94

دوغلا پن ارشاد احمد عارف2

دوغلا پن ارشاد احمد عارف
بھارت کی پوسٹنگ کے دوران کچھ افسوس واقعات بھی پیش آئے جن کو یاد کر کے آج بھی دل خراب ہوتا ہے۔ان میں نئی دہلی کے تاج ہوٹل میں 2006ء کی ایک شام ایک بھارتی اخبار کا سیمینار آج بھی یاد آتا ہے۔جس میں پوری دنیا سے چیدہ چیدہ سیاسی رہنما بلائے گئے تھے۔برطانیہ سے سابق وزیر اعظم جان میجر ‘ اردن سے ملکہ نور اور پاکستان سے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور عمران خان تھے۔سیمینار سے کچھ دن پہلے پاکستان ہائی کمیشن کے لوگ یہ دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے کہ ایئر پورٹ سے آنے والی سڑک پر الطاف حسین کی بڑی بڑی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔کسی پاکستانی کی بھارت میں اس طرح کی پذیرائی غالباً پہلی اور آخری دفعہ کی گئی تھی۔کسی بھارتی اخبار میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ کسی پاکستانی کی تصاویر یوں لگوائے۔میں نے جب اس معاملہ کو پریس کلب آف انڈیا میں اپنے دوستوں سے چھیڑا تو انہوں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں بتایا کہ آپ جانتے ہی ہیں۔بھارت میں کونسی طاقت یہ کر سکتی ہے ان کا اشارہ خاص طور پر بھارت کی خفیہ ایجنسی را(RAW)کی طرف تھا۔ سیمینار والے دن ہم ایمبیسی کے کچھ افسران بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ ایم کیو ایم کے سربراہ کیا فرماتے ہیں۔الطاف حسین سے پہلے عمران خان نے بہت اچھی تقریر کی لیکن جب الطاف حسین سٹیج پر آئے تو ان کے الفاظ سن کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جائوں۔دشمن ملک میں کسی پاکستان کا وہ انداز مجھے آج تک نہیں بھولا۔الطاف حسین نے سٹیج پر آتے ہی کہا‘ ’’میں جب دہلی ایئر پورٹ پر اترا تو میں نے دائیں دیکھا میں نے بائیں دیکھا میں نے اوپر دیکھا میں نے نیچے دیکھا تو مجھے سب کچھ اپنا اپنا سا لگا۔ اس کے بعد الطاف حسین نے ایک پرچی نکالی جو غالباً اس کے میزبانوں نے اسے دی تھی اور وہ انگریزی میں اس نے پڑھا۔ Creation of Pakistan was the biggest blunder of the history اس کے بعد انہوں نے پھر اپنی اردو میں تقریر جاری رکھی اور کہا کہ ہماری ایم کیو ایم کی حالت تو قیام پاکستان کے بعد وہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔دہلی والو! ہمیں پاکستان میں مہاجر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اب اگر ہمیں یہ طعنہ دیا گیا تو ہم آپ سے پناہ مانگیں گے۔بولو پناہ دو گے؟ ‘‘ ہال میں سے جواب نہیں آیا تو پھر پوچھا دہلی والو ہمیں پناہ دوں گے! پھر بھی جواب نہیں آیا تو تیسری دفعہ پوچھا بولو دہلی والو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں واپس بھارت میں پناہ دو گے؟ اس بار جواب نہیں آیا تو الطاف حسین نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور شرمندگی کے عالم میں کہا ‘ ’’شاید میں نے کوئی غلط سوال کر دیا ہے ‘‘الطاف حسین کے یہ الفاظ سننے کے بعد مجھ میں اس کی لایعنی گفتگو سننے کی مزید ہمت نہ رہی لیکن پھر بھی میں وہاں موجود رہا اور پاکستان گورنمنٹ کو اس کی تقریر کی پوری رپورٹنگ کی اور میڈیا کو بھی خبر کی صورت میں فراہم کی جو یہاں پر نوائے وقت کے ساتھ ساتھ سب اخباروں نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی۔بعد میں میں نے اپنے کالموں میں بھی اس افسوسناک واقعہ کا ذکر کیا۔ابھی ہم اس تقریر حملہ‘ سے سنبھل نہ پائے تھے کہ پاکستان سے جنرل پرویز مشرف کا ٹیلیفون پاکستان کے ہائی کمشنر جناب عزیز احمد خان کو موصول ہوا جس میں حکم دیا گیا کہ ایم کیو ایم کے وفد کی خصوصی آئو بھگت کی جائے۔یوں سفیر صاحب نے فوراً وفد کے اعزاز میں رات کے کھانے کا انتظام کیا جس میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے قائدین دو گھنٹے تاخیر سے تشریف لائے۔ میں سمجھتا تھا اور مجھے بتایا گیا تھا کہ میرے والد رائے محمد اشرف اس علاقے کے پہلے گریجوایٹ اور پہلے افسر تھے جنہوں نے 1940ء میں بی اے کیا تھا۔ملک غلام علی نے کہا کہ نہیں ‘تمہارے والد صاحب سے پہلے 1936ء میں ہمارے ایک لڑکے نے بی اے کیا تھا۔اس وقت میرے والد ملک منظور علی کے شاہ جیونہ والوں سے اچھے تعلقات تھے۔وہ اس وقت کے ممبر قانون ساز اسمبلی آف انڈیا میجر مبارک(اعزازی میجر جسے جنگ عظیم میں بندے بھرتی کروانے پر انگریز حکومت نے یہ خطاب دیا تھا) کے پاس اس لڑکے کو لے کر گئے اور عرض کی کہ ’’شاہ صاحب ہمارے ایک لڑکے نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے‘ آپ مہربانی کر کے اسے ساتھ لاہور لے جائیں اور کہیں ملازم کرا دیں‘‘۔ یہ سن کر وہ لڑکا اور اس کے دوسرے رشتہ دار خوش ہو گئے اور واپس گائوں چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد میجر مبارک نے ملک منظور کو کہا کہ یار تم تو بڑے بیوقوف ہو‘ میرے والد پریشان ہو گئے کہنے لگے شاہ صاحب کیوں‘ کیا غلطی ہوئی ہے مجھ سے؟ میجر مبارک نے کہا کہ تم ان جٹوں کو لاہور ملازم کرانا چاہتے ہو‘ اگر یہ ملازم ہو کر آگے بڑھ گئے تو کل کو تمہارے اور میرے کھیتوں پر کون کام کرے گا۔میرے والد میجر مبارک کی یہ سوچ دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے اور دیر تک غمزدہ رہے کہ یہ سیاست دان ہمیں ہر طرح سے پسماندہ اور غلام رکھتے ہیں۔ رائے ریاض حسین میر ظفر اللہ جمالی کے دو کارناموں کا ذکر کرتے ہیں جس کی توقع ایک ڈھیلے ڈھالے اور روائتی قبائلی سیاستدان سے نہیں کی جا سکتی۔ ’’فرید جمالی صاحب کی انگلینڈ میں جگر کی پیوند کاری(Liver Tarnsplant) ہوئی تھی۔ انہیں ان کے بھائی عمر جمالی کا آدھا جگر لگایا گیا تھا۔وہ اکثر کراچی رہتے تھے۔پرویز مشرف نے جمالی صاحب کو فرید جمالی کی شکایت کی کہ وہ کراچی میں کرپشن کرتے ہیں جس پر جمالی صاحب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے پرویز مشرف کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ میرا بیٹا خود سیاست میں ہے‘ ایم این اے بھی ہے تو لوگوں سے رابطہ تو کرے گا آپ سیاسی سرگرمی کو کرپشن کا نام نہیں دے سکتے۔پرویز مشرف سے اس کے بعد جمالی صاحب کے تعلقات خراب ہونے لگے خاص طور پر روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت اور ڈاکٹر اے کیو خان کی امریکہ حوالگی کی وجہ سے تعلقات بہت خراب ہوئے مگر سب سے دلچسپ تجویز گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین نے دی کہ کرنسی نوٹوں پر قائد اعظم کے ساتھ جنرل مشرف کی تصویر بھی چھاپی جائے جسے جمالی صاحب نے یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ بابائے قوم کے ساتھ کسی کی تصویر نہیں چھاپی جا سکتی۔روز ویلٹ ہوٹل کا معاملہ زیادہ خطرناک تھا۔پرویز مشرف کا بیٹا بلال مشرف جو امریکہ میں قیام پذیر تھا اس نے روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت کے لئے کسی مالدار پارٹی کو تیار کیا اور اس نے مبینہ طور پر بھاری کمیشن بھی طے کر لیا مگر جب بات وزیر اعظم تک پہنچی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور اس طرح ملک کا ایک عظیم سرمایہ پرویز مشرف کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچ گیا۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں