حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیثیت معیشت دان – نبیلہ شہزاد
بعثت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے قبل انسانی معاشرہ ظلمات کی پستیوں میں گرا پڑا تھا۔ طاقتور ہر چیز پر حاوی اور کمزور کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ قانون طاقت کے تابع تھا۔ معاشرے میں معشیت کے لیے کوئی خاص اصول مرتب نہ تھے۔دنیائے عرب میں معیشت کے لئے سب سے زیادہ انحصار تجارت پر تھا۔ کچھ ظالم وجابر قبائل لوٹ کھسوٹ سے بھی پرہیز نہ کرتے۔امن و سلامتی صرف حرمت والے مہینوں میں ہی نصیب ہوتا۔ جواو کسادبازاری عام تھی۔
سود وبا کی طرح پھیل چکا تھا۔ صعنت وحرفت کے میدان میں عرب ساری دنیا سے پیچھے تھا۔ جو چند صنعتیں قائم تھیں، وہ حیرہ، یمن اور شام سے متصل علاقوں میں تھیں۔ البتہ عرب خواتین سارا سال سوت کاتتیں تھیں۔ لیکن افسوس ! یہ لوگ کسی بھی طریقے سے جو بھی کماتے، ان کا زیادہ تر مال آپس کی لڑائیوں، جنگ وجدل میں خرچ ہوتا۔ اور خود یہ لوگ مفلوک الحال ہی رہتے۔ کسمپرسی وفقر و فاقہ ان کی ذاتِ کا حصہ رہتا۔معیشت کی اس اندھیر نگری میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک روشن قندیل کی طرح نمودار ہوئے کہ چند سالوں میں عرب نے معیشت کے میدان میں اس قدر ترقی کی کہ دینے والے، مال جھولیوں میں بھر کر پھرتے لیکن لینے والا کوئی نظر نہ آتا۔
لیکن ٹھہر جائیے۔پہلے اس ترقی کی راہ گزر میں اصول وقواعد مرتب کرنے والی ہستی کے بارے میں خالق کائنات کا حکم جان لیں۔۔تاکہ راہ عمل اپنانے میں کسی قسم کا تردد نہ رہے۔ اللّہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
من يطع الرسول فقد اطاع الله (سورة النساء آیت نمبر 80)
جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا اس نے اللّہ تعالیٰ کا حکم مانا۔
ایک اور جگہ فرمایا۔
واطيعوا الله والرسول لعلكم ترحمون.
اور حکم مانو اللّہ کا اور رسول کا تاکہ تم پر رحم ہو۔
ان آیات مبارکہ سے ثابت ہو گیا کہ اگر کسی بھی معاملے میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنی ہے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت لازم ہے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا طرز عمل اپنانا ہوگا۔
ادھر ہم معیشت کے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل پر مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لقد كان لكم فى رسول اللَّه أسوة حسنة. (الاحزاب آیت 21)
تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ ہے۔
اس مبارک ہستی نے بچپن میں ہی معیشت کے میدان میں قدم رکھ دیا اور بکریاں چرانا شروع کر دیں۔ کیونکہ والد کا سایہ پیدائش سے قبل ہی سر سے اٹھ چکا تھا۔ بطور میراث کوئی خاص جائداد نہیں ملی تھی۔ ٹھوڑا عرصہ دادا کی کفالت میں رہے۔ دادا کی وفات کے بعد چچا کی کفالت میں آ گئے۔ چچا کا کنبہ بڑا اور آمدن کم۔۔۔۔۔اس لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلام نے کم عمری میں ہی چچا کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور معاشی معاون بن کر یہ ثابت کر دیا کہ جب انسان خود کمانے کے قابل ہو جائے تو وہ دوسروں پر بوجھ بننے سے احتراز کرے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا، کسی شخص نے کبھی نہیں کھایا۔(بخاری شریف)
بکریاں چرانا عرب میں عار نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ رواج تھا۔یہ دوسری حکمتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں کامیاب معیشت کا فلسفہ بھی سکھاتا ہے۔بکریاں چرانے والے شخص میں جفا کشی، تحمل و بردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے۔یہاں انسان کو ایک کاروباری شخصیت بننے کے لئے اپنے اندر مذکورہ صفات کو پیدا کرنا لازمی ہے۔ بکریاں چرانا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے۔اس طرح معیشت کے راستے میں بھی شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے ہوشیاری اور بیدار مغزی سے کام لینا ہوگا کہ کہیں وہ تمہیں بے ایمانی اور حرام کی طرف نہ اکسائے۔بکریاں صرف آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہی نہیں بلکہ پیغمبران علیہ السلام کی ، اکثریت نے چرائی۔اس کا مقصد صرف معشیت حاصل کرنا نہیں بلکہ مذکورہ بالا صفات پیدا کر کے اپنے آپ کو فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا ہے۔امت میں علماء اکرام، نبیوں کے وارث ہیں۔اس لئے علماء اکرام اور دوسرے شعبوں کے اساتذہ محترم، اپنے اندر تحمل، بردباری، عاجزی و انکساری،جفا کشی و نرم دلی پیدا کر کے اپنے علم کو ذریعہ معاش بنا سکتے ہیں لیکن مقصد معاش نہیں، ان کا نقط نظر فروغ علم ہونا چاہیے نہ کہ حصول معاش۔کیونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو تعلم وتعلیم کے لیے وقف کر چکے ہوتے ہیں کسی اور ذریعہ معاش کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے لیے سورہ توبہ کی آیت نمبر 111 میں بشارت موجود ہے۔
إن الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأن لهم الجنت.
اللّہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور انکے مال خرید لیے ہیں۔ اور اس کے عوض ان کے لئے جنت تیار ہے۔
اب آتے ہیں تجارت کی طرف۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تجارت سیکھنے کے لئے اپنا پہلا تجارتی سفر بچپن میں اپنے چچا کے ساتھ ملک شام کی طرف کیا لیکن راستے میں میسرہ نامی راہب کے کہنے پر، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر ، آپکے چچا نے واپس بھیج دیا۔ ملک شام کی طرف دوسرا سفر بطور تاجر، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر گئے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جتنے بھی تجارتی اسفار کیے۔ ان میں اپنے اخلاق کریمانہ، حسن معاملہ، راست بازی، صدق دیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو گئے کہ لوگوں میں آپ صادق وامین کے لقب سے پہچانے جانے لگے۔
تجارتی معاملات میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خصائل حمیدہ امت کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تجارتی شرکاء سے لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرتے، بحث و تکرار سے اجتناب برتتے، ایفائے عہد کی پاسداری کا خیال رکھتے، مال کی خوبی کے ساتھ خامی سے بھی اگاہ فرماتے۔
بعد از نبوت
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف فریضہ رسالت کی طرف مبذول کر دی۔ کیونکہ بعثت کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کسی قسم کی معاشی مشغولیت کا تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ دین کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی فرمائی۔ اس میدان میں کامیابی کے ساتھ گزر جانے والوں کو جہاں بشارتیں سنائیں تو وہاں اس کے چور ڈاکووں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر سیدھی راہ پر لوٹ آئے کی طرف متوجہ بھی کیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو ایک حصہ عبادات کے بارے میں اور باقی تین حصے معاملات کے بارے میں ہدایات واحکام ملیں گے۔ حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ اچھی کمائی کون سی ہے؟
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا
آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور وہ تجارت جس میں تاجر بے ایمانی اور جھوٹ سے کام نہیں لیتا۔ (مشکواۃ شریف)
صالح تاجر کے اجرو ثواب کے بارے میں بشارت دی۔ کہ
سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔
معیشت میں جو خبیث اور معلون چیز ہے وہ سود ہے۔
سورۃ البقرہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
اے لوگو ، سود کو چھوڑ دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللّٰہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 278)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہ کی ۔ لیکن سود لینے اور کھانے والے پر، سود دینے اور کھلانے والے پر، اور اس کے لکھنے والے پر، اور اس کے گواہوں پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی (بخاری و مسلم)
سود کو زنا سے بھی زیادہ سخت قبیح فعل قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج میں بھی سود خوروں کا انجام دیکھایا۔جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آئے۔ تو انصار کے یہاں صدیوں سے آباد ہونے کے باوجود، معیشت یہودیوں کے کنٹرول میں تھی۔ انصار محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کرنے کے باوجود مفلوک الحال اور یہودیوں کے سودی قرضوں میں جھکڑے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی نظام ختم کر کے انہیں سود سے نجات دلائی اور مدینہ کے بازار کی ترتیب اسلامی طرز بنیاد پر قائم کی۔ جدید معاشی اصول وضع کیے ۔ یہاں تک کہ دور حاضر کی معیشت کی کامیابی بھی انہی اصولوں کی بنا پر ہے۔ مسلمانوں پر کسی قسم کا کوئی لگان نہ تھا۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بازار میں اپنی چیزیں براہِ راست فروخت کرتے۔ اس طرح انہیں اپنی محنت کا معقول معاوضہ ملتا۔ قیمتیں مقرر کرنے سے منع فرما دیا۔ کیونکہ اس سے ذخیرہ اندوزی کا راستہ کھلتا ہے۔ ذخیرہ اندوز قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں اجناس یا مال روک لیتا ہے۔ پھر مہنگے داموں فروخت کرتاہے اور لوگ مہنگے داموں بھی خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔جو شخص ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا بلکہ وقت پر بازار میں لاتا ہے تو وہ اللّہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہے۔ اسے اللّہ رزق دے گا، اور جو شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ لعنت کا مستحق ہے۔(ابنِ ماجہ)
ایک اور جگہ فرمایا۔جو شخص قیمتیں بڑھانے کے لیے چالیس روز تک ذخیرہ اندوزی کرتا ہے تو وہ اللّہ تعالیٰ سے لا تعلق اور اللہ اس سے لا تعلق ہو گیا۔ (مشکواۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی امور میں مال کا عیب چھپانے سے منع فرما دیا۔دھوکہ دینے والوں کو مسلمانوں کی فہرست سے خارج کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کی خریدوفروخت کو بھی حرام قرار دیا۔ تاکہ معاشرے میں غلاظت نہ پھیلے۔ کاروبار کو مشکل بنانے والے قبیح فعل سود کو عملی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ خرید وفروخت سونے، چاندی ،اور اجناس کے بدلے میں کرنے کا رواج دیا۔ یہ کاغذی کرنسی تو یہودیوں کا چھوڑا ہوا سوشہ ہے جو دوسروں کے ہاتھوں میں بے مول کاغذ کے ٹکڑے پکڑا کر ، خودسونے، چاندی اور اجناس پر قابض ہیں۔ موجودہ دورمیں بھی معیشت کے میدان میں مسلمانوں کو دوبارہ بام عروج تک پہنچنے کے لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وضع کردہ قوانین کو ہی اپنا نا ہوگا۔ انشاء اللہ ، مسلمانوں پر پھر وہ وقت آئے گا جب ہم دینے کے لیے جھولیاں بھر کر گلیوں میں گھومیں گے لیکن لینے والے مشکل سے ہی ملیں گے۔ (انشاء اللہ)