867

ایران ۔ ایک جائزہ پیر سید مدثر نذر شاہ

ایران ۔ ایک جائزہ

پیر سید مدثر نذر شاہ
ایران کا انقلاب اپنے ساتھ داخلی اور خارجی چیلنجز سمیٹے ہوۓ آیا۔ آزاد منش قوم جو خطے میں اپنے ہمسائے آزاد تہذیب کی نمائندگی کی علم بردار تھی یک دم مذہب کی پابندیوں میں جکڑی گئی۔ بادشاہت سے مذہبی حکومت نے انتظامی طور پر تو کوئی خاص فرق نہیں ڈالا کہ احکام ظلِ الہی کی بجاۓاحکام الہی نافذ ہو گئے لیکن نفاذ کا انتظام بدل گیا۔
ہمساۓ مشکوک اور ایران ہمسائیوں پر مشکوک۔
امریکہ کا خطے میں مضبوط اتحادی جا رہا تھا تو اس کا غصہ اپنی جگہ اور چونکہ امریکہ شاہ کا اتحادی تھا تو نئی انتظامیہ کو شاہ کے بعد نفرت کے نشان کے طور پر مطلوب ضرورت امریکہ کی شکل میں میسر۔
پاکستان خود بھٹو کے بعد صدر ضیاء کے دور میں داخل ہو رہا تھا۔ اور شعیہ اکثریت پر حاکم صدام اس ایرانی تبدیلی کو جو انقلاب کے نام پر ہوئی اپنے لئے مستقبل کا خطرہ سمجھ بیٹھا۔
انقلاب ایران کی بین الاقوامی شناخت کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار انقلاب کے غیر ایرانی حامیوں نے ادا کیا۔ جنہوں نے امام خمینی کی انقلاب کو اسلامی انقلاب کے طور پیش کرنے کی ہر کوشش کو اس انقلاب کو شعیہ انقلاب ثابت کرکے ناکام بنا دیا۔
انقلاب کا تعارف اردگرد شعیہ انقلاب کے طور پر پھیلا جب کہ نئی انتظامیہ داخلی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف تھے اور جب تک وہ اپنے تعارف پر توجہ دے پاتے ان کی شعیہ انقلاب کی شناخت قائم ہو چکی تھی۔
پاکستان ،افغانستان ، عراق ، اور عرب ممالک میں موجود شعیہ تنظیمات نے اسے ایک آفاقی تبدیلی کی طرح محسوس کیا اور علماء بالخصوص ایران سے پڑھ کر آۓ ہوۓ، چھوٹے چھوٹے امام خمینی بن بیٹھے۔
معاشرورں میں اقلیتوں اور اکثریت کی یہ تبدیلی حکمرانوں نے محسوس کرنے میں دیر نہیں لگائی اور اس کا سدِباب کرنے کے انتظامات میں جُٹ گئے
ایران کی انقلابی انتظامیہ کو لگا کہ بیرونی دنیا میں موجود شعیوں کی انقلاب سے جذباتی وابستگی ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے وہ شاہ ایران کے اتحادیوں کو اپنے خلاف کسی کاروائی سے روکنے کیلئے دباو میں رکھ سکتے ہیں۔
اور ایک طبقہ انقلاب کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں غلطاں ہو گیا۔ جبکہ باہر لاتعداد چھوٹے چھوٹے خودساختہ امام خمینی اسے درآمد کرنے کو تیار بیٹھے تھے۔
عراق ایران کی جنگ چھڑ گئی۔ بین الاقوامی قوتیں ایران مخالف ہو چکی تھیں۔ قریبی ہمسائیوں میں افغانستان میں سرد جنگ کا گرم میچ شروع ہو چکا تھا۔ پاکستان میں ضیاء حکومت جمہوریت پسندوں سے پریشان اور افغان جنگ میں کردار کے حوالے سے مصروف اور اپنی مشرقی سرحد پر دشمن سے چوکنّے ہوتے ہوۓ ایران سے مکمل لاتعلق۔ ترکی معاشی اور سیاسی مسائل میں الجھا۔
سعودی عرب جہاں افغان جنگ میں بڑا سرمایہ کار بن کر سامنے آیا وہاں اس نے ایرانی اثرات کو کم کرنے کیلئے ایران مخالفت کو شعیہ دشمنی کے ماڈل پر رکھ کر اس میں بھی سرمایہ کاری کرنی شروع کر دی۔
ایک مکمل نئی سیاسی معاشی مارکیٹ وجود میں آ گئی۔ جہاں انقلاب ایران کی طلب و رسد میں اضافہ ہوا وہاں اسکے Counter کیلئے قائم شعیہ مخالف جذبات اور کاروائیوں کی بھی طلب اور رسد بڑھی۔
ایران سیاسی محاذوں پر الجھے ہوۓ روز بروز معاشی اہداف سے توجہ ہٹاتا چلا گیا اور ریاست کا نیا سٹرکچر انقلاب کے جذباتی سٹرکچر پر قائم ہوا اور چونکہ جذبات کو مخالف کی ضرورت رہتی ہے تو شاہ کے اتحادی امریکہ کی شکل میں بزرگ شیطان بنایا گیا اور اسرائیل کی شکل میں مستقل دشمن کھڑا کیا گیا۔
لیکن ریاست پر لگی مسلکی چھاپ نے ایران کو امریکہ و اسرائیل کے بڑے مخالفوں سے نہ صرف الجھا دیا بلکہ مقابل لا کھڑا کیا۔ جس نے بین الاقوامی پابندیوں کا جواز مہیا کر دیا اور ان پابندیوں کی مخالفت بھی نہ ہو پائی۔
ایرانی انقلاب چالیس سال گزرنے کے باوجود اپنے ثمرات شہری تک پہنچانے سے قاصر ہے کیونکہ آج بھی ایران کے معاشی وسائل محدود اور اسکی استعداد کار مفلوج کر دی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں ایرانی اقدامات ایک نئی سمت لئے ہوۓ ہیں۔ ایران روایتی سیاسی اور ثقافتی اثاثوں پر سے توجہ کم کررہا ہے۔ لوگوں کو براہِ راست ایران کو انکے انقلاب کو آمریت مخالف اقدام کے طور پر جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ بین الاقوامی سفارت میں بھی وزیر خارجہ ظریف تدبر کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ایران جلد اپنے ماضی کے مخالفوں سے بات چیت شروع کر دے گا۔ انقلابیوں کی اگلی نسل اب نوجوان قیادت کی شکل میں ابھر رہی ہے اور ان کے سامنے انقلاب کی بجاۓ ریاست کے چیلنجز موجود ہیں۔ دانش ، تدبر اور حکمت کے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ورنہ آنے والے دن گزرے ہوۓ دنوں سے زیادہ مشکل ہونگے