643

حضرت داود علیہ السلام.

(Hazrat Dawud (AS

حضرت داود علیہ السلام
متعارف:
حضرت داؤد ؑ بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاء میں شامل ہیں ۔ ان کو اللہ تعالی ٰ نے بہت بڑے ملک کی حکومت کے ساتھ ساتھ نبوت کا منصب جلیلہ بھی عطا کیا۔ وہ دسویں صدی قبل از مسیح میں پیدا ہوئے اور نویں قبل از مسیح میں فوت ہوئے۔ وہ لوہے سے زرہ بنانے کا کام کرتے تھے۔ وہ صوم و صلواۃ کے پابند تھے اور رات کو اٹھ کر عبادت کرتے تھے۔ وہ غیر معمولی طور پر بہادر اور ذہین تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب زبور نازل کی جس کی تعلیمات سے بنی اسرائیل کے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی۔
خاندان اور ابتدائی زندگی:
حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔ان کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کا نسب نامہ یہ ہے : داؤد بن ایشا بن عوید بن عامر بن سلمون بن نحشون بن عوینا دب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل۔وہ ابراہیم خلیل جو اللہ کے بندے اور نبی اور بیت المقدس میں اللہ کے نائب تھے۔حضرت داؤد ؑ 10ویں قبل مسیح میں فلسطین کے شہر بیت المقدس میں پیدا ہوئے۔ان کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اور حکمران بنایا ۔ وہ بنی اسرائیل کے صاحب کتاب پیغمبر تھے۔
حلیہ مبارک:
محمد بن اسحاق ؒ نے وہب بن منبہ ؒ سے نقل کیا ہے کہ داؤد علیہ السلام چھوٹے قد کے ،نیلی آنکھوں والے ، تھوڑے بالوں والے اور پاک صاف دل والے تھے ۔داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا تھا ۔ ابن عساکر ؒ کے بیان کے مطابق یہ قتل ام حکم کے محل کے پاس مرج الصفر کے قریب ہوا تھا ۔اس کے بعد بنی اسرائیل آپ سے محبت کرنے لگ گئے ،ان پر فریفتہ ہو گئے اور اپنے اوپر اس کی بادشاہت چاہنے لگے۔اس کے بعد بادشاہت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں آ گئی ۔اللہ تعالی نے ان کو بادشاہت اور نبوت عطا کر کے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں سے نوازا ۔ان سے پہلے بادشاہت ایک خاندان میں ہوتی اور نبوت دوسرے خاندان میں جبکہ داؤد علیہ السلام میں اللہ نے یہ دونوں نعمتیں جمع کر دیں ۔اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے :’’ اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا اور اللہ نے اسے بادشاہت اور حکمت و دانائی سے نوازا اور جو چاہا اسے علم سکھایا اور اگر اللہ تعالی بعض لوگوں کو بعض کے ساتھ دفع نہ کرتے تو زمین فساد والی ہو جاتی اور لیکن اللہ جہانوں پر فضل کرنے والا ہے‘‘یعنی اگر بادشاہوں کو لوگوں کا حاکم نہ بناتا تو طاقت ور کمزور کو کھا جاتے ۔اسی لئے بعض روایات میں آیا ہے کہ بادشاہ زمین میں اللہ تعالی کا سایہ ہے۔امیر المومنین عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی قرآن کے ذریعے اتنا فساد نہیں روکتا جتنا سلطان کے ذریعے روکتا ہے ۔بیان کیا جاتا ہے کہ جالوت نے طالوت کو دعوت مبارزت دی اور کہا میری طرف نکل۔میں تیری طرف آیا ہوں تو طالوت نے لوگوں کو اس کام کیلئے بلایا ۔داؤد علیہ السلام نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور جالوت کو قتل کر دیا ۔وہب بن منبہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کا رجحان داؤد علیہ السلام کی طرف ہو گیا حتیٰ کہ طالوت کا تذکرہ لوگ بالکل چھوڑ گئے ۔انہوں نے طالوت کی بادشاہت ختم کر کے داؤد علیہ السلام کو لوگوں کا سربراہ بنا دیا ۔داؤد علیہ السلام کی حکومت شمویل علیہ السلام کے حکم سے جاری ہو ئی تھی۔بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شمویل علیہ السلام نے داؤد علیہ السلام کو لڑائی سے پہلے ہی بادشاہ بنا دیا تھا ۔ابن جریرؒ بیان کرتے ہیں کہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ داؤد علیہ السلام کو جالوت کے قتل کرنے کے بعد بادشاہ بنا دیا گیا ۔داؤد علیہ السلام نے جالوت کو ام حکیم کے محل کے پاس قتل کیا تھا اور وہاں کی نہر وہی ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا :’’اور داؤد علیہ السلام پر ہم نے فضل کیا ،اے پہاڑو!اس کے ساتھ تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی یہی حکم ہے اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کر دیا اور پوری پوری زرہیں بنا کر جوڑوں میں اندازہ رکھ ،تم سب نیک کام کیا کرو اس یقین کے ساتھ کہ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں‘‘۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا وہ تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی اور ہم کرنے والے ہی تھے اور ہم نے اسے تمہارے لئے لباس بنانے کی کاری گری سکھائی تاکہ لڑائی کے ضر ر سے تمہارا بچاؤ ہو ۔کیا تم شکر گزار بنو گے؟‘‘
اللہ تعالی نے لوہے کی زرہیں بنانے میں داؤد علیہ السلام کی مدد کی تاکہ دشمنوں سے حفاظت ہو سکے اور اللہ تعالی نے ان کو زرہیں بنانے کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا :یعنی کیل نہ اتنا باریک کرو کہ وہ اپنی جگہ پر قائم نہ رہے اور نہ اتنا موٹا کرو کہ اسے توڑ دے۔اللہ تعالی نے ان کیلئے لوئے کو نرم کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ کے ساتھ موڑ اور بٹ لیتے تھے ۔ان کو اسے گرم کرنے اور ہتھوڑے کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔ قتادہ ؒ لکھتے ہیں: کڑوں والی زرہ سب سے پہلے داؤد علیہ السلام نے ہی بنائی ۔اس سے پہلے لوہے کی دادر کی زرہیں بنائی جاتی تھیں۔ابن شوذب نے کہا ہے :وہ ہر روز ایک زرہ بنا لیتے تھے جس کو وہ چھ ہزار درہم میں وہ فروخت کرتے تھے ۔حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کا سب سے پاکیزہ کھانا اس کے ہاتھ سے کمایا ہوا ہے اور داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کے ساتھ محنت کر کے کھاتے تھے۔اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اور ہمارے بندے داؤد علیہ السلام کو یاد کروجو طاقتور تھے ۔یقیناًوہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ۔ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو لگا دیا وہ شام اور صبح اس کی تسبیح کہتے ہیں اور پرندے اکٹھے کئے گئے ہر ایک اس کیلئے فرمانبردار ہے اور ہم نے اس کی بادشاہت مضبوط کی اور ہم نے اسے حکمت عطا کی اور فیصلہ کن بات کرنے کا سلیقہ سکھایا‘‘۔
عبادت کی قوت:
حضرت داؤد علیہ السلام عبادت کرنے والے اور نیک اعمال سر انجام دینے کی زبردست قوت رکھتے تھے ۔قتادہؒ نے کہا ان کو عبادت کی قوت اور زبردست اور اسلام کی سمجھ دی گئی ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رات کا قیام کرتے اور نصف زمانے کے روزے رکھتے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلا م کی ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داؤد علیہ السلام کے ہیں ۔وہ نصف رات آرام کرتے اور پھر ایک تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ پھر سو جاتے اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے ۔جب دشمنوں سے ملاقات ہوتی تو میدان جہاد سے بھاگنے نہیں دیتے۔فرمان الہی ہے: ’’ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا ،وہ صبح و شام تسبیح پڑھتے ہیں ۔دوسری جگہ ہے۔اے پہاڑو!اس کے ساتھ تسبیح پڑھو اور پرندوں کو بھی یہ حکم دیا ۔یعنی دن کے آخری اور ابتدائی حصہ میں اس کے ساتھ تسبیح کرو ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا ۔اتنی خوبصورت آواز کسی کو نہ دی تھی ۔حتیٰ کہ جب آپ ترنم کے ساتھ اللہ کی کتاب پڑھتے تو پرندے ہوا میں اس کے ساتھ ٹھہر جاتے اور آپ کے ساتھ گنگناتے اور آپ کے ساتھ تسبیح پڑھتے ۔اسی طرح پہاڑ بھی آپ کو جواب دیتے اور آپ کے ساتھ صبح و شام تسبیح کہنے میں شامل ہو جاتے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا داؤد علیہ السلام پر قرات آسان کر دی گئی تھی ۔وہ اپنے جانور پر زین کسنے کا حکم فرماتے تو زین کس جانے سے پہلے قرات مکمل کر لیتے اور وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ہی کھاتے تھے۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:’’اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور عطا کی ‘‘۔زبور ماہ رمضان میں نازل ہوئی ۔اس میں وعظ و نصیحت اور حکمت و دانائی کی باتیں ہیں جو اسے پڑھنے والوں کے ہاں معروف ہیں۔اللہ تعالی فرماتاہے:ہم نے اس کی بادشاہت مضبوط کی اور اسے حکمت او ر بات کا فیصلہ عطا کیا ۔یعنی ہم نے اسے عظیم بادشاہت اور نافذ ہونے والا حکم دیا۔ابن جریر ؒ نے بیان کیا ہے کہ دو آدمی داؤد علیہ السلام کے پاس ایک گائے کے متعلق فیصلہ کرانے آئے ۔ان دونوں میں سے ایک کا دعوی تھا کہ گائے میری ہے اور دوسرے نے مجھ سے چھین لی ہے ۔مدعا علیہ نے اس بات کا انکار کیا تو داؤد علیہ السلام نے رات تک ان کا معاملہ موخر کر دیا ۔جب رات ہو ئی تو اللہ تعالی نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ مدعی کو قتل کر دو ۔جب صبح ہوئی تو داؤد علیہ السلام نے اسے کہا :اللہ تعالی نے میری طرف وحی کی ہے کہ میں تجھے قتل کروں ۔ تو اب میں نے لازما ًتجھے قتل کر دینا ہے لہذا تو اب اپنے دعویٰ کے متعلق اصل صورتحال سے آگاہ کر ۔اس نے کہا: اے اللہ کے نبی!اللہ کی قسم !میں اپنے دعویٰ میں سچا ہوں ۔البتہ میں اس سے پہلے اس کے باپ کو قتل کر چکا ہوں ۔اس طرح داؤد علیہ السلام کے کہنے پر اس کو قتل کر دیا گیا ۔اس سے داؤد علیہ السلام کی عظمت بنی اسرائیل میں بہت زیادہ ہوئی اور وہ آپ کے ساتھ بہت زیادہ فروتنی اور عاجزی و انکساری کا معاملہ کرنے لگ گئے ۔
حضرت وہب بن منبہؒ بیان کرتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل میں برائیاں اور جھوٹی قسمیں بہت ز یادہ ہو گئیں تو داؤد علیہ السلام کو فیصلہ کرنے کے لئے سونے کی ایک ز نجیر دی گئی،جو آسمان سے بیت المقدس کی چٹان تک لمبی کی گئی تھی۔جب وہ آدمی کی معاملہ میں جھگڑا کرتے تو جو سچا ہوتا اس زنجیر کو چھو لیتا اور جو حق پر نہ ہوتا وہ اسے نہ پکڑ سکتا ۔ان کا معاملہ اسی طرح چلتا رہا حتی کہ یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک آدمی نے دوسرے کے پاس ایک قیمتی موتی رکھا تو اس نے اس کے مطالبے کے وقت اس کا انکار کر دیا اور موتی کسی لکڑی کے اندر کسی طریقہ سے چھپا دیا ۔جب وہ دونوں زنجیر کو پکڑنے کیلئے چٹان کے پاس آئے تو مدعی نے زنجیر کو پکڑ لیا ۔دوسرے کو کہا گیا کہ تم بھی اس کو پکڑو ۔اس نے موتی والی لاٹھی مدعی کو پکڑائی اور کہا اے اللہ !تو جانتا ہے کہ میں نے موتی اس کے سپرد کر دیا ہے۔ پھر اس نے زنجیر پکڑ لی تو وہ اس کے ہاتھ میں آ گئی ۔اس سے بنی اسرائیل میں زنجیر معاملہ بہت پیچیدہ ہو گیا ۔پھر جلد ہی زنجیر ان سے اٹھائی گئی۔’’اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی خبر ملی ؟جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے ۔جب وہ داؤد علیہ السلام کے پاس پہنچے ۔پس یہ ان سے ڈر گئے ۔انہوں نےکہا:خوف نہ کیجئے!ہم مقدمہ کے دو فریق ہیں ۔ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے ۔پس ہمارے درمیا ن حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور نا انصافی نہ کریں اور ہمیں سیدھی راہ بتائیں ۔سنیے یہ میرا بھائی ہے ۔اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے ۔لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے یہ اپنی دنبی بھی مجھے دے دے اور اس نے اس بات میں مجھ پر بڑی سختی کی ہے ۔آپ نے فرمایا : اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا سوال بے شک تیرے اوپر ظلم ہے اور اکثر حصہ دار ایسے ہی ہوتے ہیں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے کم ہی ہیں ۔داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے اسے آزمایا ہے ۔پس انہوں نے اپنے رب سے معافی طلب کی اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور اللہ کی طرف رجوع کیا ۔پس ہم نے ان کا وہ قصور معاف کر دیا یقیناًوہ ہمارے نزدیک بڑے مرتبے والا اور بہت اچھے ٹھکانے والا ہے ۔
داؤد علیہ السلام کی حکمت ودانائی:
وہب بن منبہ ؒ نے کہا ہے :داؤد علیہ السلام کی حکمت و دانائی والی باتوں میں سے یہ بھی ہے کہ عقل مند آدمی پر حق ہے کہ وہ چار اوقات میں غافل نہ ہو:
۱۔ جب وہ اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا ہو ۔
۲۔ جب وہ اپنا محاسبہ کر رہا ہو۔
۳۔جب اس کے بھائی اسے اس کے عیوب بیان کر رہے ہوں اور اس کی ذات کے متعلق سچی باتیں بتا رہے ہوں ۔
۴۔جب وہ حلال اور اچھی چیزوں کے ساتھ اپنے آپ کو لذت اٹھانے کا موقع دے کیونکہ یہ آخری وقت پہلے اوقات کیلئے معاون اور دل کو تسکین دینے والا ہے۔
عقلمند پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے وقت کو پہچانے ،اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اپنے کام میں لگا رہے ۔عقل مند پر فرض ہے کہ وہ تین مقاصد کے سوا کسی کام کیلئے سفر نہ کرے:
۱۔آخرت کی تیاری
۲۔ذریعہ معاش کی فراہمی کیلئے
۳۔ حلال چیز کے ساتھ لذت اٹھانے کے لئے
حافظ ابن عساکر ؒ نے داؤد علیہ السلام کے حالات زندگی میں بہت سی عمدہ عمدہ باتیں کی ہیں۔ ان میں سے یہ بھی ہے۔:’’یتیم کیلئے باپ کی طرح ہو جاؤ اور خوب اچھی طرح جان لو جو آج کاشت کرو گے وہی کل کاٹو گے‘‘۔داؤد علیہ السلام نے فرمایا:قوم کی مجلس میں بے وقوف خطیب ایسے ہے جیسے کوئی گانا گانے والا میت کے پاس گانا گا رہا ہو۔انہوں نے یہ بھی فرمایا ’’مالداری کے بغیر فقیر ہو جانا بہت برا ہے اور ہدایت کے بعد گمراہ ہو جانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے۔ یہ بھی فرمایا اپنے متعلق جس چیز کا تذکرہ مجلس میں نا پسند کرتے ہو خلو ت میں اس سے بچ جاؤ‘‘۔ اللہ تعالی نے فرمایا:’’پس ہم نے آل ابراہیم علیہ السلام کو کتاب و حکمت سے نوازا اور ان کو ملک عظیم عطا کیا‘‘۔حافظ نے اپنی تاریخ میں صدقہ ومشقی کے حالات کے تحت لکھا ہے اورجس نے ابن عباسؓ سے روایات بیان کی ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباسؓ سے روزوں کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے :میں تمہیں وہ حدیث بیان کرتا ہوں میرے پاس محفوظ پڑی ہے۔اگر تم چاہتے ہو تو میں تجھےداؤد علیہ السلام کے روزے کے بارے میں بتاتا ہوں ۔وہ بہت روزے رکھنے والے ،بہت زیادہ قیام کرنے والے اور بہت بہادر تھے۔دشمن سے ٹکراؤ کے وقت میدان سے بھاگتے نہیں تھے۔وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: افضل ترین روزے داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں ۔آپ زبور ستر لہجوں میں پڑھتے تھے۔آپ رات کو نماز پڑھتے تو خود روتے تھے اور ان کا رونا سن کر ہر کوئی رو پڑتا ۔ان کی آواز سن کر غمگین آدمی لوٹ آتا اور ان کی طرف متوجہ ہو جاتا۔اگر تو چاہتا ہے تو میں اس کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کے روزوں کے بارے میں تجھے بتاتا ہوں ۔وہ ہر ماہ کے شروع میں تین روزے رکھتے ،اس طرح درمیان اور آخر میں تین تین روزے رکھتے ۔وہ گویا ہر مہینے کا آغاز روزے سے کرتے۔درمیان میں روزے دار ہوتے اور اختتام میں بھی روزے رکھتے۔اگر تو چاہے تو میں تجھے کنواری پاکدامن کے بیٹے یعنی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے روزوں کے متعلق تجھے آگاہ کرتا ہوں۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھتے جو کھاتے حلال جانوروں کے بالوں کا لباس پہنتے ۔جو ملتا کھا لیتے ،جو نہ ملتا اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھتے ۔ان کا کوئی بچہ نہ تھا کہ ان کے مرنے سے غمگین ہو ۔ان کا کوئی گھر نہ تھا کہ اس کے ویران ہونے کا اندیشہ ہو۔زبردست تیر انداز تھے ۔ ان کا شکا ر بھاگ نہیں سکتا تھا۔لوگوں کی مجلسوں کے پاس سے گزرتے تو ان کی ضروریات پوری کر دیتے۔
داؤد علیہ السلام کی عمر اور وفات کی کیفیت کا ذکر:
جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی تو انہوں نے ان میں انبیاء علیہ السلام دیکھے اور ان میں ایک خوبصورت آدمی دیکھا ۔پوچھا :اے اللہ یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ تیرا بیٹا داؤد ہے۔اے اللہ !اس کی عمر کتنی ہے ؟فرمایا ساٹھ سال ۔کہا اے پروردگار!اس کی عمر میں اضافہ کر دے۔ فرمایا ایسا نہیں ہو گا۔ہاں آپ اپنی عمر کا کچھ حصہ اس کو دے دیں میں اس کی عمر میں اضافہ کر دیتا ہوں۔آدم علیہ السلام کی عمر ہزار سال تھی تو انہوں نے اپنی عمر کے چالیس سال داؤد علیہ السلا م کو ہبہ کر دئیے۔جب آدم علیہ السلام کی عمر مکمل ہوئی تو فرشتہ ان کے پاس روح قبض کرنے آیا ۔آپ نے فرمایا:ابھی میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں ۔آدم علیہ السلام داؤد علیہ السلام کو ہبہ کی ہوئی عمر بھول گئی۔اللہ نے آدم علیہ السلام کی عمر ہزار سال مکمل کر دی اور داؤد علیہ السلام کی عمر سو سال کر دی۔
داؤد علیہ السلام کی وفات کے بارے میں ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:داؤد علیہ السلام بہت غیرت مند تھے ۔جب وہ باہر جاتے تو تمام دروازے بند کر جاتے۔ان کی عدم موجودگی میں کوئی ان کے گھر داخل نہ ہو سکتا تھا ۔وہ ایک دن باہر گئے اور گھر کا دروازہ بند کر دیا گیا تو آپ کی بیوی دروازے سے جھانکنے لگ گئی ۔کیا دیکھتی ہے کہ ایک آدمی گھر کے درمیان میں کھڑا ہے ۔اس نے گھر کے دیگر افراد سے پوچھا کہ یہ آدمی کہاں سے گھر میں آیا ہے ؟جبکہ دروازہ تو بند ہے ۔اللہ کی قسم ہمیں داؤد علیہ السلام ذلیل و رسوا کر دیں گے۔پھر داؤد علیہ السلام تشریف لائے تو وہ آدمی اس طرح گھر کے درمیان میں کھڑا تھا ۔داؤد علیہ السلام نے کہا :تو کون ہے ؟اس نے کہا میں وہ ہوں کہ بادشاہوں سے نہیں ڈرتا اور پردے میرا راستہ نہیں روک سکتے ۔داؤد علیہ السلام نے کہا اللہ کی قسم ! اگر ایسا ہے تو پھر تم ملک الموت ہو ۔میں اللہ کے حکم ’موت‘ کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔آپ کچھ دیر ٹھہرے پھر آپ کی روح قبض کر لی گئی ۔جب آپ کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا دیا گیا اور معاملات سے فارغ ہوئے تو سورج طلوع ہوا ۔سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو کہا !داؤد علیہ السلام پر سایہ کرو ۔
پرندوں نے آپ پر سایہ کیا حتیٰ کہ زمین پر اندھیرا چھا گیا ۔پھر سلیمان علیہ السلام نے پرندوں سے کہا اپنے پر سکیٹر لو ۔ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے دکھارہے تھے کہ پرندوں نے کیسے سایہ کیا ۔آپ نے اپنا ہاتھ سکیڑ لیا اور اس دن پرندے آپ پر غالب آئے۔بنی اسرائیل میں موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کے بعد کوئی ایسا شخص فوت نہیں ہوا جس پر داؤد علیہ السلام سے زیادہ بنی اسرائیل نے غم اور پریشانی کا اظہار کیا ہو۔ گرمی کی وجہ سے لوگوں نے تکلیف محسوس کی تو انہوں نے سلیمان علیہ السلام سے درخواست کی کہ ان کے لئے گرمی سے بچاؤ کا کوئی اہتمام کریں ۔سلیمان علیہ السلام نے باہر نکل کر پرندوں کو آواز دی اور ان کو حکم دیا کہ لوگوں پر سایہ کریں تو پرندے ہر جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ۔انہوں نے سلیمان علیہ السلام سے اپنے غم اور پریشانی کا اظہار کیا تو سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ سورج کی جانب سے لوگوں پر سایہ کرو اور دوسری جانب سے الگ ہو جاؤ ۔پرندوں نے حکم کی تعمیل کی تو اب لوگ سائے میں تھے اور ہوا بھی چل رہی تھی ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے داؤد علیہ السلام کی روح لوگوں کے درمیان سے قبض کی ۔وہ نہ فتنے میں مبتلا ہوئے اور نہ ہی انہوں نے کوئی تبدیلی کی ۔عیسیٰ علیہ السلام کے حواری دو سو سال تک ان کے طریقہ پرکاربند رہے۔
حضرت داؤد ؑ کا مزار:
حضرت داؤد ؑ کا روضہ مبارک بیت المقدس میں ہے ۔ اس جگہ کو مقام داؤد کہتے ہیں۔ ان کا وصال ۹ویں صدی قبل از مسیح میں ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں