mazhar-barlas articles 259

سب کچھ گدلا ہے.مظہر برلاس

میرا بیوروکریٹ دوست ہمیشہ عجیب باتیں کرتا ہے۔ ایک شام کہنے لگا …’’ سیاستدانوں، فوج اور عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، بیوروکریسی اور صحافیوں کے علاوہ پولیس پر بھی تنقید ہوتی ہے مگر سب سے بڑے طبقے پر کوئی تنقید نہیں کرتا جو سارے مسائل کا ذمہ دار ہے…‘‘ یہ جملے ادا کرکے اس نے سب پر سوالیہ نگاہیں ڈالیں، ایک پروفیسر صاحبہ بولیں آپ عوام کی بات کر رہے ہیں، ایک اور صاحب نے کچھ اور کہا، اس کےبعد سیاستدان بولا،ان کی باتیں سن کر میرا بیوروکریٹ دوست پھر بولا …’’ میری مراد عام آدمی ہے اگر آپ فوج سے متعلق سوچ رہے ہیں تو بھی غلط ہے کیونکہ فوج میں صرف 42 ہزار افسران ہیں،باقی سب کو عام آدمیوں میں شمار کیا جائے، اسی طرح بیوروکریٹس ہزاروں میں ہیں، سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے باقی تمام افراد عام آدمی ہیں، نظام کی تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار عام آدمی ہے کیونکہ وہ کسی عام آدمی کو ووٹ نہیں دیتا، وہ پسند ہی نہیں کرتا کہ عام آدمی ایوانوں کا حصہ بنے…‘‘ ایک سرکاری افسر کے علاوہ ہمارا ایک اور کلاس فیلو بھی موجود تھا جس کی فیملی سے کئی پولیس افسران سامنے آئے، ایک بھائی تو آئی جی بھی رہا۔ بڑی مشکل سے باری لیتے ہوئے میں نے بائیں طرف بیٹھے بیوروکریٹ کو متوجہ کرکے عرض کیا کہ میں ایک پھل فروش کے پاس گیا، اس سے کہا کہ تم کم تولتے ہو، اوپر اچھا اور نیچے خراب پھل رکھتے ہو، گاہک کو اچھا دکھا کر اسے خراب پھل دیتے ہو، مہنگابھی بیچ رہے ہو، یہ بددیانتی کیوں کرتے ہو؟ پھل فروش کہنے لگا ’’ اس علاقے کے مجسٹریٹ اور ایس ایچ او کے گھروں میں پھل میری طرف سے گیا ہے، اس کی کسر کہاں سے پوری کروں، میں نے بھی تو بیوی بچوں کا پیٹ پالنا ہے…‘‘ جناب والا! یہ پھل فروش بھی تو عام آدمی ہے، اسے کرپشن پرکس نے مجبور کیا؟ شاید ہمارے گوالے یعنی دودھ والے کو بھی انہی حالات کا سامنا ہو، وہ بھی کئی گھروں میں مفت دودھ دیتا ہو۔ یہ باتیں سن کربیوروکریٹ بولا …’’ یہ کرپشن کی چین ہے، اس میں عام آدمی شامل ہے، معاشرے کا بڑا حصہ تو عام آدمیوں ہی پر مشتمل ہے، یہ عام آدمی ہی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں، یہی عام آدمی اس آلودہ نظام میں برابر کے نہیں بلکہ زیادہ حصے دار ہیں، یہ کرپشن کو خودرواج دیتے ہیں، چونکہ قوم کا بڑا حصہ انہی عام آدمیوں پر مشتمل ہےلہٰذا ہم من حیث القوم کرپٹ ہیں، ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے…‘‘ دونوں پروفیسرز نے کچھ بحث کی، پھر میں بولا کہ اچھا آپ کا اشارہ عام طبقات کے شاعر حبیب جالب کی طرف ہے جس نے ایوب دور میں کہا تھا کہ ؎

دس کروڑ یہ گدھے

جن کا نام ہے عوام

آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں سارا قصور عوام کا ہے؟ بیورو کریٹ بولا …’’ نہیں، آپ کو میں ایک اور مثال دیتا ہوں، آپ یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کےسامنے ایک ٹب پڑا ہے، اس ٹب میں پانی گدلا ہے، اسی پانی میں کرپشن کا زہر ہے، پھر آپ نےاسی آلودہ پانی سے ایک گلاس نکالا اور اس پر لکھ دیا، بیوروکریسی، ایک اور گلاس نکال کراس پر عدلیہ لکھ دیا، تیسرے گلاس پر فوج اور چوتھے گلاس پر سیاستدان،ایک اور گلاس نکال کر اس پر پولیس یا محکمہ مال لکھ دیا، چونکہ یہ سب گلاس آپ نے گدلے اور کرپشن آلودہ پانی سے نکالے پھر آپ ان گلاسوں میں سے کیسے صاف پانی ڈھونڈتے ہیں؟ کس طرح یہ تصور کرتے ہیں کہ اسی گدلے ٹب سے بھرے گئے گلاسوں میں کرپشن کازہر نہ ہو؟…‘‘ آپ کے معاشرے کا ایک زہر تفرقہ ہے، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس معاشرے میں چھ دوست فلم دیکھنے کے لئے اکٹھے سینما گھر جاتے ہیں، آپ کے آٹھ دوست ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، آپ کے دس بارہ دوست یا بیس بائیس دوست ایک گرائونڈ میں ایک ساتھ کھیلتے ہیں مگر جب نماز کاوقت ہوتا ہے تو یہ اکٹھے نہیں رہتے، ان کے فرقے جاگ جاتے ہیں، کھیلے اکٹھے، فلم اکٹھےدیکھی، کھانا ایک ساتھ کھایا مگر نماز ایک ساتھ نہ پڑھ سکے، آپ کا معاشرہ زہر آلودہ ہے، ہم قوم کیوں نہیںبن سکے، اسی لئے کہ معاشرے میں تعصبات کا زہر ہے، ہمارے پورے ٹب میں سب کچھ گدلا ہے، پہلے پورے ٹب کو صاف کریں پھرکوئی گلاس گدلا نہیں ہوگا…‘‘

میرے دوست نےدرست کہا، ہم کہیں جا کر بھی تبدیل نہیں ہوتے ورنہ ٹوکیو اور جکارتہ میں سفارت خانے ہی دیانتداری سے فروخت کردیتے، وہاں موجود سفیروں نے جی بھر کے ان عمارتوں کی فروخت میں کرپشن کی، اسی لئے دونوں مقدمات نیب میں ہیں۔ 1947ء میں یہ قوم ایسی نہیں تھی، شاید اسی لئے جہانزیب ساحرؔ کہتا ہے کہ:

ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں

ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں