ایمان پرثابت قدمی۔
اور
فتنئہ قادیانیت۔
ایمان کی دولت مل جائے تو یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ایک بڑی نعمت ہے جو وہ اپنے بندے کو عطا فرماتا ہے۔دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ اس نے کئی بندوں کو اربوں کھربوں ڈالرز کی دولت عطاء فرمادی ہے اور وہ اس دولت کے ذریعہ دنیا کی ہر نعمت حاصل سکتے ہیں مگر وہ دولت ایمان سے محروم رہتے ہیں۔نتیجتا وہ ایک پرتعیش زندگی گزارنے کے بعد اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیےجہنم کی دہکتی آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
اس دنیا میں بے شمار ایسے بدبخت بھی ہیں کہ اللہ ان کو دولت ایمان سے منور فرماتا ہے مگر وہ دنیا کی لالچ مین آکر ایمان کو خیرآباد کہہ دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جھنم کی آگ میں اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں جھونک دیتے ہیں۔چند دن سے سوشل میڈیا پہ ایک خبر گردش کررہی ہے کہ بیس ہزار(20000)افراد نے قادیانیوں کے رہنماء مرزا مسرور کے ہاتھ پر بیعت کر کے جہنم خریدا ہے۔ساری دینا جانتی ہے کہ قادیانی کافر ہیں اور پاکستان کی پارلیمنٹ انہیں متفقہ طور پر کافر قرار دے چکی ہے مگر پھر بھی لوگ قادیانیت کی طرف جارہے ہیں۔اس لیے نہیں کہ وہ کوئی برحق مذہب ہے معاذ اللہ۔صرف اس لیے کہ وہ ڈالر دیتے ہیں وہ نوکریاں دیتے ہیں اور وہ لڑکیاں دیتے ہیں۔یہ صرف ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے،جب آخرت کا تصور دھندلا جائے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ختم ہوجائےتو پھر انسان ایسے فیصلے کرتا ہے جس میں اسے معاشی فوائد نظر آتے ہیں اور وہ دولت دنیا کے عوض اپنے ایمان کو بیچ ڈالتا ہے۔یہاں ایک اور فیکٹر بھی کارفرما ہے۔اگر حکومت عوام کی معاشی ضروریات کی کفالت نہ کرے تو لوگ مرتد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ تمام ادوار کی حکومت فتنئہ قادیانیت کی ہم نوا رہی ہیں۔
میرے دین کی تاریخ سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے واقعات سے لبریز ہے کہ بندہ گان خدا کو ایمان کے سوداگروں نے زر پیش کی کہ ہم سے جتنی دولت چاہیے لے لو دین چھوڑ دو،حکومتی منصب لے لو ایمان سے دستبردار ہو جاؤ اور خوبصورت لڑکی لے لو اور اپنے رب کو چھوڑ دو مگر قربان جائیں ان دین کے تراشیدہ ہیروں پر، انکی ایمانی چمک نے سب روشنیوں کو بے نور کردیا اور انکے ایمان کی روشنی سب پر غالب آگئی اور وہ کامیاب رہے ،انکی ایمان پر ثابت قدمی کے نقوش اتنے گہرے ہوئے کہ انکے ان ناقابل شکست کارناموں سے آج بھی لوگ متاءثر ہوکر ایمان کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔
آئیے..! آپکی خدمت میں ایک صحابی رسول کےایمان پر ثابت قدمی کاایمان افروز واقعہ پیش کرتے ہیں۔پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔علامہ عز الدین ابن اثیرابوالحسن علی بن محمد الجزری المتوفی 630ھ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ عکرمہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رومیوں نےایک صحابی رسول حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی کو گرفتار کر لیااور انہیں اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ان کے بادشاہ نے انہیں کہا کہ تم عیسائی ہوجاؤ ورنہ میں تمہیں پیتل کی بنی ہوئی گائے میں ڈال دونگا۔حضرت عبد اللہ نے کہا میں ایسا نہیں کرونگا۔پھر بادشاہ نے گائے کے ہیتل سے بنے ہوئے مجسمے کو منگوایااور اسکو تیل سے بھر دیا،پھر اسکو آگ سے گرم کرکے خوب کھولایا۔جب وہ خوب گرم ہوچکا تو ایک مسلمان قیدی کو بلایا اور اس سے کہا کہ عیسائی ہو جاو،اس عظیم مجاھد اسلام نے عیسائیت کو قبول کرنےسے انکار کردیا۔بادشاہ نے اس مسلمان قیدی کو کھولتے تیل میں ڈال دیاحتی کہ اسکے جسم کا تمام گوشت جل گیا اور اسکی ہڈیاں نکل آئیں۔یہ سارا منظر حضرت عبداللہ دیکھ رہے تھے۔اب بادشاہ حضرت سے مخاطب ہوااور کہا کہ تم عیسائی ہوجاو ورنہ تمہیں بھی اسی تیل میں ڈال کر بے نشاں کردوں گا۔حضرت عبداللہ نے کہا میں کبھی بھی اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت قبول نہیں کروں گا۔بادشاہ نے حکم دیا کہ اسکو گائے کے مجسمے میں ڈال دیا جائے۔یہ سن کر حضرت عبداللہ رونے لگے۔بادشاہ کی ڈیوٹی پر مامور لوگوں نے بادشاہ سے کہا یہ رو رہا ہےاور فریاد کررہا ہے۔بادشاہ نے کہا اسے واپس لاؤ۔بادشاہ نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت نے فرمایا: تم یہ مت سمجھنا کہ میں اس تیل میں ڈالے جانے کے خوف کی وجہ سے رورہا ہوں۔بادشاہ نے کہا :پھر کیوں رو رہے ہو؟۔حضرت نے فرمایا :رو اس لیے رہا ہوں کہ مجھے افسوس ہورہا ہے کہ میرے پاس اپنے رب کے دین پر قربان کرنے کے لیے بس صرف یہی ایک جان ہےجسے کھولتے تیل میں ڈالا جائے گا۔میں تو چاہتا ہوں کہ اے کاش میرے پاس میرے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں پھر تم مجھ پر مسلط ہوجاتےاور ان سب جانوں کو کھولتے تیل میں ڈال دیتے۔بادشاہ یہ بات سن کر سخت تعجب میں پڑ گیا۔حیران اور پریشان کہ یہ شخص کتنے عزم مصمم کا مالک ہے۔یہ وہ موقع تھا کہ جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی کے ایمان نے بادشاہ کی شقاوت قلبی کو شکست سے دوچار کردیا۔وہ سوچنے لگا یہ بہت خوبصورت جوان ہے اسکو کھولتے تیل میں نہیں ڈالتا۔اس نے کہا تم میرے سر کا بوسہ لو میں تمہیں چھوڑ دونگا۔حضرت نے کہا میں ایسا نہیں کرونگا۔پھر اس نے ایک اور پیش کش کی،اس نے کہا تم عیسائی ہوجاؤ میں تم سے اپنی بیٹی کی شادی کردوں گااور آدھا ملک تمہیں دے دونگا۔حضرت نے کہا کہ میں تمہارے سر کو بوسا نہیں دونگا۔ہائےہائے۔۔!!جن ہونٹوں نے مصطفے کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے مبارک ہاتھوں کو چوما ہو وہ کسی عیسائی کی پیشانی کو کب چوم سکتے ہیں۔انکار کردیا پھر اس نے ایک اور پیش کش کی اس نے کہااگر تم میرے سر کوبوسہ دوگے تو تمہیں آزاد کردونگا اور تمہارے ساتھ اسی(80) مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوں گا۔حضرت نے فرمایا: ہاں اب اس صورت میں تیرے ماتھے کو چوم لیتا ہوں۔حضرت نے اس کے سر کا بوسا لیا۔اس نے آپکو بھی رہا کردیا اور آپ کے ساتھ اسی مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کر دیا۔جب یہ مسلمان مجاھدین سیدنا عمر فاروق کے پاس پہنچے تو خلیفئہ وقت نے کھڑے ہوکر انکا استقبال کیا اور حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی کے سر کو بوسا دیا۔مسلمان حضرت عبد اللہ سے مذاق کرتے تھے کہ آپ نے ایک کافر کے سر کو بوسہ دیا ہے۔حضرت جواب دیتے تھے کہ میں نے صرف ایک بوسے کے عوض اسی مسلمانوں کو آزاد کرایا ہے۔ ( اسد الغابہ۔ج3،ص214، دارالکتب علمیہ۔بیروت)
ایک مسلمان کا ایمان ایساہی ہونا چاہیے۔اسے نہ موت کا خوف ہو اور نہ دنیاوی مال ومتاع کی لالچ۔یہ کیا ایمان ہے کہ لندن کا ویزہ، بیرون ملک کا بسیرا یا گرین کارڈ ایک مسلمان کے ضمیر کو خرید لےاور اسکے دین کو تباہ کردے۔اس دنیا میں تو سب چل جائے گا۔ مگر آخرت میں حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی اور آپ جیسے مسلمان ہی جنت الفردوس کے حقدار قرار پائیں گے۔علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ہماری خوب رہنمائی فرمائی ہے۔
ہے یاد مجھے نکتئہ سلیمانِ خوش آہنگ
دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے،شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنئ دانش فرنگ
کر بلبل وطاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے،طاؤس فقط رنگ
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی۔
1,366