حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا 889

حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا از: مفتی گلزار احمد نعیمی

حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا
از: مفتی گلزار احمد نعیمی
مرکزی صدر جماعت اہل حرم پاکستان
پرنسپل جامعہ نعیمیہ اسلام آباد
دس رمضان المبارک کوسیدہ، طیبہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کا یوم وصال ہے۔ اس مناسبت سے اپنے قارئین اکرام کی خدمت میں سیدہ کی شان عالیہ احادیث مبارکہ اورآپکی سیرت کے کچھ گوشوں کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتاہوں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں عن ابی ھریرۃ قال أتی جبریل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال: یارسول اللہ ھذہٖ خدیجۃ قد أَتت معمھا انا ءٌفیہ ادامٌ أ وطعام أو شرابٌ فاِذا گ ھی أ تتکَ فَاقْرأ علیھا السلام من ربھا ومنی، وبشر ھا ببیت فی الجنۃ من قصبٍ لا صخب فیہ ولانصب۔) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جبرائیل آئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ خدیجہ ہے جو برتن میں کچھ سالن، کھانا یا پینے کی چیز لا رہی ہے جب وہ آپ کے پاس آچکیں تو انہیں انکے رب کا اور میرا سلام پیش کر دیں انہیں جنت میں موتیوں والے گھر کی خوشخبری سنا دیں اس میں نہ شورو غل ہو گا اور نہ ہی کوئی تکلیف ہوگی۔
عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاقالت کان النبی اذا ذکر خدیجۃ أَثنَی علیہا فاحسن الثناء۔ قالت فغرتُ یوماًفقلت ما أکثر ما تذکُرُھا حمراء الشِّدْقِ قد أبدلک اللہ بھا خیراً منھا۔ قال ما ابدلنی اللہ خیراً منھا، قد آمنت بی اذاکفرالناس، وصدّقتنی اذ کذ بنی الناس وَوَاسَتْنِیْ بھا لھا اذ حرمنی الناس ورزقنی اللہ ولدَھا اذ حرمنی أولاد النساء۔(۲)ترجمہ: حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں سرکار جب کبھی بھی حضرت خدیجہ کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف کرتے۔ کہتی ہیں ایک دن مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپکو اس سے بہتر خواتین عطا فرما دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر عطا نہیں فرمایا: جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں۔ جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے تو انہوں نے مال کے ذریعے میری ڈھارس بندھائی۔اللہ نے مجھے ان کے بطن سے اولاد عنایت فرمائی جبکہ دوسری بیویوں سے ایسا نہیں ہوا۔
عن علی بن أبی طالب عن النبی قال: خیرنسائھا مریم وخیر نسائھا خدیجہ(۳) ترجمہ:اپنے زمانے کی بہترین عورت مریم تھی اور خدیجہ اپنے زمانہ کی بہترین عورت ہے۔
عن انس ان النبی قال حسبک من نساء العالمین مریم بن عمران وخدیجہ بنت خویلد وفاطمۃ بن محمد، وآسیۃ امرأۃ فرعون۔(۴)ترجمہ: تیرے لیے بطور نمونہ دنیا کی چار عورتیں مریم، خدیجہ، فاطمۃ بنت محمد اور آسیہ کافی ہیں۔
عن انس قال جاء جبریل الی النبی وعندہ خدیجہ قال ان اللہ یُقری خدیجہ السلام فقالت: ان اللہ ھو السلام،و علی جبریل السلام وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ قال الحاکم ھذا حدیث صحیح (۵)حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے اور اس وقت خدیجہ آپ کے پاس موجود تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ خدیجہ کو سلام کہتا ہے تو خدیجہ نے فرمایا: اللہ تو خود سلام ہے حضرت جبرئیل پر سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سلام ہوں اور اسکی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
امام ابن شھاب زہری نے فرمایا: حضرت خدیجہ عورتوں میں سب سے پہلے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائیں۔ ایک اور جگہ فرمایا: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والی اور تصدیق کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ ابھی نماز فرض نہیں ہوئی تھی کہ خدیجہ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا چکی تھیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد خویلد نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے آپ ایک کریم النفس شخصیت تھے بنی اسد کے سردار تھے ان کے اجدا د میں اعلی لوگ تھے۔ خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی۔ آپکی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ کی ماں ھالہ بنت عبد مناف بن قصی تھیں۔ اس طرح آپ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رشتہ دار تھیں۔
دور جہالت میں آپکا لقب ”طاہرہ“ کیاجاتاتھا۔ آپکے خاندان کے افراد خداپرست تھے۔ آپ کے چچا زاد ورقہ بن نوفل اپنے دور کے مشہور دانشور اور مو حد تھے۔ آسمانی کتابوں کے عالم تھے۔ دور جاہلیت کے مشہور چار عابدوں میں انکا شمار ہوتا تھا۔ بتوں کے سخت مخالف تھے۔ ایک دفعہ آپ نے اہل عرب سے یوں خطاب کیا!خدا کی قسم تم لوگ دین ابراہیمی کو فراموش کر بیٹھے ہو اور گمراہی سے دوچار ہوگئے ہو۔ ایسی چیزوں کی پوجا کرتے ہوجو حقیقت نہیں ہیں کیونکہ یہ بت نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان۔
حضرت خدیجہ بھی اعلیٰ اوصاف کی امینہ تھیں۔آپکی عفت و پاکیزگی دور اندیشی، صبرو استقامت، سخاوت اور جان نثاری کے سب اہل علم مداح ہیں۔دور جہالت میں بت پرستی کے رواج میں سیدہ کا دامن غیر اللہ کی عبادت سے آلودہ نہ ہوا۔ وہ اپنے تجارتی قافلوں کو الوداع کہنے کے بعد کعبۃ اللہ میں جاکر ابراہیم کے خدا سے اسکی حفاظت کی دعا کرتی تھیں۔ اور اس مال تجارت میں برکت کے لیے بھی دعا کرتی تھیں، آپ کے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ایک بیٹے ہند بن ابی ہالہ اپنی والدہ کے ساتھ ہی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ آگئے تھے۔ اپنا تعارف بڑے ہی شان سے کراتے تھے۔ ”انا اکرم الناس ابا واما واخا واختاً ابی رسول اللہ واخی قاسم واختی فاطمۃ وامی خدیجہ۔
امام حسن علیہ السلام نے ان سے ایک روایت کی ہے جس میں امام یوں کہتے ہیں ”حدثنی خالی“میرے ماموں نے مجھے حدیث بیان کی سرکارصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد ہند حضر ت علی کے ساتھ رہے۔ جنگ جمل میں حضرت علی کی طرف سے لڑے اور بصرہ میں طاعون کی بیماری سے فوت ہوگئے۔
جب آپ نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی کنیز کے ذریعے پیغام نکاح بھیجا تو جناب ابو طالب نے تحقیق کے لیے اپنی بہن صفیہ بنت عبد المطلب کو خدیجہ کے پاس بھیجا۔ جب صفیہ آپ کے دروازے پر تشریف لے گئیں تو وہ خود دوڑ کر دروازے پر آ پ کے استقبال کے لیے آئیں۔ مخصوص مہمانوں کے کمرے میں بیٹھایا اور کنیزوں کو خاطر تواضح کے لیے مشروبات وغیرہ لانے کے لیے کہا۔ سیدہ صفیہ نے کہا کہ میں اس کھانے کے لیے نہیں آئی بلکہ اس بات کی تصدیق کے لیے آئی ہوں کہ جو کچھ میں نے سنا ہے کیا وہ سچ ہے؟
جناب خدیجہ نے بغیر کچھ پوچھے کہ آپ نے کیا سنا ہے فرمایا: جی آپ نے صحیح سنا ہے اور کہا سعد من تکون لمحمدٍقرینۃ فانہ یُزیِّنُ صاحبہ۔ وہ عورت خوش قسمت ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شریک حیات بنے کیونکہ محمد تو اپنے صاحب کو مزین فرماتا ہے، محمد باعث فخر ہے اپنے صاحب کے لیے۔قربان جائیں اس پاکیزہ محبت ووارفتگی پر، اہل عرب کی روایتی فضاحت وبلاغت سے بھر پور الفاظ ہیں جو خدیجہ نے میرے نبی کی شان میں کہے۔ مصطفےٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حرم میں جانے کاکیا خوبصورت اور بلا مشروط انداز اظہار ہے۔
جب حرم رسول میں تشریف لے آئیں تو سب کچھ آقاء کے قدموں پر نچھاورفرما دیا۔
تجھے سلام اے خدیجہ، آپکی عقیدت کو سلام، آپکے عشق و محبت رسول کو سلام، اے خدیجہ آپ خود امرہو گئیں، آپکا عشق امر ہوگیا اور آپکی قربانی خدائے بزرگ و برترکے دربار میں شرف قبولیت پاگئی۔
حوالہ جات:
(۱)متفق علیہ (بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی الرقم 3609)
(۲)(احمد بن حنبل فی المسند۔ الرقم 24908.)(الطبرانی فی المعجم الکبیر، الرقم22.)(ابن جوزی صفوۃ الصفوۃ 8/2.، العسقلانی فی الاصابۃ والذہبی فی سیر أعلام البنلاء)
(۳)(متفق علیہ)(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی الرقم: 3604)(مصنف ابن ابی شیبہ الرقم:32289)(مسلم کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل خدیجہ: الرقم:2430)
(۴)(ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اللہ الرقم:3478)
(۵)(الحاکم، المستدرک الرقم:4856)