dr mujahid mansoori 103

زہریلا بھارتی پروپیگنڈہ اور پاکستان.ڈاکٹرمجاہدمنصور

پاکستان کا قیام تلوار یا بندوق سے ہوا تھا نہ گوریلا جنگ اور کسی پُرتشدد بغاوت سے۔ نہ ہی کسی خونیں انقلاب اور بیرونی مداخلت و طاقت سے۔ فقط دانش و دلیل اور اسے حاصل مطلوب و نتیجہ خیز ابلاغی معاونت ہی نومولود پاکستان کا عظیم سیاسی، تاریخی اثاثہ بنی۔پہلے مرحلے میں سرسید احمد خان کی علمی تحریک کا پراثر ابلاغ، پھر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی ابلاغ اور اسے حاصل مسلمانان ہند کو نئے سیاسی شعور سے نوازنے والی بلند درجے کی پراثر مسلم صحافت کی ابلاغی معاونت، وہ محرکات تھے جس سے قیام پاکستان کا ناممکن سا عظیم سیاسی ہدف حاصل ہوا۔ مسلمانانِ ہند کے کامل سیاسی اور پرامن طریق ہائے سیاست سے اتنی ہی بڑی سیاسی شکست کا بدلہ کانگریس اور رخصت ہونے والے فرنگی راج نے چانکیہ کے بتائے طریقے اختیار کرکے تقسیمِ ہند کے عمل کو خون میں نہلا کرلیا جس کے لئے یک نہ شد دو شد، ایک تیر سے دو شکار کئے، مشتعل سکھ اور مسلمان۔

اب یہ تاریخی حقیقت بھی مکمل بے نقاب ہوگئی ہے کہ کانگریسی قائدین جو جمہوری سیکولر بھارت کا لبادہ اوڑھ کر مسلم لیگی دو قومی نظریے کے مقابل بظاہر ’’ایک قومی نظریے‘‘ کی سیکولر سیاست کر رہے تھے، دل و دماغ میں ’’برہمن راج‘‘ کا ہڈن ایجنڈا بسائے ہوئےتھے۔جیسے دو قومی نظریہ کے تحت جداگانہ انتخاب کی تجویز تک سرسید کی علمی تحریک کا ہڈن ایجنڈا تھا۔ اس کا پر زورعلانیہ سیاسی بیانیہ ’’ بھارت ایک سیکولر جمہوریہ‘‘ (جسے بھارتی آئین کی بنیاد تک بنایا گیا) نفاذ آئین کے بعد آزاد بھارت میں بھی کوئی ختم نہیں ہوا۔ گویا ’’ری پبلک آف انڈیا‘‘ کے قیام کے بعد بھی بھارت قومی اقتدار کی تشکیل کی اصل قوت’’شو بوائز‘‘ کے پس پردہ ’’برہمنی برتری‘‘ کو ان اے وے (حکمتی انداز میں) قائم رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ نوے کی دہائی تک تیسری دنیا آج کی اصطلاح میں ’’ترقی پذیر ممالک‘‘ میں نفاذِ آئین سے کامیاب اور مسلسل انتخابی عمل، اور اس کے نتیجے میں منتخب حکومتوں کے قیام نے بھارت کےسر پر ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ‘‘ کا تاج سجائے رکھا۔ اس کے اس کھوکھلے تشخص نے جس کا خول حسین بھی تھا اور مضبوط بھی، امریکی ڈیموکریٹس حکومتوں میں نئی دہلی کی سوویت نوازی کے باوجود بھارت کی اہمیت و احترام کو قائم دائم رکھا۔ ’’جمہوری سیکولر بھارت‘‘ کا تشخص قائم کرنے میں کامیابی کے ساتھ بھارت نے پاکستان جس کے چلنے میں قائد اعظم کی رخصتی کے ساتھ ہی سنگین آئینی مسائل نے جنم لیا، بھارت کوبتدریج پھر تیزی سے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا بڑا سامان پیدا کرنے کے موقع فراہم کر دیا جس کے ذمے دار اور ملزم ومجرم ہم خود بنے اور تھے بھی۔ سیاسی بدلے کی پیاس تقسیم کے کشت و خون سے کوئی بجھ نہیں گئی تھی، ہم نے اسے اپنے داخلی عدم استحکام سے خود ہی بھڑکایا۔ اوپر سے ایک ہی سال میں بابائے قوم سے محرومی اور ملک کے دونوں بازوئوں کے جغرافیے کے قدرتی جبر نے سیاسی طور پر ڈگمگاتے بمشکل چلتے، کبھی سازشوں اور مہلک سیاسی گٹھ جوڑ سے اور کبھی طویل مارشل لائی دور نے پاکستان کو بھارت کیلئے گویا ترنوالہ بنانےکی بنیاد رکھ دی۔ یک نہ شد دو شد، دوسرے مارشل لا اور اسی کی پیداوار سیاسی قیادت کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ سیاسی کردار نے ملک کا مشرقی بازو کاٹ دیا۔ اس میں بھارت کا کردار تو وہی بنا جس کی وہ تیاری کر رہا تھا، لیکن ہمارا اپنا کردار ہر دو سیاسی و عسکری حکمرانی قیادت کا بھارت سے کم مجرمانہ نہیں تھا۔ ذہن نشین رہے مشتعل اکثریتی منتخب پارلیمانی قوت کو سیاسی طور پر مینج کرنے میں مجرمانہ ناکامی کے بعد ملٹری ایکشن پر ادھر کی (مغربی پاکستان) منتخب اکثریتی پارلیمانی قیادت کے یہ غیر سیاسی جمہوری ریمارکس کہ ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ ہماری سیاسی تاریخ کے سیاہ باب میں محفوظ ہیں۔

انتہا کی بہت کھلی لیکن اتنی ہی چھپائی گئی سچی پکی کہانی ’’اسلامیہ جمہوریہ‘‘ کی سقوط غرناطہ اور سلطنت عثمانیہ کے لپٹ جانے سے کم اذیت ناک نہیں تھی۔ یہ کہانی بھارتی پروپیگنڈے کے زہر کے اثرات اور نتیجہ خیز ہونے کی کہانی ہے۔ جوہوا سو ہوا۔ پھر بھی نہ بھولا جائے، ڈھاکہ کا سقوط جو عسکری فتح اور شکست سے ہوا وہ ان ہی نتائج کے ساتھ سیاسی حل کے طور پر ہونے کا مکمل سامان موجود تھا۔ جس میں ہتھیار ڈالنے پڑتے نہ دشمن کی قید۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پولینڈ کی قرارداد کا استرداد ہماری سیاسی تاریخ کا المناک لمحہ تھا۔ یہ بھی ہوگیا۔ مشرقی پاکستان میں بھارت نے ہمارے قومی ڈیزاسٹر، سیاست کا مکمل فائدہ اٹھا کر کامیاب ترین پروپیگنڈے سے اتنا ذہنی خلا دونوں صوبوں (مغربی و مشرقی) میں پیدا کردیا تھا کہ پاکستان بنانے میں سرگرم بنگالی بھائیوں کو کسی بھی درجے پر مشتعل کرنے کا بھرپور موقع ہماری مہلک قومی سیاست نے طشتری میں رکھ کر بھارت کو دے دیا تھا، سو اس نے اس پر جو مزید محنت کرنی تھی اسے پاکستان پر کھلی جارحیت اور مرضی کی مداخلت کرنے کو ممکن بنانے کی توانائی حاصل کرنے پر لگا دی کہ یہ آسان تر ہوگیا تھا۔ ملٹری آپریشن کے بعد صورتحال بے قابو ہوتےہی روس سے کلکتہ، میں جو مشرقی پاکستان اور بھارت کی پُرآشوب سرحد کے قریب تر تھا، نئی دہلی اور ماسکو کا دفاعی معاہدہ ہوا، جسے ’’معاہدہ دوستی‘‘ کا نام دیاگیا کہ بھارت غیروابستہ ممالک کی تحریک (NAM)کی پابندی کے باعث کھلا دفاعی معاہدہ روس سے نہیں کرسکتا تھا۔ امریکی بحری بیڑے کے خلیج بنگال پہنچنے کی خبروں کے شور میں بنی صورت میں بھارت کا یہ بڑا سفارتی اقدام بہت موثر ہوا، بیڑہ خلیج تک نہ پہنچا لیکن بھارت نے روس کی شہ پر تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے داخلی سیاسی انتشار کو اپنے حملے اور انتہا کی غیر متوازن جنگ میں تبدیل کردیا۔

اب جبکہ بھارت خود بنیاد پرست ہندو ریاست بن چکا ہے، سیاسی نعروں پر نہیں بھاری انتخابی جیت کےساتھ تو پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کابہت کچھ بے نقاب ہو رہا ہے، اس کا ایک اہم ترین باب پاکستان کے خلاف بھارت کا زہریلا پروپیگنڈاہے جو بلاامتیاز کسی کی حکومت ، ہر دور میں ہر انتخابی مہم اور مجموعی بھارتی سیاست اور دنیا بھر کے سفارتی پارلیمانی حلقوں اور بین الاقوامی برادری میں،بھارتی سفارت کاری کا ترجیحی آپریشن بن چکا ہے، تادم جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں