174

جاوید میانداد۔ کرکٹ کا فیلڈ مارشل

کتاب کا عنوان ہی چونکا دینے والا ہے۔ ’’جاوید میانداد۔کرکٹ کا فیلڈ مارشل‘‘اس میں اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا مصنف محمدسجاد خان کا تعلق اسپورٹس جرنلزم سے ہے اور نہ ہی وہ کرکٹ کے حوالے سے مجید امجد مرحوم جیسے اعلیٰ پائے شاعر ہیں جنہوں نے ’’آٹو گراف‘‘کے عنوان سے جو پر تحسین طبع آزمائی کی اس کا مرکزی کردار کرکٹ میں اوول کے ہیروفضل محمود ہی ہیں۔ جو اپنی وجاہت اور شخصیت کے بانکپن میں اتنے سجیلے تھے کہ ساتھ ساتھ فاسٹ بولنگ کے جادو نے انہیں کرکٹ کے میدان کا ہیرو بنا دیا تھا۔ آٹو گراف بھی عجیب رابطہ ہے۔ جو بعض اوقات ایک ہی نظر میں ایسا کمال کر دیتا ہے جیسے نواب پٹودی اور شرمیلا ٹیگور کی پہلی ملاقات آٹو گراف کے ذریعے ہوئی تھی جو بعد میں شادی پر متنج ہوئی۔ اس وقت پٹودی بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔جاوید میانداد 1976سے 90کی دہائی تک پاکستان کرکٹ میں مرد بحران کے طورپر جگمگاتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاوید میانداد نے کمال کی کرکٹ کھیلی نت نئے ریکارڈ بنائے متعدد بار اپنی ٹیم کو مشکل سے نکالا۔ کرکٹ ان کے خون میں رچی بسی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ عمران خان کی کپتانی میں بھی جب میدان میں مشکلات کے سائے منڈلانے لگتے تو عمران میدان کی اسٹراٹیجی ان پر چھوڑ دیتے تھے۔ اگر کرکٹنگ مائنڈ کی بات کی جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ کرکٹنگ مائنڈ مشتاق محمد کا تھا۔ اور مشتاق محمد حقیقتاً اس حوالے سے جاوید کے گروتھے۔ لیکن سجاد خان کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے عظیم بلے باز جن میں حنیف محمد، ظہیر عباس، ماجد خان، انضمام الحق، سعید انور، یونس خان، یوسف جیسے کھلاڑی گزرے ہیں لیکن سجاد خان نے صلاحیت پرفارمنس ریکارڈز اعداد و شماراور کارناموں کے حوالے سے اس فہرست میں جاوید میانداد کو سب سے نمایاں جگہ دی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اس میں جاوید سے عقیدت کے ایک عوامی اظہار کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ فیلڈ مارشل کاخطا ب درجے کی بلندی کے استعارے کے طورپر استعمال ہوا ہے اوراس کی گواہی کے لئے سجاد نے حوالوں کے ڈھیر لگادئیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اسپورٹس خصوصاً کرکٹ کے حوالے سے کتابیں اس طرح نہیں لکھی گئیں جس طرح پاکستانی قوم میں کرکٹ کا جنون موجود ہے۔ہاں اس حوالے سے بہت پہلے ریاض احمد منصوری نے کرکٹر اور جناب منیر حسین نے اخبار وطن کا اجرا کر کے اس حوالے سے بڑا کام کیا تھا۔ میں ان دنوں جنگ میں ملازمت کرتا تھا۔ منیر حسین صاحب اور ہم نے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ کرکٹ کے متعلق ایک روزنامہ نکالا جائے۔ جاوید میانداد کو اس کا چیف ایڈیٹر اور نادر شاہ عادل کو اس کا ایڈیٹر بنایا جانا تھا۔ ۔ منیر صاحب نے ایک اشتہاری ٹیرف اس وقت کرکٹ کے ممتاز کمنٹیٹر جناب افتخار احمد کو بجھوادیا ۔ ان سے 50ہزار کے چیک بھیجنے کی درخواست کی گئی۔ انہوں نے پانچویں دن ایک لاکھ کا چیک بجھوادیا۔ لیکن ساتھ یہ شرط عائد کر دی کہ 50ہزار روپے آپ کے ٹیرف کے لئے اور 50ہزار اس بات کے کہ آپ اخبار نہ نکالیں۔ افتخار صاحب کا خیال تھا کہ پاکستان میں اسپورٹس کے روزنامے کے لئے زیادہ مواقع نہیں خیر وہ اخبار تو نہیں نکلا۔ میں نے جاوید میانداد کی زندگی کے بہت سے گوشے قسط وار سوانح عمری میں اجاگرکیے۔ یہ شاید 1985کی بات ہے، جاوید میانداد اس وقت اپنے کیرئیر کے عروج پر تھے۔ میں نے وہ تمام شائع شدہ مسودے جاوید میانداد کو دئیے کہ وہ ان تمام پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کر کے کتابی شکل دے سکتے ہیں لیکن مجھے یہ بات یاد ہے کہ میں 1992کے ورلڈ کپ میں کامیابی کے بعد عمران خان اور وسیم اکرم سے پوچھا تھا کہ اس وقت تک پاکستان کی کرکٹ میں سب سے زبردست بلے باز کون ہے؟ جاوید میانداد سے متعلق سجاد خان کی تصنیف 376صفحات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو لکھنے میں بڑی محنت کی ہے۔ اسکواش لیجنڈجہانگیر خان پر عالیہ رشید کی کتاب بھی پڑھنے کے قابل تھی۔ کرکٹ کو تو وہ کسی کرکٹر سے زیادہ سمجھتی ہیں۔ عبدالماجد بھٹی، عبدالرشید شکور، مرزا اقبال بیگ، یحییٰ حسینی، خالد محمود، اور دیگر ایسے بیشتر اسپورٹس رپورٹز ہیں جنہیں آپ چلتا پھرتا اسپورٹس انسائیکلو پیڈیا کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح ایک زمانے میں کرکٹ کے اعداد و شمار کے حوالے سے محترم گل حمید بھٹی کمپیوٹر مشین کے مانند تھے۔ کرکٹ پر چند ایک مختصر کتابیں عمر قریشی نے بھی لکھیں۔ عمر قریشی اور جمشید مارکر کانام پاکستان میں کرکٹ کمنٹری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ افتخار احمد اور چشتی مجاہد نے کرکٹ کمنٹری کو بام عروج پر پہنچایا تھا۔ سجاد خان نے جاوید کی پوری زندگی کا بہت ہی خوبصورت انداز سے احاطہ کیا ہے۔’’مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘ کے عنوان سے ابتدا کر کے انہوں نے پاکستان کے ورلڈ کپ میں شاندار اورتاریخی فتح اور آخری باب میں اعدادوشمار سے ان کی کارگردگی کا جائزہ لیا ہے۔ حیدر آباد کے نیاز اسٹیڈیم کے 280رنز کی دھواں دھار اننگز سے شارجہ کے چھکے تک جاوید کے کارناموں کے ڈھیر لگا دئیے ہیں۔ کرکٹ پر تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ کرکٹ میں بیٹنگ کا حسن دیکھنا ہو۔ تو پھر ظہیر عباس کے بیک فٹ پر حیران کن شاٹ، ماجد خان کے فرنٹ فٹ اسٹروک، انضمام الحق کی دفاعی ٹیکنک، حنیف محمد کا راہول ڈریوڈ کے مانند دیوار کی طرح ہر بولر کے سامنے جم جانے کی صلاحیت عمران کا دیو مالائی کردار، وسیم اکرم کی جادوگری اور آج کی کرکٹ میں بابر اعظم کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے۔گذشتہ 50سال کی تاریخ میں جن کھلاڑیوں کو سب سے زیادہ ذہنوں پر اثر انداز ہوتے دیکھا ان میں بولنگ میں ڈینس للی، بیٹنگ میں ویوین رچرڈ، فیلڈنگ میں جونٹی روڈز اور آل راؤنڈرز کی فہرست میں آئن بوتھم اور عمران خان دکھائی دیتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اپنے ہیروز کی زندگی پر ایسی بھر پور کتابیں لکھی جانی چاہئیں۔ نئے آنے والے کیلئے یہ انسپائریشن کا سبب بنیں گی ۔ سجاد خان اس زبردست کوشش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ کرے حسن رقم اور زیادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں