172

سریکانت بولا: ایک غریب انڈین نابینا طالبعلم کی پانچ کروڑ پاؤنڈ کی کمپنی، نظام اور حالات سے لڑائی کی ایک کہانی

سریکانت بولا اپنی زندگی پر مبنی ایک بالی وڈ فلم بنوانے والے ہیں اور اس سے قبل اس نوجوان سی ای او نے 48 ملین پاؤنڈ کی ایک کمپنی بنائی ہے، لیکن یہ سب یوں ہی نہیں ہو گیا۔ ابھی سری کانت ہائی سکول میں ہی پڑھ رہے تھے کہ انھیں بتایا گیا کہ وہ سینیئر سکول میں ریاضی اور سائنس کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ نابینا ہیں۔ انھوں نے یہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انڈیا کی ایک ریاستی حکومت پر مقدمہ دائر کر دیا۔ یہاں اروندھتی ناتھ ان کی کہانی بیان کر رہی ہیں۔
چھ سال کے سریکانت بولا دوسال تک ہر روز اپنے بھائی کی رہنمائی میں اور اپنے ہم جماعت بچوں کے ساتھ انڈیا کے ایک گاؤں میں کئی کلومیٹر پیدل چل کر سکول جاتے رہے۔
جس راستے سے وہ سکول جاتے وہ کیچڑ والا راستہ تھا اور جا بجا جھاڑیاں اگی ہوتی تھیں جبکہ مون سون میں یہ سیلاب کی زد میں آ جاتا تھا۔ وہ کوئی بہت اچھا وقت نہیں تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا کیونکہ میں ایک نابینا بچہ تھا۔’
غریب، ناخواندہ والدین کے ہاں پیدا ہونے والے سریکانت کو برادری نے مسترد کر دیا تھا۔
‘لوگ میرے میرے والدین کو کہتے تھے کہ میں اپنے گھر کا چوکیدار بھی نہیں بن سکتا کیونکہ میں یہ تک نہیں دیکھ سکتا تھا کہ کوئی گلی کا کتا اندر تو نہیں آ رہا ہے۔’
اب سریکانت 31 سال کے ہیں۔ وہ اس دور کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ ‘بہت سے لوگ میرے والدین کے پاس آتے اور ان سے کہتے کہ وہ تکیے سے میرا منھ دبا کر مجھے مار ڈالیں۔’
ان کے والدین ان باتوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ ان کے والدین نے بہت مدد کی اور جب وہ آٹھ سال کے ہوئے تو سریکانت کے والد نے کہا کہ ان کے پاس ایک دلچسپ خبر ہے۔ سریکانت کو نابینا بچوں کے ایک بورڈنگ سکول میں داخلہ مل رہا ہے اور اس کے لیے وہ اپنے گاؤں سے 400 کلومیٹر دور قریبی شہر حیدرآباد میں منتقل ہو جائیں گے۔ اس وقت یہ شہر ریاست آندھرا پردیش کا دارالحکومت تھا۔
اگرچہ وہاں اپنے والدین سے بہت دوری تھی لیکن سری کانت نئی جگہ کے لیے پرجوش تھے اور وہ جلد ہی وہاں پہنچ کر سب میں گھل مل گئے۔ انھوں نے تیراکی، شطرنج کھیلنا اور ایسی گیند سے کرکٹ کھیلنا سیکھا جس سے کھڑکھڑاہٹ کی آوازیں آتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کا تعلق ہاتھ اور کان سے تھا۔’
سریکانت اپنے شوق سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اپنے مستقبل کے بارے میں بھی فکر مند رہتے۔ وہ ہمیشہ سے انجینیئر بننے کا خواب دیکھتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ اس کے لیے انھیں سائنس اور ریاضی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
جب وقت آیا تو انھوں نے ان اہم مضامین کا انتخاب کیا لیکن ان کے سکول نے ‘منع’ کردیا اور ان سے کہا کہ یہ غیر قانونی ہے۔
انڈیا میں سکول کئی اداروں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں، ہر ایک کے اپنے اصول ہیں۔ کچھ ریاستی حکومتوں اور مرکزی بورڈ کے تحت آتے ہیں جبکہ کئی دوسرے تعلیمی اداروں کا انتظام نجی طور پر کیا جاتا ہے۔
سریکانت کا سکول آندھرا پردیش کے ریاستی بورڈ آف ایجوکیشن کے ذریعہ چلایا جاتا تھا اور اس کے تحت نابینا طلباء کو سینیئر کلاسز میں سائنس اور ریاضی پڑھانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ان مضامین کے بصری عناصر جیسے خاکوں اور گرافس کے ساتھ اسے بہت زیادہ چیلنجنگ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بجائے وہ فنون لطیفہ، زبانیں، ادب اور سماجی علوم کا مطالعہ کر سکتے تھے۔
یہ سنہ 2007 کی بات ہے جب سری کانت اس من مانے قانون سے مایوس ہو گئے تھے جو تمام سکولوں کے لیے یکساں نہیں تھا۔ ان کی ایک ٹیچر، سورن لتا تککیلاپتی بھی مایوس تھیں اور انھوں نےاپنے نوجوان طالب علم کو قانونی چارہ جوئی کی ترغیب دی۔
یہ دونوں آندھرا پردیش کے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن میں اپنا موقف پیش کرنے گئے، لیکن انھیں بتایا گیا کہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
سریکانت حوصلہ شکنی کے باوجود اپنے ارادے سے ٹلے نہیں اور انھوں نے ایک وکیل تلاش کیا اور پھر سکول کی انتظامیہ کی ٹیم کے تعاون سے آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا جس میں نابینا طلباء کو ریاضی اور سائنس پڑھنے کی اجازت دینے کے لیے تعلیمی قانون میں تبدیلی کی اپیل کی گئی تھی۔
سری کانت نے بتایا کہ ‘وکیل نے ہماری طرف سے مقدمے کی پیروی کی’ کیونکہ اس کے لیے طالب علم کو خود کمرۂ عدالت میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔
جب مقدمے پر عدالت میں کارروائی چل رہی تھی تو سری کانت نے ایک اڑتی ہوئی خبر سنی کہ حیدرآباد میں ایک مرکزی دھارے کے سکول چنمایا ودیالیہ میں نابینا طلباء کو سائنس اور ریاضی پڑھنے کی اجازت ہے۔ واضح رہے کہ یہ سکول مختلف تعلیمی نظام کے تحت کام کرتا تھا۔ انھیں یہ بھی پتا چلا کہ اگر اس کی دلچسپی ہے تو انھیں اس میں داخلہ مل سکتا ہے۔
وہ اپنی کلاس میں واحد نابینا طالب علم تھے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ‘انھوں نے کھلے دل کے ساتھ میرا استقبال کیا۔’
وہ کہتے ہیں: ‘میری کلاس ٹیچر بہت ملنسار تھیں۔ انھوں نے میری مدد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ انھیں چھو کر ڈایاگرام بنانا سیکھا۔’
چھو کر محسوس کیے جانے والے ڈایاگرامز (یعنی نقشہ یا خاکہ) ربڑ کی چٹائی پر پتلی فلم کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جا سکتے ہیں۔ اور جب اس پر بیرو یا پنسل سے کوئی ڈرائنگ بنائی جاتی ہے تو اس پر ایک ابھری ہوئی لکیر بنتی جاتی ہے جسے چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
چھ ماہ بعد عدالت سے خبر آئی اور سری کانت نے اپنا کیس جیت لیا تھا۔
عدالت نے فیصلہ سنایا کہ نابینا طلباء آندھرا پردیش کے تمام ریاستی بورڈ سکولوں میں اعلیٰ درجوں میں سائنس اور ریاضی پڑھ سکتے ہیں۔
سری کانت کہتے ہیں: ‘میں نے بہت خوشی محسوس کی۔ مجھے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کا پہلا موقع ملا کہ میں یہ کر سکتا ہوں اور نوجوان نسل کو مقدمات دائر کرنے اور عدالتی لڑائی لڑنے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سری کانت جلد ہی ریاستی بورڈ کے ایک سکول میں واپس آئے اور اپنے پسندیدہ مضامین ریاضی اور سائنس کی تعلیم حاصل کی جس کے امتحانات میں انھوں نے اوسطاً 98 فیصد نمبر حاصل کیے۔
ان کا منصوبہ انڈیا کے ممتاز انجینیئرنگ کالجوں میں درخواست دینا تھا جنھیں آئی آئی ٹیز (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کہا جاتا ہے۔
اس میں داخلے کا مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے اور طلباء اکثر داخلے کے امتحانات سے پہلے شدید کوچنگ حاصل کرتے ہیں، لیکن کسی بھی کوچنگ سینٹر میں سریکانت کے لیے جگہ نہیں تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے بڑے کوچنگ اداروں کی طرف سے بتایا گیا کہ کورس کا بوجھ بہت زیادہ ہوگا جو کہ ایک چھوٹے نازک پودے پر موسلادھار بارش کے مترادف ہو گا۔’ ان کا خیال تھا کہ وہ ان کے تعلیمی معیار پر پورا نہیں اتر سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اگر آئی آئی ٹی مجھے نہیں چاہتا تھا تو میں بھی آئی آئی ٹی کو نہیں چاہتا تھا۔’
اس کے بجائے انھوں نے امریکہ کی یونیورسٹیوں میں درخواست دی اور انھیں پانچ پیشکشیں موصول ہوئیں، جن میں سے انھوں نے کیمبرج، میساچوسٹس کے ایم آئی ٹی کو پسند کیا اور وہاں داخلہ لیا اور اس طرح وہ پہلے بین الاقوامی نابینا طالب علم بن گئے۔
وہ سنہ 2009 میں وہاں پہنچے اور وہاں اپنے ابتدائی دنوں کو انھوں نے ‘ملا ملا تجربہ’ قرار دیا۔
‘انتہائی سردی پہلا جھٹکا تھا کیونکہ میں اس طرح کے سرد موسم کا عادی نہیں تھا۔ کھانے کی خوشبو اور ذائقہ مختلف تھا۔ میں نے پہلے مہینے میں جو کچھ کھایا ان میں بیشتر فرنچ فرائز اور فرائیڈ چکن فنگر تھے۔’
لیکن سری کانت جلد ہی ایڈجسٹ ہونے لگے۔
وہ کہتے ہیں: ‘ایم آئی ٹی میں گزارا وقت میری زندگی کا سب سے خوبصورت دور تھا۔
‘تعلیمی محنت کے لحاظ سے، یہ سخت اور خوفناک تھا۔ ان کی معذوری کے لیے سروس نے میری مدد کرنے، ایڈجسٹ کرنے اور مجھے تیز رفتاری کے ساتھ ان سے ہم آہنگ کرنے میں بہت اچھا کام کیا۔’
انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے دوران حیدرآباد میں نوجوان معذور افراد کو تربیت اور تعلیم دینے کے لیے ایک غیر منافع بخش تنظیم، سمنوے سینٹر فار چلڈرن ود ملٹیپل ڈس ایبیلیٹی’ کے نام سے شروع کی۔ انھوں نے چندے کے پیسے سے وہاں بریل لائبریری بھی کھولی۔
زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ انھوں نے ایم آئی ٹی سے مینجمنٹ سائنس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور انھیں کئی ملازمتوں کی پیشکش کی گئی، لیکن انھوں نے واپس اپنی ریاست آنے کا فیصلہ کیا۔
سری کانت کے سکول کے تجربے نے ان پر ایک انمٹ نقش چھوڑا تھا، اور انھیں ایسا لگا جیسے ان کا اپنے آبائی ملک میں کام ادھورا رہ گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے زندگی میں ہر چیز کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑی جب کہ ہر کوئی میری طرح لڑ نہیں سکتا اور نہ ہی میرے جیسے رہنما انھیں مل سکتے ہیں۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب انھوں نے بڑی تصویر پر نظر ڈالی تو انھیں احساس ہوا کہ منصفانہ تعلیم کے لیے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے بعد معذور افراد کے لیے ملازمت کے مواقع نہیں ہوں۔
انھوں نے سوچا کہ ‘کیوں نہ میں اپنی کمپنی شروع کروں اور معذور افراد کو ملازمت دوں؟’
سری کانت سنہ 2012 میں حیدرآباد واپس آئے اور بولانٹ انڈسٹریز کی بنیاد رکھی۔ یہ پیکیجنگ کمپنی تار اور کھجور کے گرے ہوئے پتوں سے ماحول دوست مصنوعات جیسے بل دار پیکیجنگ تیار کرتی ہے اور اس کمپنی کی فی الحال 48 ملین پاؤنڈ قیمت ہے۔
اس کمپنی میں زیادہ سے زیادہ معذور افراد اور دماغی صحت کے عارضے میں مبتلا افراد کو ملازمت دی جاتی ہے۔ وبائی مرض سے پہلے اس کمپنی کے 500 مضبوط عملے میں 36 فیصد معذور افرادکام کرتے تھے۔
گذشتہ سال 30 سال کی عمر میں سریکانت نے ورلڈ اکنامک فورم کی ینگ گلوبل لیڈرز 2021 کی فہرست میں جگہ بنائی اور انھیں امید ہے کہ تین سال کے اندر ان کی کمپنی بولانٹ انڈسٹریز ایک گلوبل آئی پی او بن جائے گی، جس کے بعد اس کے حصص بیک وقت متعدد بین الاقوامی سٹاک ایکسچینجز میں درج ہوں گے۔
بالی وڈ سے بھی کال آئی ہے۔ معروف اداکار راجکمار راؤ کی اداکاری والی ایک بایوپک کا اعلان کیا گیا ہے جس کی شوٹنگ جولائی میں شروع ہوگی۔ سریکانت کو امید ہے کہ جب وہ پہلی بار ان سے ملیں گے تو لوگ انھیں کم تر سمجھنے سے باز رہیں گے۔
‘ابتدائی طور پر لوگ سوچتے ہیں کہ ‘اوہ، بیچارہ اندھا ہے۔۔۔ کتنے افسوس کی بات ہے’ لیکن جب میں بتانا شروع کرتا ہوں کہ میں کون ہوں اور میں کیا کرتا ہوں تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں