Molvi fazal ur rehman dharna 594

دھرنا اور مذاکرات جاری ہیں. حیدر جاوید سید

دھرنا اور مذاکرات جاری ہیں

حیدر جاوید سید

جاڑے کی بڑھتی ہوئی شدت اور موسلا دھار بارشوں کے باوجود آزادی مارچ دھرنا جاری ہے۔ دھاندلی کمیشن کے قیام کی تجویز مولانا فضل الرحمن اور رہبر کمیٹی مسترد کرچکے۔ فریقین اپنے اپنے کوچہ میں ڈٹ کر بیٹھے ہیں۔

حکومتی کمیٹی کے ایک رکن اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی پُر اُمید ہیں کہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔
ادھر ایک دن میں 8صدارتی آرڈیننس جاری کروانے والی حکومت نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں 6منٹ فی آرڈیننس کے حساب سے ایک گھنٹے میں 9آرڈیننسوں کو قانونی شکل دلوا دی۔ اس برق رفتار قانون سازی پر کوئی بحث ہوئی نا سوال بس منظور ہے کی آواز آئی اور منظور ہے کاجواب۔
ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے ایک بار پھر کہا
” پیسہ قانونی طریقہ سے باہر گیا اور اب بھی جا رہا ہے اس رقم سے جائیدادیں خریدی گئیں’ 325 کیسوں میں کسی سیاستدان کا نام نہیں ہے”۔
قومی اسمبلی کے جس اجلاس میں ایک گھنٹے میں 9آرڈیننس قانون بنے اس کی صدارت عدالتی سٹے پر بحال ڈپٹی سپیکر کر رہے تھے۔ بہتر ہوتا اس اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر خود کرتے
اپوزیشن اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ نے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
جمعرات کے دن کی تازہ بہ تازہ خبر یہ ہے کہ
ریاست کے ایک محکمے کے دو ذمہ دار افراد نے نیب کے قیدی سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی نصف گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کاایک نکاتی ایجنڈا تھا
” زر داری صاحب مولانا فضل الرحمن کو دھرنا ختم کرنے کے لئے کہیں”۔ قیدی نے پوچھا دو باتیں ہیں اولاً یہ کہ میں قیدی ہوں اور قیدی کیا کرسکتا ہے۔ دوسری یہ کہ چلیں میں یہ مشورہ دے بھی دوں تو آپ کے پاس مولانا کو دینے کے لئے کیا ہے؟”۔
اس جواب پر ملاقات ختم ہوگئی۔
آزادی مارچ دھرنے والے کہتے ہیں’ وزیر اعظم کے استعفے اور فوری نئے انتخابات کے مطالبے سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔
غیر رسمی طور پر الیکٹرانک میڈیا سے کہا گیا ہے کہ دھرنے کی زیادہ کوریج نہ کی جائے۔ دھرنے والے علاقے میں 5کلو میٹر کے ایریا میں انٹر نیٹ کی سہولت کو جام کردیاگیا ہے۔

مولانا کہتے ہیں بے مقصد مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی دوران الیکشن کمیشن میں پانچ سال سے زیر سماعت تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا ہے ادھر مولانا نے آزادی مارچ کے سٹیج سے سوال کیا کہ تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کو پانچ سال سے “کھیل” کیوں رہی ہے؟۔
سچ یہ ہے کہ حالات ویسے اچھے بھلے اور مثالی نہیں جیسا کہ تاثر دیا جارہا ہے۔
وزیراعظم نے گو اگلے روز کہا ہے کہ
“دھرنے کا معاملہ جلد طے ہو جائے گا”
مگر یہ طے ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ آزادی مارچ دھرنا اتوار 10نومبر کے بعد نیا رخ اختیار کرسکتاہے۔
رہبر کمیٹی میں فوری طور پر دو تجاویز زیر غور ہیں اولاً دھرنا اپنی جگہ موجود رہے اور ملک بھر میں فوری احتجاج کی کال دے دی جائے ثانیاً دھرنے کامقام تبدیل کردیا جائے۔

اپوزیشن ان دو میں سے کس تجویز کی منظوری دیتی ہے یہ تو ان کا معاملہ ہے فی الوقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس دھرنے والوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔
سیاست کی اس گرما گرمی کے دوران 9نومبر کو کرتارپور راہداری کھلنے جا رہی ہے کشمیر میں جو بھارت امن’ انسانیت اور مسلمانوں کا دشمن نمبر ایک ہے کرتار پور راہداری کے حوالے سے اس سے مذاکرات ہوئے اور معاملات آگے بڑھے۔ سیاسی حلقوں کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں حکومت کی اس پالیسی پر سوالات اٹھ رہے ہیں

سنجیدہ سوالوں کا جواب شیخ رشید حسب معمول بھانڈوں کے انداز میں دے رہے ہیں۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ ایک سال کے لئے بھارتی سکھ یاتریوں کے کرتار پور راہداری پر پاسپورٹ کی شرط ختم کیوں کی گئی۔ ملکی اور عالمی قوانین کو نظر انداز کیوں کیا جا رہاہے؟
اسی دوران ایک وفاقی وزیر چودھری غلام سرور نے نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کو ڈیل قرار دے کر عدالتی نظام پر سوال اٹھا دیا ہے۔
تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے وزیر کے اس موقف کی وضاحت کرے تاکہ عوام حقیقت جان سکیں۔
وزیر اعظم نے اگلے روز ایک بار پھر پنجاب حکومت او دیگر حکام پر زور دیا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دیں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کوئی فرد بھوکا نہ سوئے۔
سادہ سا سوال یہ ہے کہ مہنگائی کم کیسے ہوگی؟
کیا بجلی’ گیس’ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں گی؟ 15سے 19فیصد قیمتیں بڑھانے کی آڑ میں 100 فیصد قیمتیں بڑھنے والے ادویہ ساز اداروں پر گرفت ممکن ہے؟ آسان جواب ہے کہ جی نہیں۔
آئیے ایک بار پھر آزادی مارچ کا رخ کرتے ہیں چودھری پرویز الٰہی کہہ رہے ہیں کہ جلد خوشخبری سنائیں گے۔ آپ اس بیان کو جی بہلانے کا سامان سمجھ لیجئے۔ وزیر اعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات بظاہر یہ دونوں ممکن نہیں۔
یہی ڈیڈ لاک کی وجہ ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ چند وزراء اور بعض سرکاری محکموں کے سربراہان آزادی مارچ کے آغاز سے تواتر کے ساتھ یہ فرما رہے ہیں کہ دھرنے سے مسئلہ کشمیر پس پشت چلا گیا۔ کیا ان نا بغوں سے بہت احترام کے ساتھ یہ دریافت کیاجاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بہتے خون کو نظر انداز کرکے کرتار پور راہداری کھولنے سے مسئلہ کشمیر کو عالمی طور پر کیا پذیرائی ملی؟۔
حرف آخر یہ ہے کہ احتجاج’ دھرنا دونوں مولانا فضل الرحمن کا جمہوری حق ہیں ان سے دست بدستہ درخواست یہ ہے کہ وہ اپنی تقاریر میں مذہبی کارڈ نہ کھیلیں تاکہ ملک میں کوئی نیا تنازعہ جنم نہ لے سکے۔

ہفتہ 9 نومبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور