134

ایف اے ٹی ایف شکریہ تحریک انصاف آصف محمود

ایف اے ٹی ایف شکریہ تحریک انصاف آصف محمود
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے۔ بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی عصبیت کے آزار سے بلند ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کے اس کردار کو تسلیم کیا جائے، جس نے اس فیصلے کو یقینی بنایا۔ اگر غلطیوں پر بے رحمی سے گرفت کی جاتی ہے تو سماج کے اہل فکر و سیاست میں اتنا ظرف بھی ہونا چاہیے کہ کامیابی پر تحسین میں بھی بخل سے کام نہ لیا جائے۔ تجزیے کا ترازو جب عصبیت کی بنیاد پر کسی طرف جھکتا ہے تو المیے جنم لیتے ہیں۔ چیزوں کی ترتیب ہمیشہ درست رہنی چاہیے۔
ہمارے ہاں ہر معاملے میں کریڈٹ لینے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک مریضانہ رویہ ہے تاہم یہ بھی کوئی صحت مند رویہ نہیں کہ کسی حکومت کی فیصلہ سازی قومی زندگی میں کسی اچھی خبر کا انتساب بن جائے تو اس کا اعتراف نہ کیا جائے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں بنیادی کردار تحریک انصاف کی حکومت کی فیصلہ سازی کا ہے۔
تحریک انصاف کے ناقدین اگر اس اعتراف کا بھاری پتھر اٹھا سکیں تو پھر ہم خیر سگالی کی اس راہ پر چل سکتے ہیں جہاں تمام قومی قیادت مل بیٹھ کر کسی مرحلے پر ایک میثاق معیشت پر دستخط کر سکتی ہے اور یہ طے کر سکتی ہے کہ اگلے بیس سال کے لیے ہماری معاشی پالیسی یہ ہو گی اور حکومتوں کے بدلنے سے اس پالیسی کے بنیادی خدو خال تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس سے سرمایہ کار میں وہ اعتماد جنم لے گا، جو پاکستان میں سرمایہ کاری کے راستے کھولے گا۔ لیکن اگر ہماری عصبیت ایک سیاسی فریق کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہے تو پھر میثاق معیشت جیسے خوابوں کو بھول جائیے، پھر صرف جنگ و جدل اور نفرت و ہیجان ہی سے معرکہ آرائی ہوا کرے گی۔
اگر موجودہ مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری عمران دور میں کیے گئے فیصلوں پر ڈالی جا سکتی ہے تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ عمران دور میں کیے گئے فیصلوں کو کیسے نہ دیا جائے؟ یہ عمران حکومت ہی تھی جس نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے، ملک پر عائد شرائط کو پورا کرنے کی کوشش میں قانون سازی کی اور اس پر تنقید کا بھی سامنا کیا۔ جس انداز سے یہ قانون سازی ہوئی، اس پر شدید تنقید ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی۔ لیکن اگر ہم اس فیصلہ سازی اور اس کے طریق کار پر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں تو اس کے نتیجے میں گرے لسٹ سے نکلنے پر اس کی کامیابی کا اعتراف کیوں نہیں کر سکتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کا سارا چیلنج تحریک انصاف کی حکومت نے نبٹایا، مذاکرات اسی نے کیے، ملک پرعائد شرائط اسی نے پوری کیں، قانونی اور انتظامی رکاوٹیں اسی نے دور کیں، قانون سازی (جیسے بھی کی) اسی نے کی۔ اس لیے اگر اس سب کے نتیجے میں کامیابی ملی ہے تو یہ بھی اسی کے نامہ اعمال میں لکھی جانی چاہیے۔ پی ڈی ایم جب سے اقتدار میں آئی ہے نہ ایف اے ٹی ایف کا کوئی اجلاس ہوا ہے، نہ اس سے کوئی نئے مزاکرات ہوئے ہیں، نہ کوئی نئی شرائط آئی ہیں، نہ حکومت نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کسی قسم کی کوئی نئی قانون سازی کی ہے۔ جو کام ضروری تھا وہ تحریک انصاف کی حکومت کر کے جا چکی تھی اور اب اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
یہ معاملہ محض کریڈٹ کا بچگانہ کھیل نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو میں اس میں کبھی نہ پڑتا۔ مگر میرے خیال میں یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔ حکومت پانچ سال کے لیے آتی ہے اور عمومی طور پر یہاں مدت پوری نہیں کر سکتی۔ قومی زندگی میں بعض فیصلے بہت دور رس ہوتے ہیں۔ ایک حکومت فیصلہ کرتی ہے اور نتائج آتے آتے وہ حکومت گھر جا چکی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر حکومتوں کے اچھے کام کی تحسین نہ کی جائے تو اس سے ایک نفسیاتی گرہ پڑ سکتی ہے جو بہت تباہ کن ہو سکتی ہے۔
وہ گرہ کیا ہے؟ وہ گرہ طویل المدتی کاموں سے انحراف ہے۔ ایسے میں پھر حکومتیں سوچتی ہیں کہ ایسے کام کرنے کا کیا فائدہ جن کے نتائج آنے تک ہم حکومت میں ہی نہ ہوں اور فائدہ کوئی اٹھا جائے۔ وہ پھر ایسے سطحی اور لایعنی کاموں میں توانائی ضائع کرتے ہیں جن کے نتا ئج چند مہینوں میں آ جائیں تا کہ اگلے الیکشن میں ان کی بنیاد پر ووٹ مانگے جا سکیں۔ قوم مگر طویل المدتی منصوبوں سے بنتی ہے۔ ایک حکومت زمین کاشت کرتی ہے، دوسری آکر بیچ بوتی ہے، تیسری پانی دیتی ہے، چوتھی اس کی نگہداشت کرتی ہے یہاں تک کہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حصول کا سفر اسی اصول کی عملی شکل ہے۔
اگر بھٹو یہ سوچتے کہ خدا جانے ایٹم بم کب بنے گا، اس وقت میں تو ہوں گا بھی یا نہیں تو مجھے کیا پڑی ہے دنیا کو ناراض کرنے کی تو کیا ہم یہ ہدف حاصل کر پاتے؟ چنانچہ جب مسلم لیگ ن 28 مئی کو یوم تکبیر مناتی ہے اور اخباری اشتہارات صرف نواز شریف صاحب کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں تو یہی سوال پیداہوتا ہے کہ بھٹو سے ضیاء الحق تک یہ لوگ کدھر گئے؟ وہ سائنسدان کیا ہوئے جن کے نام بھی کوئی نہیں جانتا مگر جو اس کے معمار تھے۔
کریڈٹ کا یہ معاملہ جب بحث اور جدل کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو یہ انتہائی بچگانہ اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے لیکن یہ کردار بہر حال تاریخ کی امانت ہوتے ہیں اور ان کی ترتیب درست نہ رکھنا اور کسی کے کردار کوتسلیم نہ کرنا، اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسلامی فقہ میں چیزوں کی ترتیب درست نہ رکھنے کو ظلم کہا گیا ہے۔ ہمارے اہل سیاست میں نہ کوئی گروہ شیطان ہے نہ ہی کوئی فرشتوں کی جماعت ہے۔ غلطیاں بھی سب سے ہوئیں اور اچھے کام بھی سب نے کیے۔
انصاف کا تقاضایہ ہے کہ غلطیوں کا جواز تلاش نہ کیا جائے ان پر تنقید کی جائے اور خوبیوں پر گونگا شیطان نہ بنا جائے بلکہ ان کی تحسین کی جائے، اسی سے مثبت مقابلے کی فضا پید ا ہوتی ہے ورنہ تو ہر گروہ کے مجاوروں کے خیال میں اس کے قائد محترم سے زیادہ بالغ نظرا ور دیانت دار آدمی دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا اور خیر صرف اس کے گروہ سے وابستہ ہے، باقی تو سب ابلیس کے فرزند ہیں۔
لیکن جن کے نزدیک چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا معیار سیاسی وابستگی اور نفرت نہیں بلکہ دلیل اور حقیقت ہے، کم از کم انہیں چیزوں کی ترتیب درست رکھنی چاہیے۔ یہ کوششیں بلاشبہ سب کی تھیں، یہ کامیابی بھی سارے پاکستان کی ہے۔ لیکن یہ کام تحریک انصاف کی حکومت کے ہاتھوں ہوا ہے اور اس عمل میں قانون سازی پر ساری تنقید بھی اسی نے برداشت کی ہے۔ اس لیے اس کام میں اس کے کردار کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں