imam hussain A S oar waqia karbala 393

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا: شمسہ شاہین

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا

شمسہ شاہین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ

واقعہ کربلا کا ذکر آتے ہی ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے اور ہر مسلمان کا دل غم محسوس کرتا ہے۔اس کاسبب یہ نہیں ہے کہ اسلامی ریاست میں پہلی بار کسی مسلمان کا خون بہا،کسی مسلمان کو کسی مسلمان نے قتل کیا یا مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائی کو جو اھل بیت سے تھا بڑی بے دردی سے قتل کیا بلکہ اس سے پہلے بھی کبار صحابہ کرام اور خلفا ء راشدین رضی اللہ عنہم کے لہو سے ہاتھ رنگے گئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مسجد میں شھید کیا گیا اور حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے مسلمان گروہ نے قتل کر دیا اور اس تناظر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کی تلوار یں ایک ددسرے کے لیے بے نیام ہوئیں۔حضرت علی شھیدرضی اللہ عنہ کو کیا گیا۔نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لئے غم کی ایک داستان ہے کیونکہ ان کا مقام و مرتبہ حضور نے بار بار بیان فرمایا۔آپ کو ان سے بے پناہ محبت تھی جس طرح اپنی محبت کا اظہار آپ نے ان سے کیا کسی اور سے نہیں کیا ۔
ترمذی میں روایت ہے
حضرت علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں
حضور نبی اکرم نے حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
’’جس نے مجھ سے، ان دونوں سے ،ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانے پر ہو گا ‘‘(ترمذی)
اس قسم کی بہت سی احادیث ملتی ہیں جس میں حضرت حسین اور حسن رضی اللہ عنہماکی فضیلت و مقام بیان کیا گیاہے
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا
’’جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے در حقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے ہی بغض رکھا‘‘(سنن نسائی،مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ
نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے‘‘(مسند احمد بن حنبل)
اس والہانہ عقیدت کا اظہار آپ نے کسی اور ہستی کیلئے اس طرح نہیں کیا آپ ان کو جنت کے سردار بیان کرتے ہیں۔پھر کیسے کسی کی اتنی جرات ہو ئی کہ اس نے جنت کے سردار کو تہ تیغ کر ڈالا۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ
حضور ﷺنے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت کر (ترمذی)
واقعہ کربلا:
60 ھ میں حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا۔ امیر معاویہ اس کی بیعت اپنی زندگی میں لے چکے تھے۔حالانکہ اسلامی خلافت میں ولی عہدی کا نظام سرے سے موجود نہیں تھا بلکہ بادشاہتی نظام میں ایسا ہوتا ہے چنانچہ انھوں نے خلافت کے نام پر بادشاہت نافذ کرنے کی کوشش کی۔کسی طرح بھی یزید 60 ھ کو تخت نشین ہو گیا۔یزید بن معاویہ کی بیعت اس کے علاقے کے لوگوں (شامیوں)نے کر لی لیکن مدینے میں حضرت حسین،حضرت ابن عباس،حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہم سے بیعت لیے بغیر اس کا اقتدار خطرے میں تھا اس لیے کہ حضرت حسین اور حضرت عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے خلافت کا اعلان کیا جا سکتا تھا جس کو ہر کوئی آسانی سے قبول کر سکتاتھا اور یزید کا اقتدار کا خواب چکنا چور ہو جاتا۔یزید نے اس خطرے کے پیش نظر اپنے آدمیوں کو حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر سے بیعت لینے کا حکم دیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لینے کی کوشش
مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ بن حاکم کو یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لینے کا حکم دیا۔ولید کو اس جبر کے خطرات معلوم تھے چنانچہ اس نے مروا ن بن حکم سے مشورہ کیا تواس نے کہا کہ ان کو فورا بلا کر ان سے بیعت لے لو اگر تامل کریں تو ان کا سر قلم کر وا دو۔اگر ان کو معاویہ کے انتقال کی خبر ہو گئی تو ان میں سے ایک ایک یعنی (حضرت حسین اور حضرت ابن زبیر) اپنی اپنی جگہ خلافت کے امید وار بن جائیں گے اس وقت بڑی دشواریاں آئیں گی۔چنانچہ حضرت حسین اور حضرت ابن زبیر کو بلایا گیا اس نے یزید کا پیغام سنایا۔حضرت حسین نے فرمایا میرے جیسا آدمی چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا اور نہ یہ میرے لیے زیبا ہے جب عام لوگوں کو بیعت کیلیے بلاؤ گے تو اس وقت میں بھی آ جاؤں گا ولید نیک آدمی تھا راضی ہو گیا۔
مروان نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لیے بغیر ان کو چھوڑ دینے پر ولید کو سخت ملامت کی اور کہا بیعت لینے کا موقع تم نے کھو دیا۔اب قیامت تک تم ان پر قابو نہیں پا سکتے ولید نے جواب دیاکہ میں حضرت حسین کے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگ سکتا۔

حضرت حسین کا مکہ کا سفر
حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید کی موروثی بادشاہت قبول کرنے کو تیا ر نہ تھے لیکن بیعت کے بغیر مدینہ میں رہنا بھی مشکل تھا۔عراق کے شیعان علی ،ان کا میلان آپ کی طرف تھا اس لیے آپ بڑی کشمکش میں تھے۔ اس لیے محمد بن حنفیہ سے مشاورت کے بعد شعبان 60 ھ کو مع اھل و عیال کے مکہ روانہ ہوگئے۔راستے میں ایک محب اھل بیت عبد اللہ بن مطیع سے ملے تو انھوں نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ آپ نے فرمایا مکہ جاتا ہوں مطیع نے عرض کیا مکہ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن خدا کیلئے کوفہ کا قصد مت کیجئے گا وہاں کے لوگ بڑے غدار ہیں آپ حرم کا گوشہ ہر گز نہ چھوڑیے۔آپ نے مکہ میں شعب ابی طالب میں قیام فرمایا۔

اھل کوفہ کے خطوط

عراق کے شیعان علی ابتداء سے ہی امیر معاویہ کے خلاف تھے ۔ان کی وفات کے بعد انہوں نے خلافت اھل بیت میں منتقل کرنے کی کوشش کی اور حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہکے مکہ پہنچنے کے بعد آ پ کے پا س بلاوے کے خطوط لکھے پھر عمائد کوفہ سے خود آ کر کوفہ چلنے کی درخواست کی آپ نے اپنے چیچیر ے بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کی خبر لینے بھیجا جس کی اطلاع کوفہ والوں کو خط کے جواب میں دی اور لکھا کہ اگر تم لوگ واقعی میں خلافت پر متفق ہو تو مسلم وہاں کے حالات دیکھ کر مجھے اطلاع دیں گے اور میں فورا آ جاوں گا
یہ خط لے کر مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے اور مختار بن ابی عبید کے گھر قیام کیا ان کی آمد کی خبر سن کر ان کے پاس شیعان علی کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
عبید اللہ بن زیاد کی آمد:
حالات ہر طرح سے کنڑول میں تھے کہ یزید کے جاسوسوں نے دمشق اطلاع بھیجی کہ مسلم بن عقیل کوفہ آگئے ہیں اور لوگوں کو بر گشتہ کر رہے ہیں۔اگر حکومت کی بقا منظور ہے تو فورا اس کا تدارک کیا جائے۔ اس اطلاع پر یزید نے عبید اللہ (والی بصرہ) کو حکم بھیجا کہ کوفہ جا کر جس طرح ممکن ہو مسلم کونکال دو یا انہیں قتل کر دو ۔یہ حکم پا کر وہ فورا کوفہ پہنچا اور اھل کوفہ کے سامنے تقریر کی ۔
’’پاشند گان کوفہ! امیر المومنین نے مجھے تمہارے شہر کا حاکم مقرر کرنے بھیجا ہے اور مظلوموں کے ساتھ انصاف،مطیع و فرمانبردار کے ساتھ احسان و سلوک اور نا فرمانوں کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا ہے میں اس حکم کو پورا کروں گا‘‘ (ابن اثیر جزری، الکامل فی التاریخ)
ان انتظامات کو دیکھ کر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے ایک دوسرے محب اھل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں منتقل ہو گئے یہاں پر بیعت کا سلسلہ جاری رہا اور اٹھارہ ہزارکوفیوں نے مسلم بن عقیل کے ہا تھ پر بیعت کر لی انہوں نے حضرت امام حسین کو لکھ بھیجا کہ حالات موافق ہیں آپ فورا تشریف لائیے۔ادھر عبید اللہ بن زیاد امام مسلم کی تلاش میں تھا۔ اس نے بہت ڈھونڈا لیکن امام مسلم نہ ملے تآخر اس نے بھیس بدل کر ایک شخص سے پتہ چلا یا کہ امام مسلم کہاں ہیں۔ اس نے اس گھر کے مالک کو گرفتار کر کے اس سے امام مسلم کو دربار بلانے کو کہا اور وہاں مسلم نے اٹھارہ ہزار لشکر کے ساتھ عبید اللہ کے دربار کا محا صرہ کر لیا۔عبید اللہ کو ان حالات کا علم ہو ا تو اس کے پاس سامان جنگ نہیں تھا۔اس لئے اس نے اعلان کر دیا کہ مسلم کے ساتھ جو لوگ آئے ہیں ان کے رشتہ دار ان کو لے جائیں ورنہ بہت سختی سے پیش آوں گا۔اس اعلان کے بہت سارے لوگ اپنے لوگوں کو لے گئے توامام مسلم کے پا س صرف تیس لوگ رہ گئے ۔اس کے بعد عبید نے اپنے کارندے بھیج کر دربار میں امام مسلم کوبلایا وہ اس کو جان کی حفاظت کی ضمانت دے کر لے گیا لیکن اس نے مسلم بن عقیل کو قتل کر دیا ۔

حضرت امام حسین کی مکہ سے روانگی
مسلم بن عقیل کا پیغام پا کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے روانہ ہوئے ۔اھل مکہ نے آپ کو بے حد سمجھایا اور روکا کہ کوفہ نہ جائیں ۔آ پ رضی اللہ عنہ کے تمام احباب نے آپ کو سمجھایا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر عراقیوں نے شامی حکام کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کر لیا ہو تو بے شک جاو اور اگر مخالفین کی حکومت قائم ہے تو یقین مانو کہ عراقیوں نے تم کو محض لڑنے کیلئے بلایا ہے ۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نہ مانے تو حضرت ابن عباس نے کہا کہ آپ اھل و عیال کو ساتھ لے کے نہ جائیں ۔لیکن خیر خواہوں کی ساری کوشش بے کار گئیں۔
60 ھ کو مع اھل و عیال کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے ۔راستے میں آپ کو اپنے قاصدوں کی جنھیں آپ نے کوفہ کے حالات کی خبر لینے بھیجا تھا ۔ان کے قتل کی اطلاع ملتی رہی ۔
آگے ایک مقام ذی حثم میں حر بن یزید تمیمی ایک ہزار سپاہ کے ساتھ جسے ابن زیاد نے حضرت امام حسین کو گھیرنے بھیجا تھا ملا اور اس نے بتایا کہ عبید اللہ بن زیاد نے حضرت حسین کو گھیر کر لانے کو کہا ہے یہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے قافلہ لوٹانا چاہا ۔حر نے روکا دونوں میں تیز گفتگو ہوگئی لیکن حر نے آپ کے مرتبہ کا پورا لحاظ رکھا اور ساتھ چلنے کو کہا اور عرض کیا کہ اگر میرے ساتھ نہیں چلے تو ایسا راستہ اختیار کیجیے جو عراق اور حجاز دونوں کے راستے سے جدا ہو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئے ۔
خطبہ
مقام بیضہ میں حضرت امام حسین نے ایک پر جوش خطبہ دیا
’’لوگو!رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ،محرما ت الہی کو حلال کرنے والے ،خدا کے عہد کو توڑنے والے،اللہ اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولا و عملااس پر غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کواس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کر دے‘‘۔
کربلا میں ورود:
حر نے ابن زیاد کے حکم کے مطابق حضرت حسین کے لشکر کو چٹیل میدان میں اتارا جہاں کوئی اوٹ اور پانی نہ تھا(ا س سے پہلے جب حر نے لشکر کے ساتھ آپ کو گھیرنے کی کوشش کی تو حضرت حسین نے لوگوں سے جو آپ کے ساتھ تھے کہا کہ جو جانا چاہتا ہے ا سکتا ہے ارد گرد سے آئے لوگ واپس چلے گئے اور صرف وہ جانثار رہ گئے جو آپ کے ساتھ آئے تھے )3 محرم کو عمر بن سعد چار ہزار فوج لے کر کربلا پہنچا۔یہ امام حسین کا قریبی ساتھی تھا لیکن حکومت کے طمع میں ابن زیاد کے ساتھ تھا ۔اس نے حضرت امام حسین سے پوچھا آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔تو آپ نے فرمایا کوفیوں کے بلاوے پر آیا تھا اب واپس جا رہا ہوں تو اس نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ حسین واپس جا رہے ہیں تو ابن زیاد نے کہا کہ ان سے بیعت لے لو۔حضرت امام حسین نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو بخوشی جانا چاہے اس کو جانے کی اجازت ہے۔لیکن کوئی نہ گیا ۔حر بن یزید تمیمی عراقیوں کا ساتھ چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہو گئے ۔
جنگ شروع ہو گئی ایک ایک آدمی میدان میں آیا اور حسینی فوج کے چند آدمی شہید ہو گئے ۔اس کے بعد عام جنگ شروع ہو گئی دوپہر تک حضرت امام حسین کے بہت سے ساتھی میدان میں آکر محنت اھل بیت کا ثبوت دیتے ہوئے شہادت کا رتبہ پا چکے تھے ۔ان کے بعد باری باری سے حضرت علی اکبر ،عبد اللہ بن مسلم ،جعفر طیار کے پوتے عدی اور دیگر جانثار آئے اور شہید ہو گئے ۔اب حضرت امام حسین بالکل خستہ اور نڈھال ہو چکے تھے ۔پیاس کا غلبہ تھا فرات کی طرف بڑھے ،پانی لے کر پینا چاہتے تھے کہ تیر آیا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔عراقیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا اور آپ کو شہید کر دیا گیا۔
یہ حادثہ عظمی 10 محرم 61 ھ مطابق ستمبر 681 ء میں پیش آیا ۔شہادت کے دوسرے دن غاضریہ والوں نے شہداء کی لاشیں دفن کیں ۔حضر ت حسین کا جسد مبارک بغیر سرکے دفن کیا گیا ،سر ابن زیاد کے ملاحظہ کیلئے کوفہ بھیج دیا گیا ۔
اس طرح سے محض اقتدار کی خاطررسول اللہ کے محبوب ترین نواسے کو قتل کردیا گیا۔اس واقعہ سے بہت تلخ اسباق حاصل ہوتے ہیں ۔حضرت حسین نے بادشاہی نظام کو قبول نہ فرمایا اور غیر اسلامی شعار کو قبول نہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی ۔اور سبق دیا کہ حضرت حسین اسلام کی سر بلندی کے لئے جان دے سکتے ہیں تو عام مسلمانوں پر تو یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی کیلئے جان دینے سے بھی گریز نہ کریں اور اقتدار کابھوکا شخص کس کا بھی خون بہا سکتا ہے حتی کہ نواسہ رسول ﷺ کا بھی ۔امت مسلمہ کو اس وقت جو چیز شب سے زیادہ یا درکھنے کی ہے وہ یہ کہ اتحاد امت میں ہی بقا ہے ۔کوئی مسلمان اپنے آپ کو غیر مسلم ممالک میں محفوظ نہ سمجھے وہ آ پ کے کچھ نہیں لگتے ۔جب بھی مسلمانوں پر مصیبت آتی ہے ۔مسلمان ہی مسلمان کا بازو بنتا ہے ۔اس لئے جہاد کا دامن کسی صور ت نہیں چھوڑناچاہیے یہ اسلام کی بقاء کی ضمانت ہے۔