754

جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ۔ جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں ۔

اگر آپ کسی کینٹ ائیریا ( چھاؤنی) کا وزٹ کریں۔ تو صفائی ۔ آئیڈیل سڑکیں ۔ پارکس ۔ ہسپتال ۔ جوگینگ ٹریکس ۔ پلے گراؤنڈز ۔بچوں اور خواتین کی پروٹیکشن ۔ سکون ۔ عزت نفس کی حفاظت ۔ سستا علاج ۔ معیاری اور سستی تعلیم کی سہولیات ۔ الغرض ہر آئیڈیل سہولت موجود ہے ۔

پتہ ہے کیوں ؟

اسلئے کہ وہاں آمریت ہے ۔

اب ذرا آئیے دوسری طرف ۔
ٹوٹی سڑکیں ۔ بند گٹر ۔ بڑے شہروں میں لاکھوں ٹن کچرا ۔ تجاوزات ۔ صحت و تعلیم کی سہولیات کا فقدان ۔ پلے گراؤنڈز ندارد ۔ تھانوں میں غنڈہ راج ۔ پٹوار کلچر ۔ آئے روز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ۔ بچے اور خواتین غیر محفوظ ۔ اقربا پروری اور کرپٹ مافیا کا راج ۔ بے ہنگم ٹریفک ۔ انصاف ندارد ۔ ہر بنیادی سہولت کا فقدان ۔

پتہ ہے کیوں ؟

اسلیے کہ کینٹ سے باہر جمہوری حکومت کا کنڑول ہے ۔

جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ۔
جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں ۔

اب سوال یہ بنتا ہے کہ “سول حکومت” کو کس جرنیل نے عوامی بہبود ۔ اور عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے سے روکا ہے ۔ کیا عوامی فنڈز GHQ سے SIGN ہو کر آتے ہیں ۔ کیا عوام سے متعلق پالیسیاں پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاستدان نہیں بناتے ؟ ۔

سیاستدانوں نے اس بات کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے کہ کرسی تک پہنچتے کیلئے شارٹ کٹ اور چور دروازے استعمال کرتے ہیں پھر انتظامی امور چلانے میں فیل ہونے اور اپنی بد دیانتیوں کو چھپانے کیلئے مداخلت کا شور ڈال دیتے ہیں ۔
یہ بات ذہن میں محفوظ کر لیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ انٹرنیشنل افیئرز بیرونی روابط دوست اور دشمن ملکوں کے معاملات ہنڈل کرنے میں مداخلت کرتی ہیں ۔ اور ان معاملات کا عوامی بہبود سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ۔
پوری دنیا کی حکومتیں انکی اسٹیبلشمنٹ ہی کنٹرول کرتی ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ انکے سیاستدان باکردار اور بےضابطگیوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے انہیں کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا ۔

وقت آ گیا ہے کہ سیاستدانوں سے انکی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جائے ۔ جو کارکردگی نہ دکھا سکے اسے جلد سے جلد کھڈے لائن لگایا جائے ۔

سول حکومت کا انفراسٹرکچر بدنظمی ۔ رشوت ۔ کرپشن ۔چوری۔ حق تلفی ہر لحاظ سے ایک کباڑ خانہ بن چکا ہے ۔ اسے درست کرنا جرنیلوں کا نہیں سیاستدانوں کا کام ہے ۔

انکی ” سول سپرمیسی اور جمہوریت کے راگ سن سن کر عوام اکتا چکی ہے ۔ یہ لوگ اب ہمیں کسی فوجی چھاؤنی کے برابر ” ڈکٹیٹر شپ” والی سہولیات ہی مہیا کر دیں تو زندگی میں ٹھہراؤ آ جائے گا ۔ جمہوریت کو تب انجوائے کر لیں گے جب انہیں خود جمہوریت کی سمجھ آ جائے ۔