Asif Mahmood 87

برطانیہ برصغیر اور پاکستان (2) آصف محمود

برطانیہ برصغیر اور پاکستان (2) آصف محمود
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیا سین کے مطابق کارل مارکس کی یہ رائے درست نہیں کہ برطانیہ کے مظالم سے صرف نظر کر لیا جائے کیونکہ ا س نے برصغیر میں انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔امرتیا سین کے مطابق کارل مارکس کی اس رائے میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ سامراجیت یعنی کولونیلائزیشن کو گلوبلائزیشن سمجھ رہے ہیں جو درست نہیں ہے۔تاہم چونکہ برطانوی نوآبادیاتی نظام کے دفاع میں کارل مارکس کا یہ مضمون ایک بڑے حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس لیے یہ بات اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ اس نو آبادیاتی نظام کے فکری خدوخال متعین کرنے والی شخصیت کے بارے میں کارل مارکس کے خیالات کیا تھے : ایک جھوٹا شخص جو تاریخ کو اپنے مفاد کے دائرے میں دیکھتا ہے اور جسے جھوٹ بولنے میں ملکہ حاصل ہے۔ یعنی جب ہم نو آبادیاتی دور میں تشکیل پانے والی برصغیر کی فکر اور نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا شخص ہے جسے syestematic falsifier of History کہا جاتا ہے۔ لارڈ میکالے ان لوگوں میں سے تھے جو خواہش کو خبر بناتے ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے پانچ جلدوں پر مشتمل ’ تاریخ برطانیہ‘ لکھی تو اس میں بھی خواہشات کو تاریخ بنا کر پیش کیا۔ناقدین کے نزدیک یہ تاریخ کم اور ڈرامہ زیادہ ہے ۔ ڈرامے کے لوازمات کے طور جس کے خیالات سے لارڈ صاحب کو اختلاف ہوا اسے ولن اور برائی کا پیکر بنا دیا اور جس سے اتفاق ہوا اسے ہیرو بنا دیا۔ تاریخ برطانیہ یہاں ہمارا موضوع نہیں البتہ یہ نکتہ اہم ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ ، ان کے ماضی ، ان کی ثقافت اور ان کے علمی ورثے کے ساتھ بھی میکالے صاحب نے ایسا ہی کیا۔ لارڈ میکالے نے جب ہندوستان میں تعلیم کے حوالے سے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک کو اپنا 36 نکاتی پروگرام پیش کیا تو گویا انہوں نے ایک بار پھر اپنے ناقدین کی تائید کر دی۔ ان کے خیالات بتاتے ہیں کہ وہ کتنے متعصب اوریک رخے انسان تھے اور ان کے نتائج فکر کس قدر ناقص تھے۔لارڈ میکالے کا یہ میمورنڈم محض تعلیمی امور تک محدود نہ تھا بلکہ اس میں پورا ایک فلسفہ حیات تھا جو بتا رہاتھا کہ نو آبادیاتی نظام کے فیصلہ سازوں کی فکری گرہیں کتنی شدید ہیں۔ انہوں نے گورنر جنرل کو پیش کر دہ اس پروگرام کے پیراگراف نمبر 11میں لکھا کہ اردو ، سنسکرت اور عربی جیسی زبانوں کی کوئی حیثیت نہیں اور ان میں کبھی کوئی علمی کام نہیں ہوا۔ مشرقی لکھاریوں کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ انہوں نے صرف شاعری کی ہے اور عربی وغیرہ میں ہونے والی یہ شاعری بھی عظیم یورپی اقوام کی شاعری کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ پیراگراف نمبر 10 میں وہ لکھتے ہیں کہ انہیں عربی زبان کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ وہ عربی جانتے ہی نہیں۔ لیکن اپنی جہالت کے اس اعتراف کے باوجود اسی پیراگراف میں وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اردو ، عربی ، فارسی ، سنسکرت میں جتنا کچھ بھی لکھا گیا اس سب کی حیثیت ایک اچھی یورپی لائبریری کے ایک شیلف میں رکھی چند کتابوں سے بھی کم ہے۔ اس میمورنڈم کا پیراگراف 34بہت اہم ہے۔ اس میں وہ اپنے اس مقصد کو بیان کرتے ہیں جس کے حصول کے لیے وہ اردو ، عربی ، سنسکرت ، فارسی وغیرہ کی مکمل نفی کرتے ہوئے انہیں ناکارہ زبانیں قرار دیتے ہیں۔لارڈ میکالے لکھتے ہیں کہ ہمیں انگریزی زبان کے فروغ کے ذریعے ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہیے جو ہمارے اور ہماری لاکھوں کی رعایا کے درمیان رابطے اور ترجمانی کا کام کر سکے۔ایک ایسا طبقہ جو رنگ اور خون کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن جو اپنے ذوق ، اپنی فکر ، اپنے اصولوں اور اپنے فہم کے اعتبار سے انگریز ہو۔ یہ اتناا ہم نکتہ ہے کہ یہاں لارڈ میکالے کے اصل الفاظ نقل کرنا مناسب ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں: We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern, –a class of persons Indian in blood and colour, but English in tastes, in opinions, in morals and in intellect نو آبادیاتی قوانین اور کلچر کے ساتھ لارڈ میکالے کا پیدا کردہ یہی طبقہ ہے جو آج بھی ہمارے سماج کے لیے ایک آزار بنا ہوا ہے۔زبانیں ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہیں اور حصول علم کا بھی۔انگریزی کی مادی وجاہت اور افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ لیکن جب آپ دیگر زبانوں کو اس حقارت سے ٹھکرا دیں اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ آپ ایسے طبقے کے ظہور کی خواہش بھی کریں جو صرف انگریزی زبان ہی نہ بولتا ہو بلکہ جو اپنے ذوق ، اپنی فکر ، اپنے اصولوں اور اپنے فہم کے اعتبار سے انگریز ہو تو پھر یہ ایک علمی مشق نہیں رہتی ، یہ ایک پوری تہذیبی واردات بن جاتی ہے۔اسی کو امپیریلزم کہتے ہیں۔ جب ہم نو آبادیاتی دور کے اس فکری معمار کے خیالات کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ صاحب صرف متعصب ہی نہیں تھے یہ علمی بد دیانتی کا ارتکاب بھی کر رہے تھے اور جہالت بھی ان کے دامن سے لپٹی تھی۔اپنے اسی میمورنڈم کے پیراگراف 15میں وہ لکھتے ہیں کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے ایام میں قدیم یونانی اور رومن علوم میں سے جو کچھ کار آمد تھا وہ انگریزی میں ترجمہ کر لیا گیا اور اب باقی کسی زبان کی کوئی اہمیت نہیں۔ جو کچھ انسانیت کو درکار ہے وہ انگریزی زبان میں ہے۔ لیکن لارڈ میکالے نے یہ نہیں بتایا کہ یورپ تک یونانی علوم کس زبان میں پہنچے تھے؟ کیا یورپ کے ماہرین نے ان علوم کے تراجم براہ راست ہی کر لیے تھے یا پہلے مسلمانوں نے ان علوم کے عربی تراجم کیے تھے اور یورپ ان عربی تراجم سے فیض یاب ہوا اور عربی میں لکھے ان نسخوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا؟یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں جو فکری اور علمی تراجم ہوئے یہ یہاں سے آئے تھے۔ یہ علم یورپ تک جس زبان میں پہنچا وہ یہی عربی تھی جس کا کل علمی ذخیرہ اب لارڈ صاحب اپنے ایک شیلف سے کم درجے کا قرار دے رہے تھے۔ علم دنیا کا اجتماعی ورثہ ہے۔ کسی بھی زبان میں ہو۔ انگریزی زبان میں اس ضمن میں بلاشبہ اس دور میں بہت کام ہوا اور آج بھی اس کی حیثیت مسلمہ ہے ۔تاہم اس کا انکار نہ مطلوب ہے نہ موضوع۔ یہاں جو چیز زیر بحث ہے ، یہ وہ رویہ ہے جو اس نوآبادیاتی نظام کے پیچھے کھڑا تھاجس نے ہماری کمر دہری کر رکھی ہے۔اس رویے اور اس طرز عمل کو سمجھے بغیر ہم اس نوآبادیاتی نظام کی کرم فرمائی کو نہیں سمجھ سکتے۔ ( جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں