mazhar-barlas articles 291

درس گاہ سے پیار کرنے والوں کی آرزو

انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی چند جدید تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ 1550کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں تعلیمی ادارے سب سے زیادہ تھے۔ ایک سو فارسی، چھتیس عربی، چوالیس عربی مشترکہ اور اڑتیس شاستری اسکول کام کر رہے تھے۔ انگریزوں نے فارسی اور عربی کی چھٹی کراتے ہوئے سرکاری زبان انگریزی کے ساتھ مرکزی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم قرار دیا۔ لارڈ لارنس کی رپورٹ پر ابتدائی تعلیم اردو جبکہ بعض مڈل اسکولوں میں انگریزی کو اختیاری مضمون بنایا گیا۔ 1857میں بک اینڈ ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا یوں اردو سے انگریزی کا زمانہ شروع ہو گیا۔

مغل دور کےتعلیمی مرکز لاہور میں انگریزوں نے بیک وقت گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج قائم کئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کا شعبہ قائم کرکے الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے کردیا گیا۔ کشش پیدا کرنے کے لئے سول سروس کا امتحان انگریزی میں کیا گیا، انگریزوں نے تعلیمی نظام کے ذریعے اپنے سیاسی نظام کو تقویت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تو جاگیردار طبقے کے لئےایچی سن کالج بنایا۔ لڑکیوں کے لئے کوئین میری کالج اور پھر 1913میں کنیئرڈ کالج بھی قائم کردیا۔ 1860سے کام کرنے والے لاہور میڈیکل کالج کو 1911میں کنگ ایڈورڈ کالج کا نام دے دیا گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ابتدائی 30برسوں تک صرف آرٹس کے مضامین پڑھائے جاتے تھے، پہلے پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر تھے جو کنگز کالج لندن میں عربی اور اسلامی قانون پڑھاتے تھے۔ اس عظیم درس گاہ میں پورے برصغیر سے ذہین ترین طالب علم داخلہ لے کر فخر محسوس کرتے تھے۔ 1864میں بننے والے گورنمنٹ کالج لاہور کو حویلی دھیان سنگھ کے بعد انار کلی کے قریب ایک بنگلے میں منتقل کیا گیا پھر چند برسوں بعد موجودہ عمارت میں شفٹ کر دیا گیا۔

انگریز پرنسپلز کا زمانہ گزرا تو پروفیسر جی ڈی سوندھی کو گورنمنٹ کالج لاہور کا پہلا ہندوستانی پرنسپل بنایا گیا۔ راوینز گورنمنٹ کالج لاہور کے میناروں سے عشق کرتے تھے اور بقول اشفاق احمد …’’گورنمنٹ کالج درس گاہ نہیں بلکہ درگاہ ہے…‘‘ ٹاور، اوول گرائونڈ، بخاری آڈیٹوریم، اوپن ایئر تھیٹر، لَو گارڈن حتیٰ کہ سیڑھیاں سب کچھ رومانوی ہے۔ اس ماحول میں کبھی اقبالؒ اور فیضؔ کے اشعار گونجتے ہیں، کبھی ساحر لدھیانوی اور ناصر کاظمی کی شاعری، کبھی کشور ناہید کا جاگتا لہجہ اور کبھی صوفی تبسم کی نظمیں یاد آتی ہیں۔ کبھی اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی جوڑی، تو کبھی محمد حسین آزاد اور قدرت اللہ شہاب یاد آ جاتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے راوینز وزرائے اعظم اندر کمار گجرال، ظفر اللہ جمالی، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی، تو کبھی نوبل انعام پانے والے ڈاکٹر ہرگوبندکھرانہ اور ڈاکٹر عبدالسلام یاد آتے ہیں۔ کالج میں پھرتے پھرتے کبھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند، کبھی جنرل راحیل شریف، کبھی مولانا طارق جمیل اور کبھی دیوآنند جیسا اداکار یاد آ جاتا ہے۔ وکالت سے وابستہ ایس ایم ظفر، اعتزاز احسن، کئی اور وکلا بہت سے ججز، کئی چیف جسٹس یاد آ جاتے ہیں۔ سرگنگا رام کی سماجی خدمات یاد آ جاتی ہیں۔

زندگی کے ہر شعبہ میں بے شمار نامور شخصیات پیدا کرنے والے گورنمنٹ کالج لاہور میں پطرس بخاری، ڈاکٹر سید نذیر احمد اور پروفیسر اشفاق علی خان جیسے لوگ پرنسپل رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ رقم کر رہا ہوں۔ ایوب خان کے آمرانہ دور میں سخت گیر گورنر ملک امیر محمد خان نے داخلے کے لئے ایک غیرمستحق طالب علم کی سفارش کی۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر احمد نے سفارش کو میرٹ کے روبرو پرکھا اور پھر سفارش کو نظرانداز کردیا۔ انہیں سزا کے طور پر ٹرانسفر کیا گیا تو کالج کے طالب علم سڑکوں پر آگئے۔ وہ نعرے لگاتے کہ …’’ ہمارا باپ واپس لائو…‘‘ آمرانہ حکومت کو اپنی سخت گیری سمیت گھٹنے ٹیکنے پڑے، ڈاکٹر نذیر احمد کا تبادلہ دوبارہ گورنمنٹ کالج کردیا گیا، اس مرحلے پر طالب علموں نے والہانہ محبت دکھائی، وہ ڈاکٹر نذیر احمد کو کندھوں پر بٹھا کر واپس لائے مگر آج کے عہد میں محبت کا یہ عالم کہاں؟ہم من حیث القوم تنزلیوں کا شکار ہیں، تعلیمی بربادیاں سامنے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی یہ اثرات کسی نہ کسی صورت سامنے آئے۔ راوینز کے دل دکھے تو وہ نوحہ گری پر اترآئے۔ یادیں انہیں ڈستی ہیں۔ 2002میں گورنمنٹ کالج لاہور کو یونیورسٹی کا درجہ دے کران سے وہ نام چھین لیا گیا جس سے راوینز کو عشق ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور راوینزکے دلوں کو آباد رکھتا ہے، وہ بھی اس سلسلے کو ٹوٹنے نہیں دیتے، انہوں نے اس مقصد کے لئے اولڈ راوینز یونین بنا رکھی ہے۔ اس یونین کا الیکشن اس مرتبہ ویلنٹائن ڈے پر ہوا۔اسپیشل برانچ نے کام دکھایا، ایک ڈاکٹری نسخہ بھی کام آیا، دھونس اور دھاندلی نے اس الیکشن کو ’’ڈسکہ الیکشن‘‘ بناکر رکھ دیا۔ زور زبردستی اور دھاندلی کے خلاف رانا اسد اللہ، ساجد گورایہ اور اسد گوندل چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) احمد فاروق شیخ کے پاس گئے، اچھی شہرت کے حامل جج نے ثبوت مانگے تو ایک اور راوین چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب محبوب قادر شاہ نے ثبوتوں کا انبوہ کثیر لگا دیا۔ جسٹس احمد فاروق شیخ نے نتائج روک دیے اور حکم جاری کیا کہ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا حلف برداری نہیں ہوگی۔ اس اسٹے آرڈر کے باوجود اسپیشل برانچ نے کالج انتظامیہ کی مدد سے حلف برداری کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی آئی جی پنجاب انعام غنی تھے، راوین ہونے کی وجہ سے وہ اس دھبے کا حصہ نہ بنے۔ اسپیشل برانچ کے زیر اثر چند پروفیسرز نے چیف الیکشن کمشنر کو خطوط بھی لکھے مگر راوین جسٹس احمد فاروق شیخ اڑگئے کہ …’’ میں اپنے کالج کی روایات پر حرف نہیں آنے دوں گا…‘‘ انہوں نے بارہ اپریل کو فیصلہ سنانا تھا مگر دھونس دھاندلی والوں نے اتوار گیارہ اپریل چھٹی کے دن گورنر ہائوس میں اپنی حلف برداری کروا لی۔ یقیناً گورنر پنجاب کو چیف الیکشن کمشنر کے فیصلوں سے بےخبر رکھا گیا ہوگا۔ خیر اس غیرقانونی اور غیراخلاقی حلف برداری کے باوجود بارہ اپریل کو جسٹس احمد فاروق شیخ کی طرف سے فیصلہ آیا۔ انہوں نے الیکشن کالعدم قرار دے کر وی سی کو نئے انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ تمام راوینز کی طرف سے اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ اولڈ راوین ارشد اولکھ سیاستدان ہی نہیں، سیاسی دانشور بھی ہیں، وہ کہتے ہیں …’’اگر راوینز نے دھونس دھاندلی قبول کرلی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے گورنمنٹ کالج کی عظمت کا داغدار ہونا قبول کر لیا، پورے معاشرے میں راوینز ہی تو ہیں جو کرپٹ مافیاز کے سامنے دیوار کھڑی کر سکتے ہیں…‘‘ تمام راوینز کی یہی آرزو ہے کہ ان کی عظیم درس گاہ کی شاندار روایات قائم رہیں، ان کی درس گاہ کا نام یعنی گورنمنٹ کالج لاہوربحال ہو جائے، اسی طرح اولڈ راوینز یونین کے شفاف الیکشن ہو جائیں، راوین علامہ اقبالؒ کا شعر اچھی طرح یاد رکھیے کہ:

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو