Moon Sighting Issue in pakistan 829

رؤیت ہلال ” پاکستان میں: مفتی ضمیر احمد ساجد

رؤیت ہلال ” پاکستان میں

مفتی ضمیر احمد ساجد ۔۔۔۔ اسلام آباد

پاکستان میں”رؤیت ہلال “پر جزوی اختلاف ہر سال ہوتا ہے اور یہ اختلاف صرف رمضان اور عید الفطرکے موقع پر ہی سامنے آتا ہے”مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان” ہمیشہ اتفاق رائے سے فیصلہ کرتی ہے، پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے لوگ اسے بھر پور قبول کرتے ہیں اور سب ایک ہی وقت میں رمضان کا آغاز کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں عید کرتے ہیں صرف “کے پی کے” کی ایک مسجد میں بعض علماء کی پرائیویٹ کمیٹی اپنے شیڈول کے مطابق قبل از وقت اجلاس کر کے وہاں کی زونل کمیٹی اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کےفیصلے سے پہلے ہی فیصلہ کرکے اختلاف کی بنیاد رکھ دیتی ہے اور بعد میں اس اختلاف کی وجہ سے ملک بھر میں افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں اور غلط فہمیوں کا ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے جو سرا سر قومی عزت و وقار کے خلاف ہوتا ہے ، در اصل یہ اضطراب کسی علمی اختلاف کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی کمزوری ہے جس کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے اور وہ حل یہ ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان، ریاست کا وہ ادارہ ہے جو پورے ملک کے نمائندہ اہل علم اور ماہرین فلکیات پر مشتمل ہے جو رمضان اور عید کے علاوہ دیگر مہینوں کے چاند کی رویت یا عدم رویت کا شرعی حکم صادر کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور یہی چاند کے نظر آنے یا نظر نہ آنے کا قومی اعلان کرنے کا مجاز ہے، اس کے متوازی کسی بھی فورم کے لئے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کے اعلان پر پابندی ہونی چاہیئے تاکہ ملی وحدت کو نقصان نہ پہنچے اور اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوتوں کو اس سے نا جائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے ، یہ قومی یکجہتی کے لئے ضروری ہے لیکن اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے کہ، رمضان اور عید کی تاریخیں ماہرین فلکیات چاند دیکھنے سے پہلے ہی متعین کر سکتے ہیں یا اس کے لئے آنکھ کا مشاھدہ بھی ضروری ہے ، میری گزارش ہے کہ اسلامی شریعت کی رو سے تاریخ متعین کرنے کے لئے صرف فلکیاتی معلومات کافی نہیں بلکہ آنکھ کا مشاہدہ ضروری ہے ، کیونکہ سائنسی علوم سے چاند کی پیدائش اور اس کے قابل رویت ہونے یا نہ ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پیدائش کے بعد چاند نظر آنے کا امکان ہے یا امکان نہیں ہے ،واضح امکان کی صورت میں چاند نظر آ جاتا ہے اور اگر امکان نہ ہو تو چاند نظر نہیں آتا یہاں تک کہ خود ماہرین فلکیات کو بھی نظر نہیں آتا نہ ننگی آنکھ سے اور نہ جدید ترین دور بین سے، ایسی صورت میں نہ رمضان کا آغاز ہو سکتا ہے اور نہ عید ہو سکتی ہے کیوں ک دین رمضان اور شوال بالخصوص اور تمام مہینوں کی بالعموم تاریخوں کے تعین کے لئے چاند کو آنکھ کے ساتھ دیکھنے کا پابند کرتا ہے اگر چاند نظر آ جائے تو اسلام روزہ رکھنے اور عید کرنے کا حکم دیتا ہے اور نظر نہ آئے تو روزہ رکھنے اور عید کرنے سے نصوص صریحہ کے ساتھ روکتا ہے جن کا ذکر آگے آ رہا ہے ، ہمارے بعض احباب کی رائے یہ ہے کہ چاند کی پیدائش کو ہی “رویت ہلال ” سمجھا جائے اگرچہ چاند نظر نہ آئے کیونکہ رویت کا معنی “دیکھنا ” اور”جاننا” بھی ہے لہذا چاند کے پیدا ہونے کا علم بھی رویت بالعلم یا رؤیت بالحساب ہے اور جب آنکھ سے دیکھنا ضروری نہ ہوا تو ان کے نزدیک رویت اور امکان رویت کا تصور بھی ختم ہو گیا اور صرف رویت بالعلم یا رویت بالحساب ہی رہ گیا یعنی اگرچاند پیدا ہو جانے کا علم ہو جائے اور چاند نظر نہ آئے تو ان کے خیال میں پھر بھی رمضان اور عید ہو سکتے ہیں ، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب ہم ” رویت ہلال” کہتے ہیں تو تین تصورات ہمارے سامنے اتے ہیں

1- رویت 2 – ہلال 3 – رویت ہلال

رویت، کے لغت عرب میں کئی معانی ہیں جن میں آنکھ سے دیکھنا ، جاننا ، رائے دینا اور دیگر متعدد
معانی ہیں جنکا استعمال قرآن و سنت میں بھی ملتا ہے ، اسی طرح “ہلال” کے بھی متعدد معانی
عربی لغات میں ملتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں: پہلی تاریخ کا چاند ، پہلی بارش ، کنویں کی تیہ میں باقی رہ جانے والا تھوڑا سا پانی اور یکبارگی بارش ، عربی نثر اور شاعری میں یہ سب معانی استعمال ہوتے ہیں ، اور تیسرا تصور وہ ہے جو ان دونوں الفاظ کی ترکیب سے وجود میں آتا ہے اور وہ ہے ” رویت ہلال ” مذکورہ الفاظ کو ملانے سے جو شکل ہمارے سامنے آتی ہے اس کا معنی عربی لغات میں صرف آنکھ سے چاند کو دیکھنا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا معنی نہیں ہے لسان العرب ، المعجم الوسیط ، المعجم المحیط الرائد اور دیگر کتب لغت میں یہی معنی ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ” راى الهلال اى ابصره بالعين ” اس نے چاند دیکھا تو اس کا یہی معنی ہے کہ اس نے چاند کو آنکھ سے دیکھا ہے ، کسی بھی قدیم و جدید مستند لغت میں” رویت ہلال” کا معنی رویت بالعلم یا رویت بالحساب نہیں ہے اس کا معنی رویت بالعین یعنی آنکھ سے چاند کو دیکھنا ہے ، اور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی کم و بیش بیس احادیث مبارکہ میری نظر سے گزری ہیں جو صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث میں ہیں صحیح احادیث ہیں اور مختلف اسانید کے ساتھ روایت کی گئی ہیں، ان سب میں یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا معنی آنکھ سے چاند کو دیکھنا ہے ، صحیح بخاری حدیث نمبر 1907میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی روایت کے آخری الفاظ ” فلا تصوموا حتى تروه فان غم عليكم فاكملوا العدة ثلاثين ” جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو، پس اگر بادل ہوں تو 30 کی گنتی پوری کرو ،
یعنی 29 شعبان کو چاند دیکھا جائے اگر نظر آ جائے تو روزہ رکھیں اور یہ مہینہ 29 دن کا ہو گا، اگر چاند نظر نہ آئے تو روزہ نہ رکھو اور مہینہ 30 دن کا ہو گا، 29 تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو اس کے بعد رویت کا حکم نہیں بلکہ مہینے کے 30 دن پورے کرنے کا حکم ہے. صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت جس کو حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کیا ہے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں” فان غبی علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلاثین” اگر چاند مستور ہو جائے تو شعبان کے 30 دن پورے کرو ” صحیح بخاری حدیث نمبر 1909، اسی طرح صحیح مسلم حدیث نمبر2498، ” فان اغمى عليكم فاقدروا له ” صحيح مسلم حديث نمبر 2503 میں ہے ” فان غم علیکم فاقدروا ” صحیح مسلم حدیث نمبر 2514 میں یہ الفاظ ہیں ” فان غم علیکم فصوموا ثلاثین یوما ” صحیح مسلم حدیث نمبر 2515 میں ہے ” فان غمى عليكم فاكملوا العدة ” ان تمام مختلف الفاظ کا معنی تقریبا ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر 29 تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے 30 دن پورے کرکے بعد میں روزہ رکھو یا رمضان کے 30 دن پورے کر کے عید کرو ، جامع ترمذی کی حدیث نمبر 688 ” لا تصوموا قبل رمضان، صوموا لرؤيته و افطروا لرؤيته ” رمضان سے پہلے روزہ نہ رکھو ، چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار ( عید ) کرو ، اس حدیث میں تو صریح الفاظ میں چاند دیکھے بغیر روزہ رکھنے اور عید کرنے سے منع کیا گیا ہے اور چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر عید کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، سنن نسائی کی حدیث نمبر 2131، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت ہے ” صوموا لرؤيته و افطروا لرؤيته فان حال بينكم و بينه سحاب فاكملوا العدة ” چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ افطار کرو پس اگر تمہارے اور چاند کے درمیان بادل حائل ہو جائیں تو پھر گنتی پوری کرو ، اس حدیث مبارک کا اسلوب بیان بات کو بالکل واضح کرتا ہے کہ اگر ایک طرف چاند ہو اور دوسری طرف تم ہو اور درمیان میں بادل حائل ہو جائیں تو گنتی پوری کرو یعنی 30 دن پورے کرو ، سنن نسائی کی حدیث نمبر 2191 میں ” سحابة او ظلمة ” کے الفاظ آئے ہیں کہ اگر تمہارے اور چاند کے درمیان بادل کا ٹکڑا یا سیاہی حائل ہو جائے تو شعبان کے 30 دن پورے کرو، یہ نبیء اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی معجزانہ شان ہے کہ آپ کو اللہ کریم نے مستقبل کے ان ادوار سے بھی اگاہ کیا ہے جب لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی سے معلوم کر سکیں گے کہ بادل کی دوسری سائیڈ پر چاند ہے یا بن بادل کے بھی مطلع پر چاند ہے , اور مستور ہونے کے باعث نظر نہیں آتا یا بن بادل کے قابل رویت نہ ہونے کے باعث نظر نہیں آ سکتا تو آپ نے صرف چاند کے موجود ہونے کے علم کی بنا پر روزہ رکھنے سے منع فرما دیا اور مہینے کے تیس دن پورے کرنے کا حکم دیا اور روزہ اور عید کو چاند نظر آنے کی شہادت کے ساتھ مشروط کر دیا ، اور اگرچاند نظر آنے کی کوئی مستند شہادت نہ ہو تو روزہ نہیں رکھا جائے گا یا عید نہیں کی جائے گی اسی پر بعد میں صحابہ کرام کا عمل رہا ہے جس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جو صحیح مسلم حدیث نمبر 2528 اور سنن نسائی حدیث نمبر 2113 میں ہے کہ اہل شام نے چاند دیکھ لیا اور روزہ رکھا مگر اہل مدینہ کو چاند نظر نہیں آیا ان کے ہاس کوئی شہادت نہیں تھی اس لئے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما اور دیگر تمام اہل مدینہ نے روزہ نہیں رکھا ….. ایک اور رائے بھی سامنے آئی ہے کہ “جس طرح ہم اپنی نمازوں کے لئے سورج کا طلوع و غروب دیکھنے کے پابند نہیں اسی طرح قمری مہینوں کی تعیین کے لئے بھی رویت ہلال کے پابند نہیں ہیں ” ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی توجہ ان اسلامی احکام کی طرف مبذول کراتے ہیں جو مندرجہ بالا سطور میں مذکور ہیں کہ اسلام قمری مہینوں کی تعیین بالخصوص رمضان اور شوال کی کی تایخوں کی تعیین کے لئے ہمیں آنکھ سے چاند کے مشاہدہ کا پابند کرتا ہے اگر آپ پابند نہیں ہونا چاہتے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ، آپ اس مسئلے کو نمازوں کے اوقات پر قیاس کرتے ہیں جبکہ قیاس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جہاں نصوص ہوں وہاں قیاس ممنوع ہے ، اور ایک بار پھرغور کر لیں کہ نمازو کے اوقات کی تعیین کے لئے اسلام کسی ایک طریقے کا پابند نہیں کرتا ، کوئی سورج کے طلوع و غروب کو آنکھ سے دیکھے یا چیزوں کے سائے سے ان کو متعین کرے یا کوئی گھڑی پر اعتماد کرے مقصد یہ ہے کہ نماز وقت پر ادا ہونی چاہیئیں اس کے اوقات کی تعیین کے لئے پیمانہ کوئی بھی ہو سکتا ہے مگر روزہ رکھنے اور اور عید کرنے کے لئے رویت ہلال کی پابندی ہے
اس کے علاوہ منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے قمری کیلینڈر جاری کیا ہے اور بڑی محنت سے تیار کیا ہے ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ سائنسی تحقیقات و اکتشافات سے دنیا پر اسلام کی حقانیت اور زیادہ واضح ہو رہی ہے اور لوگ تیزی سے مسلمان ہو رہے ہیں صرف یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کیلینڈر سے چاند کو دیکھنے میں مدد مل سکتی ہے چاند کی پیدائش کا علم اور اینگل کی نشاندہی ہو سکتی ہے اور رویت ہلال کے لئے بطور معاون یہ قابل قبول بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر چاند نظر نہ آئے تو قمری کیلینڈر کی بنیاد پر رمضان اور شوال کی تاریخوں کا تعین نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے اس شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے جس میں مذکورہ تاریخیں متعین کرنے کے لئے چاند کو آنکھ سے دہکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے
نوٹ : تمام اہل علم سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کو خالص علمی انداز سے دیکھیں، اور تند و تلخ اور ترش باتوں سے پرہیز کریں ، اس وقت ملکی فضا اس کی متحمل نہیں ہے ۔ اسلامی نطریاتی کونسل کے چئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کا بیان اس حوالے سے قابل تعریف ہے انہوں نے بھی اسلامی شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عید اور رمضان کی تاریخوں کے تعین کے لئے آنکھ کا مشاہدہ ضروری ہے