517

جہالت زندہ باد ۔

ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب ملک میں گنے چنے مخصوص لوگوں کو یہ مقام حاصل ہوتا تھا کہ لوگ اُن کی بات غور سے سنتے اور ان کے نظریات یا تجزیات کو اہمیت دیتے تھے۔

موجودہ جمہوریت نے تجزیات پر ماہرین اور مدبرین کی اجارہ داری ختم کر دی ہے اور اس خلا کو پُر کرنے کے لئے ایسے ایسے ’’نابغے‘‘ میڈیا پر چھا گئے ہیں جن کے تجزیات سُن سُن کر نہ صرف تجزیات کی بصیرت سے اعتماد اٹھ گیا ہے بلکہ طبیعت بھی اچاٹ ہو گئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض میڈیا ماہرین نے اپنی اہمیت یا نرگسیت کی تسکین کے لئے متوازی چینل کھول لئے ہیں۔

متوازی چینلز سے مراد سوشل میڈیا ہے جس کے دروازے ہر ایرے غیرے پر کھلے ہیں۔ جس کا جی چاہے لایعنی گفتگو کرے، سچ کے نام پر جھوٹ بولے، تاریخ کا قتل عام کرے اور ایسے ایسے الہامی تجزیے پیش کرے جیسے اسے سچ مچ کا الہام ہوتا ہے اور صرف وہ ہی خفیہ حقائق کا ادراک رکھتا ہے۔ کام آسان ہے کہ آپ کمرے میں بیٹھ جائیں اور ’’واہی تباہی‘‘ گفتگو پر مشتمل وڈیو تیار کر کے میڈیا پر ڈال دیں۔

وہ خود بخود سفر طے کرتی ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جائے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کا اعلان کیا تو ان حضرات کی عید یا چاندی ہو گئی۔ درجنوں وڈیوز میڈیا پر نمودار ہو گئیں جن میں رنگ برنگ تجزیات، افسانوں، سازشوں اور ’’اندرونِ خانہ‘‘ رازوں کا بازار سجا دیا گیا تھا۔ ان وڈیوز میں دھڑا دھڑ ایسی پیش گوئیاں کی گئی تھیں جنہیں سن کر میں عبرت حاصل کرتا رہا اور اپنے وقت کے ضیاع کا رونا روتا رہا۔

تخیل کی اڑان کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ آپ اپنے گھر بیٹھے کئی براعظموں کا نظارہ کر سکتے ہیں، نقب لگا کر اور چوری چوری ملاقاتوں کے بھید بھی جان سکتے ہیں۔ فنڈز کہاں سے آئے، کس نے سازش کی اور کس نے تھپکی دی، کون اس سے کیا مفادات حاصل کر سکتا ہے،

یہ سارے راز ہائے سربستہ گھر بیٹھے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو ہاتھ جوڑ کر کھڑے نہیں ہوتے وہ الہام کے ذریعے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تخیلاتی وڈیوز تیار ہو کر سوشل میڈیا کی رونق بڑھا دیتی ہیں اور صاحبانِ تجزیات کی اہمیت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے وہ وڈیو سب سے زیادہ دلچسپ تھی جس میں ایک معروف تجزیہ کار نے اپنے ’’ناقابلِ‘‘ اعتماد ذرائع کے حوالے سے ’’پختہ‘‘ اعلان کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کوایک اہم شخصیت نے فقط 24گھنٹے دیئے ہیں اس لئے مولانا کل اپنا میلہ ختم کرکے آزادی مارچ کا رخ کسی اور طرف موڑ دیں گے۔

مزے کی بات ہے کہ اس کے بعد بھی مولانا وہاں ایک ہفتہ سے زیادہ براجمان رہے، اپنے یرغمالی سامعین کو گرماتے اور شرماتے رہے اور مختلف مہمان مقررین کو بلا کر مقابلہ تقاریر کرواتے رہے۔ اس سارے قضیے میں نہ مذکورہ شخصیات و حلقے ملوث تھے اور نہ ہی مولانا کو کسی کا الٹی میٹم موصول ہوا تھا۔

البتہ ایک دو بار جب مولانا نے ریاستی اداروں سے چھیڑ خانی کی تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایسا جواب دیا جسے پنجابی میں ’’منہ پننّا‘‘ اور اردو میں منہ توڑ جواب کہتے ہیں۔

اب مولانا اپنے آزادی مارچ کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے اور ملک کے مختلف حصوں میں سفر کرنے والے معصوم شہریوں کے لئے وبالِ جان بن کر محاورے کی زبان میں کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچ رہے ہیں۔ اُن کے کارکن کب تک شاہراہیں بند کرکے عام لوگوں کی بددعائیں لیں گے،

کب تھک ہار کر گھروں کو لوٹ جائیں گے اور کب روزانہ خرچے کا قحط اُن کے ابلتے جذبات پر برفباری کرے گا، یہ دنوں کا تماشا لگتا ہے نہ کہ مہینوں کا لیکن اس کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی کا فتویٰ ہے کہ مولانا واحد لیڈر آف دی اپوزیشن بن کر ابھرے ہیں اور مولانا نے مثالی انداز میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے دھاک بٹھا دی ہے۔

یہاں تک تو خیر روٹین کی بات ہے کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی مولانا کی دھاک سے فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اب تک اتنی سرمایہ کاری کر لی ہے کہ شاید انہیں ’’الو سیدھا‘‘ ہونے کی قوی امید بھی پیدا ہو گئی ہے۔ سیاست کا بنیادی اصول ہے کہ کسی چھوٹے بڑے حکمران کی نالائقی، کمزوری اور نااہلی دیکھ کر دوسرے امیدواروں کے منہ میں پانی کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔

میرے جاننے والے چوہدری پرویز الٰہی کے کئی خیر خواہ آج کل جناب عثمان بزدار کو دعائیں دے رہے ہیں جنہوں نے سوا سال کے اندر اندر دوسرے امیدواروں کی امیدوں کے باغ ہرے کر دیے ہیں۔

البتہ ایک راز پر صاحبانِ بصیرت میں ارتعاش پایا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب نے ٹی وی چینلوں میں چلتے چلتے فقرہ پھینکا ہے کہ اُنہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو کچھ دے کر اسلام آباد سے رخصتی پر راضی کیا ہے۔ کیا دیا ہے؟ اسے چوہدری صاحب امانت کہتے ہیں اور چوہدری صاحب نے زندگی بھر کبھی امانت میں خیانت نہیں کی، چاہے وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی امانت ہو یا زرداری صاحب سے مانگی ہوئی ملک کی نائب وزارتِ عظمیٰ مع وزارتِ خوراک ہو۔ میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے چوہدری صاحب کا یکطرفہ احترام ملحوظ خاطر ہے۔

چوہدری صاحب جسے امانت کہہ رہے ہیں اسے چوہدری صاحب کے گجراتی ووٹرز ’’کاکا‘‘ دینا اور اردو میں اِسے امید کے فریب میں مبتلا کرنا کہتے ہیں۔ نقد سودے کے عادی محض امید پر اکتفا نہیں کرتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ایسے کاریگر سیاستدان ہیں جو انگلی ٹیڑھی کر کے گھی نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ خفیہ محکموں کے خفیہ فنڈز جان لیوا امراض کے لئے مختص کئے جاتے ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی اور مولانا کی امانت کا بھانڈا بھی کسی دن اسی طرح چوراہے میں ’’پھوٹے‘‘ گا جس طرح مولانا کی امریکہ کو وزیراعظم بنانے کی درخواست کا راز فاش ہوا تھا۔ یہاں کوئی راز، راز نہیں رہتا لیکن اس سے کسی کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ جہالت زندہ باد!