152

راولپنڈی کا نابینا ٹھگ، جس نے انگریزوں کا سر چکرا دیا

ایک عام تاثر ہے کہ پرانے وقتوں کے لوگ سادے ہوتے تھے اور مکر فریب اور فراڈ شاید انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا، لیکن اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔
بنارس کے ٹھگ صرف ایک محاورہ نہیں بلکہ ان کی شہرت ہندوستان بھر میں تھی۔ اسی طرح بمبئی کے جیب تراشوں کی شہرت بھی چہار دانگ عالم میں تھی۔ 2018 میں اس موضوع پر بالی وڈ کی ایک فلم ’ٹھگز آف ہندوستان‘ بھی ریلیز ہو چکی ہے۔
آج کے دور کے ممتاز خفیہ ادارے ’انٹیلی جنس بیورو‘ نے جس ادارے کی کوکھ سے جنم لیا ہے وہ انہی ٹھگوں کی کارروائیوں کے خلاف عمل میں لایا گیا تھا جس نے ہندوستان بھر سے ایسے گروہوں کا صفایا کیا تھا۔
ایسا ہی ایک ٹھگ 1879 میں راولپنڈی میں سامنے آیا جس نے ہزاروں لوگوں کو کنگال کر کے رکھ دیا۔ یہ واقعہ راولپنڈی کے گزیٹیئر 1893-94 میں درج ہے۔
راولپنڈی کے نزدیک کہوٹہ کا قصبہ، جہاں آج کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم ہیں، وہاں کے گاؤں ناڑا کے ایک گکھڑ خاندان میں 1859 میں ایک لڑکا پیدا ہوا جو تین سال کی عمر میں چیچک کی بیماری کا شکار ہو کر نابینا ہو گیا۔
گھر والو ں نے اسے مسجد میں قرآن حفظ کرنے پر لگا دیا مگر پانچ سپارے حفظ کرنے کے بعد ہی اس نے یہ سلسلہ ترک کر دیا اور ایک فقیر فتح اللہ نوشاہی کا مرید بن گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد کہوٹہ سے ہجرت کر کے اپنے رشتہ داروں کے پاس گوجر خان چلا گیا جہاں اس نے 40 روز کی چلہ کشی کی اور لوگوں میں پیر بن گیا۔
ضعیف الاعتقادی ہمیشہ سے ہی غریب معاشروں کا چلن رہا ہے چنانچہ سینکڑوں لوگ اس کے معتقد بننے لگے اور اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے اس کے پاس آنے لگے۔ اسی دوران ایک مقامی زمیندار کے گھر چوری ہو گئی وہ حافظ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ اگر اس کا مسروقہ مال بر آمد ہو جائے تو اس کا چوتھائی حصہ حافظ کو دے گا۔
اس نے ابتدائی طور پر پانچ روپے بھی حافظ کو دیے مگر حافظ چوروں کا سراغ نہ لگا سکا اور نہ ہی وصول کی گئی رقم لوٹائی۔
زمیندار نے مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس شکایت درج کرا دی۔ اس نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ زمیندار کے پاس رقم دینے کا نہ کوئی گواہ تھا نہ ثبوت۔ الٹا حافظ کی نیک نامی کی گواہی دینے کے لیے مقامی بااثر افراد پیش ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ حافظ ایک نابینا، غریب اور پارسا شخص ہے۔
حافظ کو چھوڑ دیا گیا۔ رہائی کے بعد حافظ نے مشہور کر دیا کہ خدا نے اسے ان مسلمان بھائیوں کی مدد پر مامور کر دیا ہے جو سود خور مہاجنوں کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس کے پاس ایک روپیہ جمع کروائے گا وہ بدلے میں پانچ روپے پائے گا۔
ارد گرد کے لوگ اس کے پاس پیسے لانے لگے اور بدلے میں پانچ گنا وصول پانے لگے۔ جب یہ خبر گردو نواح میں پھیل گئی تو حافظ کے پاس پیسے لے کر آنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ اب حافظ نے فتح جنگ کے ایک سکھ کو ایک روپے روزانہ کی تنخواہ پر اپنا منشی رکھ لیا۔ وہ وصول شدہ رقم کا اندراج کرتا اور پیسوں کی ادائیگی کے لیے لمبی لمبی تاریخیں دینے لگا۔
رقم پانچ گنا کروانے کے لیے آنے والے لوگوں کا تانتا بندھ گیا اور حافظ نے اپنے دو اور رشتہ دار منشی رکھ لیے۔ کچھ عرصہ تک لوگوں کو رقم کی ادائیگی پانچ گنا کے حساب سے ہوتی رہی جس کی وجہ سے لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ وہ اپنے وقت کا ولی ہے جس پر رات کو اللہ تعالیٰ پیسوں کی بارش کرتا ہے۔
حافظ روزانہ رات کو ایک کمرے میں بند ہو جاتا اور چارپائی پر بیٹھ کر سکے چھت کی طرف اچھالتا۔ اس کے حجرے کے باہر جو لوگ اکٹھے ہوتے تھے وہ سکوں کی جھنکار سنتے تو انہیں یقین کامل ہو جاتا کہ اس پر آسمان سے پیسوں کی بارش ہو رہی ہے۔
اب حافظ نے گوجر خان کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی گاؤں ناڑا اور مٹور میں بھی اپنے آستانہ بنا لیا اور مہینے میں کچھ دن یہاں بیٹھ کر پیسے بٹورنے لگا۔ لوگوں نے اپنی بیٹیوں کے جہیز کے لیے جمع کردہ رقم بھی حافظ کو آ کر پیش کر دی کہ اس طرح ان کی رقم پانچ گنا ہو جائے گی۔ حافظ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے لیے لمبی لمبی نمازیں بھی پڑھنے لگا جس سے لوگوں کا اعتماد اور بڑھ جاتا کہ واقعی حافظ پارسا شخص ہے۔
حافظ کی پارسائی اور امارت کو دیکھتے ہوئے اسے موضع للہیال سے ایک لڑکی کا رشتہ بھی مل گیا۔ ایک کے بعد دوسری شادی کے لیے ایک اور عورت سے منگنی بھی رچا لی۔ حافظ کی شہرت اب پورے ضلعے میں پھیل چکی تھی اور اس کے گھر میں پیسے لے کر آنے والوں کا ایک میلہ سا لگنے لگا۔
اسی دوران کلر سیداں کے کھتری بخشی خوش وقت کے کان کھڑے ہوئے اور وہ حافظ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے لگا۔ جلد ہی اسے پتہ چل گیا کہ حافظ بہت بڑا ٹھگ ہے جو سادہ لوح لوگوں کو پیسے پانچ گنا کرنے کے بہانے لوٹ رہا ہے۔ جب اس نے حافظ کی مکاریوں کی ایک رپورٹ تیار کرکے انگریز افسران کو پیش کی تو وہ حیران رہ گئے کہ ایک نابینا شخص نے کس طرح سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیا ہے۔
انگریزوں نے کچھ دن اس کی خفیہ نگرانی کی تو مزید ششدر رہ گئے کہ حافظ نے سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے کس قدر خوبصورتی سے جال بچھایا ہوا ہے۔ انگریز نے حافظ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔ جیسے ہی حافظ کے منشیوں کو اس کا علم ہوا وہ رقم لے کر بھاگ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حافظ کے پاس اس زمانے میں 25 ہزار روپے موجود تھے جو اس نے زمین میں دبا دیے۔
حافظ کی بدقسمتی کہ شاید کسے نے اسے رقم دفن کرتے دیکھ لیا اور وہ آنکھ بچا کر اسے نکال لے گیا۔
ادھر حافظ کو پولیس نے اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ جائے وقوعہ سے صرف 2960 روپے بر آمد ہوئے۔ پولیس نے کچھ مزید رقم جو قریبی کھیتوں میں دفن کی گئی تھی ملزمان کی نشاندہی پر بر آمد کر لی۔ ملزمان پر مقدمہ چلا اور حافظ کو دھوکہ دہی پر ڈیڑھ سال کی قید با مشقت سزا سنائی گئی جبکہ اس کے ساتھیوں کو بھی مختلف سزائیں سنائی گئیں۔
حافظ نے قید سے رہائی پانے کے کچھ عرصہ بعد پھر یہی دھندا دوبارہ شروع کر دیا۔ ایک بار پھر اسے گرفتار کر کے دو سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ حافظ نے پارسائی کے لبادے میں ہزاروں لوگوں کو کنگال کر دیا۔ ایک عرصے تک حافظ کی مکاری علاقے کے لوک گیتوں کا حصہ رہی:
حافظ ناڑے دا پیا روڑی کٹدا ای
مال لوگاں دا اس نے زوری لٹیا ای
(ترجمہ: ناڑے کے مکین حافظ کو لوگوں کا مال لوٹنے پر قید با مشقت ہو گئی ہے جہاں وہ پتھر کوٹ رہا ہے)
کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اور یہ بھی کہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ چنانچہ ہر چند سال بعد کہیں نہ کہیں سے ایسے ہی کسی جعلی پیر یا سائیں کی خبر آ جاتی ہے جو سادہ لوح لوگوں کو روپیہ یا زیور دگنا کرنے کا لالچ دے کر لوٹ لیتا ہے۔ اس قسم کے لیے لوگوں کے لیے ’ڈبل شاہ‘ کی اصطلاح بھی موجود ہے۔
حافظ ہی کی طرح کا ایک مشہور و معروف ڈبل شاہ کا کیس 2005 میں وزیر آباد میں پیش آیا جب سبط الحسن نامی ایک سکول ٹیچر نے لوگوں کو ان کے پیسے ڈبل کرنے کا جھانسا دے کر صرف 18 مہینوں میں پانچ ارب 40 کروڑ روپے سے محروم کر دیا۔
نیب نے 2018 تک ڈبل شاہ کے متاثرین کو ایک ارب 20 کروڑ کی رقم واپس کی ہے۔ 2012 میں ڈبل شاہ کو عدالت نے 14 سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں