66

آئین، جمہوریت اور قوم کے ساتھ مذاق

آئین، جمہوریت اور قوم کے ساتھ مذاق
مظہر برلاس
پاکستان میں گزشتہ 11ماہ سے ایک ایسا کھیل جاری ہے جسے ملک و قوم ، آئین اور جمہوریت کے ساتھ مذاق ہی کہا جا سکتا ہے ۔ 11ماہ پہلے ہماری اسٹیبلشمنٹ سے وہی غلطی سرزد ہوئی جو 1971 میں ہوئی تھی ۔ اس وقت 81 سیٹوں والے بھٹو کو اکثریت کی نفی کر کے وزیراعظم بنا دیا گیا تھا ۔ اس مرتبہ بھی 55 سیٹیں رکھنے والے کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور اکثریت والے کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا ۔ پیسے کے منہ زور گھوڑے کے ذریعے رچائے جانے والے اس کھیل میں کیا لوگوں نے نہیں دیکھا کہ کس طرح 20 ارکان کو ہوٹل میں رکھا اورپھر انہیں سندھ ہاؤس منتقل کر دیا گیا ۔ کس طرح سرکاری افسر ان ارکان کا تحفظ کرتے رہے حالانکہ یہ ارکان ضمیر فروش تھے، بھگوڑے تھے یا لالچی تھے البتہ ان کے کردار بے وفائی میں ضرورلپٹے ہوئے تھے ۔ دراصل یہ وہ مرحلہ تھا جب زور اور زر اکٹھے ہوگئے تھے ۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا میں آج تک زور اور زر کی بنیاد پر حکومت کی گئی ۔ کبھی زر والا زور خرید لیتا ہے اور کبھی زور والا زر چھین لیتا ہے ۔ مگر یہاں تو دونوں طاقتیں اکٹھی تھیں ۔ جب زور اور زر اکٹھے ہو چکے تھے تو پھر ان کے سامنے بند کون باندھ سکتا تھا ؟ اس بارات میں مولوی، قاضی اور مافیاز سب شامل ہو گئے ۔ بکنے والے بھی عجیب تھے ان میں سے ایک خاتون مبینہ طور پروہ تھی جس کے دادا نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اسی ووٹ کی وجہ سے انڈیا کو کشمیر جانے کیلئے راستہ میسر آیا۔ 47میں تقسیم کے وقت صوبے تقسیم ہوتے تو دیکھے تھے مگر ضلعے اور تحصیلیں تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھیں مگر اس ایک ضمیر فروش کی وجہ سے ضلع گورداسپور تقسیم ہو گیا اور بھارت کو کشمیر کی طرف جانے کا مستقل راستہ مل گیا ۔ گزشتہ برس ضمیر فروشوں کے اس 20رکنی ٹولے میں ایک اور خاتون بھی شامل تھی جن کی شادی کے چند ماہ بعد پارلیمنٹ لاجز میں گولیاں چل گئی تھیں اور نوبت طلاق اور مقدمات تک پہنچ گئی تھی ۔ ایسا کیوں ہوا یہ کہانی پھر سہی ۔ 20کے اس ٹولے میں ایک پہلوان نما شخص بھی تھا ۔ اس شخص کا نام راجہ ریاض ہے ۔ یہ شخص پاکستان کی جمہوریت کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا کیونکہ بکنے کے بعد اس شخص کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا یوں پاکستان میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر ایک ہی کشتی کے سوار بن گئے ۔ وزیراعظم کا تعلق ن لیگ سے ہے جب کہ اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا امیدوار ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہماری جمہوریت ان 20اراکین کو دھکے دے کر پارلیمنٹ سے نکال دیتی اور عوام ان 20ضمیر فروشوں کو منہ نہ لگاتے ۔ عوام نے تو اپنا کام کر دکھایا مگر ہماری پارلیمنٹ اور جمہوریت کچھ نہ کر سکی۔ شاید اس کی بڑی وجہ زور اور زر کی پشت پناہی ہو ۔ ایک سادہ سی بات ہےکہ ہماری پارلیمنٹ بکنے والوں کو کوئی سزا ہی نہیں دیتی یہی جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے۔

یہ کیسی جمہوریت ہے جو جمہور کا خیال ہی نہیں کرتی جس میں ایک ضمیر فروش کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا جاتا ہے اور ہماری پارلیمنٹ اس کی رکنیت کو بحال رکھتی ہے ۔ یہ ووٹ کے ساتھ مذاق ہے اور قوم کی توہین ہے۔ قوم کے ساتھ 75برسوں سے مذاق جاری ہے ۔ ایک ہی فلم کے پردے تبدیل کئے جاتے رہے اور لوٹ مار کا کھیل جاری رہا۔ یہاں چند خاندان امیر سے امیر ترہوتے گئے اور ملکی عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے۔ اس کھلواڑ نے لوگوں کے ہاتھ خالی کر دیے اور گزشتہ گیارہ ماہ سے پرانے کھلاڑی( جو خود کو ماہرین بھی کہتے ہیں) لوگوں کے منہ سے آخری نوالہ تک چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لوگوں کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ہے ۔ لوگوں کے سروں پر غربت کی تیز چلچلاتی دھوپ ہے اور افسوس یہ ہے کہ سامنے کوئی شجر سایہ دار بھی نہیں۔ اس ملک کا وزیر خزانہ لوگوں کو سراب دکھا رہا ہے۔ بھلا وہ شخص لوگوں کیلئے کیا کر سکتا ہے جسے مبینہ طور پر جھوٹ بولنے پر آئی ایم ایف کی طرف سے 60لاکھ ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا اور وہ بھی قوم نے ادا کیا ۔ لوگوں کے بچے ہاتھوں میں ڈگریاں لئے کھڑے ہیں اور سامنے دہکتا ہوا الاؤ ہے۔ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل بڑے ہو گئےہیں۔ جب مجبوریوں کے سائے قد سےلمبے ہو جائیں تو پھر سامنے بپھری ہوئی لہریں نظر آتی ہیں، کوئی بھنور نظر آتا ہے، کہیں سرخ آندھی چلتی ہےاور کہیں کالی آندھی گھیر لیتی ہے۔

مگر صاحبو!اس بار قوم دھوکے میں آنے کیلئے تیار نہیں ۔ اس بار لوگ سراب کو سراب ہی سمجھتے ہیں ۔ اس بار تاریکی کو روشنی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ اس بار لوگ آگ میں جھلسنے کیلئے تیار نہیں بلکہ الاؤ بجھانے پر بضد ہیں خواہ اس میں جانیں ہی کیوں نہ چلی جائیں ۔ زور اور زر جسے بے عزت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تقدیر اسے قوم کے ذریعے عزت بخش رہی ہے ۔ حکمرانوں کی ہر چال الٹی پڑتی جا رہی ہے اور جسے نکالا گیا تھا اس کے راستے سیدھے ہوتے جا رہے ہیں ۔اس بار قوم جمہوریت کے نام پر مذاق برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ شعور آتے آتے 75 برس لگ گئے اب اس قوم کو دھوکا دینا مشکل ہو گیا ہے۔

ہمارے آئین کے پہلے چالیس آرٹیکل انسانوں کے بنیادی حقوق کی ترجمانی کرتے ہیں مگر افسوس کہ ان آرٹیکلز کو کبھی دیکھا ہی نہیں گیا۔ جس نے دیکھنے کی کوشش کی اسے نکال دیا گیا اور اقتدار کی چھری پرانے قصابوں کے ہاتھوں میں دیدی گئی۔انہوں نے 11مہینوں میں ہی قوم کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دی ہے۔ انہوں نے آئین کے ساتھ بھی مذاق شروع کر رکھا ہے۔ جب آئین میں درج ہے کہ الیکشن 90دن میں ہونگے تو پھر یہ لیت ولعل سے کام لینا ، بہانے تراشنا، بددیانتی کرنا، جھوٹ بولنا ، ظلم کرنا ، لوگوں پر تشدد کرنا آئین کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟ یہاں مشرق کی روایات تھیں مگر آڈیو ویڈیو سینٹرز ان کو بھی کھا گئے۔

صاحبو! حکمرانوں کی خواہشات اور لوگوں کا صبر دیکھ کر مجھے امیرِ کائنات حضرت علیؓ کا ایک فرمان یاد آ گیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں ’’ خواہشیں بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہیں اور صبر غلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے‘‘ ۔ پچھلے 11 ماہ کی حکمرانی کو دیکھ کر جالبؔ یاد آگئے

کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہو گا

جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں

یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں

کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں

یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے

کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں

اپنا تبصرہ بھیجیں