92

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298اے میں ترمیم

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298اے میں ترمیم
تحریر: سید اسد عباس

تعزیرات پاکستان جسے پاکستان پینل کوڈ بھی کہا جاتا ہے، تعزیرات ہند کا بغل بچہ ہے۔ تعزیرات ہند 1860ء میں برطانوی حکومت نے تشکیل دیا۔ اس قانون کو 1862ء میں نافذ کیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اس قانون میں بہت سی اسلامی دفعات کا اضافہ کیا گیا اور اسے تعزیرات پاکستان کا عنوان دیا گیا۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 کا تعلق توہین مذہب سے ہے۔ دفعہ 298 کے مطابق کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر کوئی لفظ کہنا، آواز نکالنا یا کوئی چیز سامنے لانا جرم ہے اور اس جرم کی سزا ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں قرار دیئے گئے۔ 1980ء میں دفعہ 298 میں آرٹیکل اے کا اضافہ کیا گیا، جس کے تحت مقدس شخصیات منجملہ امہات المومنین، اہل بیت، صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے بارے میں توہین کا اظہار کرنے پر سزا تین سال، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

1984ء میں اسی دفعہ میں مزید ترمیم کی گئی اور شق نمبر 298B شامل تعزیرات کی گئی۔ اس شق کے مطابق اسلام کی سر برآوردہ شخصیات کے لیے استعمال ہونے والے القابات، خصوصیات یا وصف کو احمدی استعمال نہیں کرسکتے۔ اس جرم کی سزا تین سال قید یا جرمانہ ہے۔ اسی برس احمدیوں کے حوالے سے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی دوسری شق 298C یہ تھی کہ احمدی اپنے مذہب کی تبلیغ اس انداز سے نہیں کرسکتے کہ جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، نیز یہ کہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کرسکتے۔ اس جرم کی سزا بھی تین برس قید اور جرمانہ قرار دیا گیا۔

ہم سب اس امر سے آگاہ ہیں کہ پاکستان میں قانون کا نظام عجیب و غریب ہے۔ یہاں قانون بندر کے ہاتھ میں ماچس کی مانند ہے۔ بندر کے ہاتھ میں ماچس یا استرا دے دیا جائے تو وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔ ہوا بھی ایسا ہی ہے، پاکستان میں دسیوں کیس ایسے ہیں، جس میں لوگوں کو جھوٹی گواہیوں کے تحت ان دفعات کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایسے بہت سے کیسز موجود ہیں، جن میں ان دفعات کا استعمال مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لیے کیا گیا ہے۔ تھانوں میں جائیں، آپ کو جھوٹی ایف آرز بھی ملیں گی اور ایک ہی جرم کے لیے کئی کئی دفعات بھی سامنے آتی ہیں۔ اس ملک میں اگر کسی کو پھنسانا ہو تو اس پر ایف آر کروا دو، پولیس کا نظام حرکت میں آئے گا اور پھر عدالتوں کے چکر۔ اس ملک میں کئی لوگ پھانسی کی سزا ہونے کے بعد بے قصور ٹھہرائے گئے اور کئی ایسے مقدمات ہیں، جن میں اثر و رسوخ والے مجرم باعزت بری ہوگئے۔

گذشتہ دنوں پاکستان کی اپوزیشن سے خالی قومی اسمبلی نےدفعہ 298A میں ایک ترمیم پاس کی ہے۔ یہ ترمیم جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا اکبر چترالی نے پیش کی۔ اس ترمیم کے اغراض و مقاصد کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کو مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298c کے تحت سزائے موت دی جائے گی اور یہ سزا حضرت محمدﷺ کی توہین کا مرتکب ہونے اور ایسے صٖفحات اور پوشیدہ پیغامات اپ لوڈ کرنے والے دشمن کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ سزائے موت کی وجہ سے توہین رسالت میں ملوث لوگوں کی شرح میں بہت کمی ہوئی ہے۔ اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ اور دیگر مقدس ہستیوں کی توہین کرنے سے نہ صرف ملک میں دہشت گردی اور انتشار کو فروغ دیتی ہے، بلکہ اس سے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ نے انتشار کو ’’فتنہ قتل سے بڑا جرم کہا ہے؟‘‘ مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 298 الف میں حضرت محمدﷺ کی ازواج مطہرات، خاندان اور صحابہ کرام کی توہین کرنے والے کو کم از کم تین سال کی سزائے قید اور معمولی جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ اس سادہ سی سزا کی وجہ سے مجرم سزا کے باوجود اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جبکہ یہ قابل ضمانت جرم ہے۔ لہذا اس سادہ سزا کی وجہ سے لوگ بذات خود مجرموں کو سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو تشدد میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جو لوگ حضرت محمدﷺ کی ازواج مطہرات، خاندان اور صحابہ کرام کی توہین کرتے ہیں، وہ نہ صرف ملک کی توہین کرتے ہیں بلکہ دشمن ممالک کی توجہ اس جانب مبذول کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے مجرم قومی سلامتی کے لیے مسلسل خطروں کا باعث بنتے ہیں۔۔۔۔ (نوٹ:متن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، غلطیاں بھی بدستور قائم رکھی گئی ہیں)

اس ترمیم میں درج ہے:
دفعہ 298 اے کے تحت درج سزا جو تین برس ہے، کو بڑھا کر کم سے کم دس برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز پیش کی گئی کہ ایکٹ نمبر پانچ بابت 1898، جدول دوم میں درج ذیل ترامیم کی جائیں: قابل ضمانت کو ناقابل ضمانت کیا جائے، سمن کو وارنٹ کیا جائے، تین برس سزا کو عمر قید کیا جائے، درجہ اول یا درجہ دوم مجسٹریٹ کو سیشن عدالت سے بدلا جائے۔

قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا بل اب سینیٹ میں جائے گا اور اس پر وہاں رائے شماری کے بعد اسے صدر پاکستان کی توثیق کے بعد باقاعدہ تعزیرات پاکستان کا حصہ بنایا جائے گا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 298A کے تحت سال 2020ء میں 42 مقدمات درج کیے گئے، جو تمام کے تمام شیعہ افراد پر قائم ہوئے۔ اس بل کے حوالے سے قانونی ماہرین کی تو جو رائے ہے، سو ہے، اہل علم کا کہنا ہے کہ پہلے سے موجود دفعہ میں بہت سے سقم موجود ہیں۔ قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ توہین اور دیگر عناوین کی تعریف، اس کی حدود و قیود کو مشخص اور واضح کیے بغیر کسی قسم کی قانون سازی یکطرفہ اور متعصبانہ سوچ کو عوام پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ ترجمان نے چیئرمین سینیٹ اور سینیٹرز کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم ملک کی داخلی سلامتی کا ایشو ہے اور حساس ترین معاملہ ہے، امید ہے کہ اس پر آنکھیں بند کرکے منظوری نہیں دی جائے گی۔

بالفرض اگر یہ قانون سینیٹ سے بھی پاس ہو جاتا ہے تو ایمان ابو طالب علیہ السلام کے موضوع پر ہی سینکڑوں ناشروں، مقررین کے خلاف 298a کے تحت توہین اہل بیت کے ذیل میں مقدمات درج کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ و سنی کتب میں موجود روایات، اظہارات کو مدنظر رکھتے ہوئے توہین اور دل آزاری کے مقدمات کی بھرمار ہو جائے گی، جو ملک میں بے چینی اور خلفشار کا باعث بنے گی۔ یہ ترمیم ہمارے عدالتی نظام پر جو پہلے ہی مقدمات کے بوجھ سے کراہ رہا ہے، مزید بوجھ ڈال دے گی۔ پھر یہ کہ اگر قانون کے درست نفاذ کی کوئی امید ہوتی تو شاید قانون سازی قابل قبول ہوتی، تاہم جب تک ہمارے عدالتی اور تفتیشی نظام میں اصلاحات نہیں ہوتیں، کوئی بھی قانون بندر کے ہاتھ ماچس دینے کے مترادف ہی ہے، جو ملک کے کسی طرح بھی مفاد میں نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں