔ اس دوران بادشاہ سے بددل ہو کر دریاخان لوہانی ، بہار خان لودھی اور میاں حسن قرملی جیسے نامی گرامی امیروں نے بادشاہ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا۔ بادشاہ نے ان کو سازش کر کے مروا دیا۔ اس دوران بہار کا حاکم دریا خان لوہانی جب فوت ہوا تو اس کے بیٹے بہادر خان لوہانی نے بادشاہ سے برگشتہ ہوکر بہار میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ اس دوران غازی خان لودھی کا بیٹا دولت خان لودھی جو ایک ممتاز امیر تھا لاہور سے واپس آگرہ آیا لیکن بادشاہ کے غلط روئیے سے دل برداشتہ ہو کر واپس چلا گیا۔ اس نے انتقام لینے کے لئے مغل بادشاہ بابر مرزا کو ہندوستان پر حملے کی ترغیب دی۔

5۔ دولت خان لودھی جب اپنے علاقے میں پہنچا تو اس کوایک بات سوجھی کہ وہ بادشاہ کے غیض وغضب سے بچنے کے لئے بابر مرزا بادشاہ کابل سے مدد حاصل کرے۔ چنانچہ اس نے بابر بادشاہ سے باقاعدہ مدد کی درخواست کی۔

6۔ دولت خان لودھی نے علاؤالدین لودھی جو اس زمانے میں کابل میں مقیم تھا پنجاب بلایا اور اسکو بادشاہ بنا کر دہلی پرچڑھائی کامنصوبہ بنایا۔ چنانچہ ان کا مشترکہ لشکر دہلی کو روانہ ہوا۔ راستے میں کئی افغان امیر جوابراہیم لودھی سے عاجز آچکے تھے بھی علاؤالدین لودھی سے جاملے۔ادھر ابراہیم لودھی کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس نے چالیس ہزار لشکر کے ساتھ دہلی کی راہ لی۔راستے میں ابراہیم لودھی کے لشکر پر علاؤالدین نے شب خون مارا اور اس کا قتل عام کیا۔اس کے باوجود ابراہیم لودھی مقابلےمیں ڈٹا رہا۔ ابراہیم لودھی نے مخالفین کے لشکر پر تابڑتوڑ حملے کئے اور ان کو اتنا نقصان پہنچایا کہ وہ مزید لڑنے سے عاری ہو کر فرار ہوگئے۔اس لڑائی میں افغانوں کو دونوں اطراف سے نقصان پہنچا۔ وہ آپس میں لڑ تے ہوئے اتنے کمزور ہوگئے کہ بیرونی فوج سے ان کے لڑنے کی سکت ختم ہو کر رہ گئی۔

7۔ 932 ہجری بمطابق 1525 کو پانی پت کے میدان میں فردوس مکانی بابر مرزا کا مقابلہ سلطان ابراہیم لودھی سے ہوا۔اس جنگ میں افغان فوج کی تعداد ایک لاکھ جب کہ بابر مرز ا کی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی ۔ چنانچہ دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرائے۔بابر کے تیر اندازوں نے اس جنگ کا پانسا پلٹ کر رکھ دیا۔ ایک ہی دن میں 50 ہزار افغان سپاہی بابری تیراندازوں کا نشانہ بنے اور سلطان ابراہیم لودھی اپنے چھ ہزار جانثاروں کے ساتھ میدان جنگ میں قتل ہوگیا۔ ابراہیم لودھی کے قتل کے ساتھ ہی لودھی سلطنت کا خاتمہ اور مغل سلطنت کا آغاز ہوا۔

ابراہیم لودھی کی شخصیت:

سلطان ابراہیم لودھی ایک بہادراور مستقل مزاج حکمران تھا۔وہ شاید طاقت کا محور و مرکز اپنی ذات کو بنانا چاہتا تھا لہذا اپنی حکومت کے شروع میں اس نے اپنے نامی گرامی والد سلطان سکندر لودھی کے تمام امراء سے بیزار ہوگیا۔اس نے اپنے امراء سے ہتک آمیز سلوک کیا جس سے وہ اس کے خلاف ہو کر یا تو دشمن سے جا ملے یا پھر حکومت کے معاملات سے کنارہ کش ہوگئے۔دولت خان لودھی نے ابراہیم لودھی سے غداری کی اور اس کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ وہ غصے کا تیز اور قوت برادشت نہ رکھنے والا حکمران تھا۔

خلاصہ:

دہلی سلطنت میں مملوک خاندان کے بعد خلجی، تغلق اور لودھی مرکز پر یکے بعد دیگرے حکمران ہوئے۔اس دوران طاقتور بادشاہوں نے پورے ہندوستان یا اس کے زیادہ تر علاقوں پر حکومت کی اور جب بادشاہوں کی گرفت صوبوں پر کمزور ہوئی تو صوبے مرکز سے الگ ہوگئے۔ اسی طرح دہلی کے ساتھ ساتھ دولت آباد ، فیروز آباد، آگرہ اور لاہور جیسے شہر پایہ تخت بنے ۔دہلی سلطنت کے مطالعہ سے ایک اور حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کے ہندوستان پر قبضہ کے بعد زیادہ تر مسلمان ہی ہندوستان کے علاقوں پر حکمران رہے اور ان کے اپنے ہی امراء ان سے باغی ہوتے رہے جب کہ ہندو اور دیگر اقوام نے ان کے ماتحت رہ کر ان کی خدمت کی اور زیادہ تر ان کی افواج کا حصہ بن کر ان کے دشمنوں سے لڑتے رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں