488

حکمرانوں کا کردار. ڈاکٹرعبدالقدیر خان

ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جو کرسی پر بیٹھا وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے اور کوئی اچھا مشورہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس موضوع پر چند معروضات پیش کرتا ہوں۔

’’میں نے کسی بادشاہ (حکمراں) کے بارے میں سنا کہ اس نے کسی قیدی کو جان سے مار ڈالنے کا حکم دیا۔ اس بیچارے قیدی نے مایوسی کے عالم میں بادشاہ کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ دانائوں کا قول ہے کہ جو کوئی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے جو کچھ اس کے منہ میں آتا ہے وہ کہہ ڈالتا ہے۔

ترجمہ: جب لڑائی میں بھاگنے کا موقع نہ رہے تو اس وقت ہاتھ تیز تلوار کی نوک تک کو پکڑ لیتا ہے۔ نوک پکڑنے سے ہاتھ کٹ جاتا ہے۔ (اس سے سعدیؒ کی مراد یہ ہے کہ جب انسان کو ہر طرح سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مارا جائے گا تو وہ اپنی جان بچانے کیلئے آخری دائو کے طور پرمشکل سے مشکل کام بھی کر گزرتا ہے) جب انسان مایوس ہو جاتا ہے تو اس کی زبان دراز ہوجاتی ہے (یعنی جو کچھ اس کے منہ میں آتا ہے وہ کہہ ڈالتا ہے) جس طرح ایک مغلوب بلی کتے پر حملہ کر دیتی ہے۔

بادشاہ نے پوچھا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ ایک نیک فطرت وزیر بولا ’’عالم پناہ! یہ کہہ رہا ہے کہ جو غصے کے پینے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں، (خدا ایسے نیک بندوں کو محبوب رکھتا ہے)۔ وزیر کی یہ بات سن کر بادشاہ کو اس قیدی پر رحم آگیا اور اُس نے اس قیدی کی جان بخشی کر دی۔ ایک دوسرے وزیر سے جو پہلے وزیر کا مخالف تھا، نہ رہا گیا۔ وہ بولا ’’ہمارے ایسے مرتبہ لوگوں کے یہ شایاں نہیں ہے کہ وہ بادشاہوں کے حضور میں سچی بات کے علاوہ کوئی اور بات کہیں۔ اس قیدی نے تو بادشاہ سلامت کو گالیاں دی ہیں اور برا بھلا کہا ہے۔ بادشاہ کو اِس وزیر کی بات پر غصہ آگیا، چنانچہ (غصے کے عالم میں اُس وزیر سے) کہنے لگا ’’مجھے اس (پہلے وزیر) کا جھوٹ زیادہ پسند آیا بہ نسبت تیرے اس سچ کے؛ اس لیے کہ اس جھوٹ کی بنیاد کسی مصلحت پر تھی اور تیرے اس سچ میں خباثت پوشیدہ ہے، جبکہ عقلمندوں کا کہنا ہے کہ ایسا جھوٹ جس کی کوئی مصلحت ہو اس سچ سے زیادہ بہتر ہے جس سے فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ ایسا شخص جس کی بات بادشاہ (حکمراں) مانتا ہو اور جو کچھ وہ کہتا ہے وہی کچھ کرتا ہو، اگر اچھی بات کے علاوہ کوئی اور بات (یعنی بری بات) کہے تو یہ افسوس کی بات ہوگی۔

فریدون بادشاہ کے محل کے طاق (محراب) پر لکھا ہوا تھا: اے بھائی! یہ دنیا کسی کی نہیں رہتی، اس لیے تو دل خالقِ کائنات سے لگا اور باقی سب سے دل اٹھا لے۔ اس دنیا کی سلطنت پر کسی طرح بھی بھروسہ نہ کر کہ اس نے تجھ جیسے کئی لوگوں کی پرورش کی اور پھر انہیں مار ڈالا۔ مراد یہ کہ یہ دنیا فانی ہے، ہر شخص کو خواہ وہ کتنے ہی مرتبے کا مالک کیوں نہ ہو، یہاں سے آخر کوچ کرنا ہے۔ اس لیے اُس سے کیا دل لگانا۔

خراساں کے کسی بادشاہ نے سبکتگین کے بیٹے محمود (غزنوی) کو خواب میں کچھ اِس حالت میں دیکھا کہ اُس کا تمام جسم بکھرا ہوا اور مٹی بنا ہوا تھا؛ البتہ اُس کی آنکھیں اُسی طرح آنکھوں کے حلقوں میں گھوم رہی اور دیکھ رہی تھیں۔ (باشاہ نے اس خواب کی تعبیر جاننا چاہی لیکن) تمام دانا اس کی تعبیر بتانے سے قاصر رہے، البتہ ایک درویش اس خواب کی تعبیر کو سمجھ گیا۔ اُس نے کہا (محمود بڑی حسرت سے) ابھی تک یہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی سلطنت دوسروں کے قبضے میں ہے۔ اشعار کا ترجمہ:

بڑے بڑے نامور لوگ زمین میں دفن کیے جا چکے ہیں، لیکن آج رُوئے زمین پر ان کی ہستی کا معمولی سا بھی نشان باقی نہیں ہے۔

اور وہ بوڑھی لاش، جسے زمین کے سپرد (یعنی دفن) کر دیا گیا، اُسے مٹی نے اِس طرح کھا لیا کہ اُس کی ہڈی تک بھی نہ بچی۔

نوشیرواں عادل کا مبارک نام نیکی و عدل کے سبب اب تک زندہ ہے، اگرچہ صدیاں گزر گئیں کہ نوشیروان زندہ نہیں رہا۔

مطلب یہ کہ کوئی کتنا بڑا صاحب سلطنت و اقتدار کیوں نہ ہو مرنے کے بعد اس کانام فقط اس کی نیکیوں اور خوبیوں ہی کی بدولت زندہ رہ سکتا ہے، دوسری صورت میں لوگ اُسے جلد ہی بھول جائیں گے۔

یہ اشعار دراصل ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہیں جس کا ذکر نظام الملک طوسی نے اپنی کتاب ’’سیاست نامہ‘‘ میں کیا ہے، جو کچھ اس طرح ہے: نوشیروان نے ایک محل بنانا چاہا۔ جس جگہ محل بننا تھا وہاں ایک بڑھیا کی جھونپڑی تھی۔ اس سے کہا گیا کہ تم یا تو یہ زمین بیچ دو اور جہاں کہو وہاں تمہارے لیے ایک اچھا سا مکان بنا دیا جائے گا۔ لیکن بڑھیا اپنی جھونپڑی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ نوشیروان کو اس کی اطلاع دی گئی تو اُس نے کہا ’’جھونپڑی وہیں رہنے دی جائے‘‘۔ جب محل بن کر تیار ہوا تو جھونپڑی کے سبب وہ اس جگہ سے ٹیڑھا تھا۔ نوشیروان نے محل ٹیڑھا بنوانا منظور کر لیا لیکن یہ قطعاً پسند نہ کیا کہ اُس کی رعایا کے ایک فرد کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے۔ سعدی ؒنے اسی واقعہ کو پیش نظر رکھ کر اشعار کہے ہیں کہ اگرچہ جھونپڑی والی بڑھیا اور نوشیروان زندہ نہیں رہے لیکن صدیاں گزرنے کے باوجود اس عدل و انصاف کے باعث نوشیروان کا نام اب تک زندہ ہے۔ (اس کے بعد سعدیؔ اپنے مخاطب یا قاری کو نیک کاموں کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ) جہاں تک ممکن ہو سکے اچھے کام کر اور اس زندگی کو، جو فانی ہونے کے سبب معلوم نہیں کس وقت ختم ہو جائے، غنیمت سمجھ‘ اس سے پیشتر کہ یہ آواز آجائے کہ فلاں (مخاطب) نہیں رہا۔ موت سے پہلے نیک کام کر لے؛ کوئی علم نہیں موت کس وقت تجھے آن گھیرے۔ چونکہ یہ باب بادشاہوں کی سیرت کے بارے میں ہے، اس لئے واضح ہے کہ سعدیؒ نے بالواسطہ بادشاہوں اور حکمرانوں کو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی دَور سے ہو، یہ زبردست نصیحت کی ہے تاکہ ان کی رعایا سکون کی زندگی بسر کر سکے اور اس کا اجر آخرت میں انہیں ملے۔

میں نے کسی شہزادے کے بارے میں سنا کہ وہ ایک تو چھوٹے قد کا تھا، دوسرا کسی قدر بدصورت بھی تھا؛ جبکہ اس کے بھائی قد و قامت میں بھی لمبے اور خوبصورت بھی تھے۔ ایک دن اُس کے باپ نے اُسے حقارت و نفرت سے دیکھا۔ شہزادہ اپنی ہوشمندی سے (باپ کی نظروں کو) بھانپ گیا۔ کہنے لگا ’’ابا حضور! چھوٹے قد کا عقلمند اچھا کہ لمبے قد کا بیوقوف؟ ضروری نہیں کہ جو قد میں بڑا ہو وہ قدر و قیمت میں بھی بڑھ کر ہو۔ بکری (قد میں چھوٹی ہونے کے باوجود) حلال ہے، جبکہ ہاتھی اتنا بڑا جسم رکھتے ہوئے بھی حرام ہے‘‘