101

امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
گذشتہ سال امریکی کے پالیسی ساز حلقوں میں یہ بحث گرم تھی کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد مشرق وسطی سے جڑے مغربی مفادات بھی اب ختم ہونے جا رہے ہیں۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ امریکی صدر جو بائیڈن عنقریب ہی مشرق وسطیٰ کا ایک اہم دورہ کرنے والے ہیں جس میں علاقائی رہنماؤں، خاص طور پر امریکی شراکت داروں کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ وہ اب بھی واشنگٹن کے لیے ایک جغرافیائی اور سیاسی اہمیت رکھتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب روس اور یوکرین کی جنگ نے بہت کچھ بدل دیا ہے جس میں جو بائیڈن کی مشرق وسطیٰ کی خارجہ پالیسی کا رخ بھی شامل ہے۔اس دورے کا کلیدی لفظ توانائی ہے۔ یا زیادہ واضح طور پر، تیل۔ دنیا بھر کی طرح امریکی حکومت بھی چاہتی ہے کہ تیل کی عالمی قیمت کم ہو۔توقع ہے کہ اس دورے کے دوران وہ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تیل کی قیمتوں میں ممکنہ کمی سے روس پر دباؤ بڑھے گا اور گیس کی اونچی قیمتوں کا بھاری بوجھ ڈیموکریٹس کے کندھوں سے ہٹ جائے گا۔لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔اس دورے کے دوران، بائیڈن کو مختلف سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاملے سے لے کر ایران کے خلاف سیاسی اتحاد کی حوصلہ افزائی، فلسطینیوں کو مطمئن کرنے اور یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنے تک کے معاملات شامل ہیں۔
پہلا چیلنج: اسرائیل
جو بائیڈن اب تک دس بار اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہو گا جب وہ امریکہ کے صدر کے طور پر اس ملک جائیں گے۔ امریکی صدر کا دورہ بدھ (13 جولائی) کو شروع ہوگا جب وہ وزیر اعظم یائر لیپڈ سے ملاقات کریں گے۔اسرائیل میں امریکی صدر فلسطین سے تعلقات اور خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں گے۔دوسری جانب اسرائیلیوں نے امریکی صدر کے دورے کے دوران فوجی تنصیبات کے دورے کا ایک تفصیلی پروگرام مرتب کیا ہے، جس میں آئرن ڈوم اور آئرن بیم میزائل دفاعی شیلڈز کا دورہ بھی شامل ہیں۔آئرن بیم کی تنصیبات کا دورہ کروانے کی وجہ اسرائیل کی اس فضائی دفاعی ٹیکنالوجی کو امریکہ کو فروخت کرنے کی کوشش ہے۔اس کے علاوہ، بائیڈن I2U2 گروپ کے رہنماؤں کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جہاں انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید بھی ویڈیو لنک کے ذریعے موجود ہوں گے۔ اس طرح کے ایک گروپ کا خیال تقریباً نو ماہ قبل پیش کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد فوڈ سیکیورٹی اور بین الاقوامی تعاون قرار دیا گیا تھا۔اس دورے کے دوران جو بائیڈن سابق وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو سے بھی ملاقات کریں گے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی انتخابات میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا لیکن نتن یاہو اور امریکی ڈیموکریٹس کے درمیان کشیدہ تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور جو بائیڈن بھی اس عرصے کے دوران نیتن یاہو کی تنقید سے محفوظ نہیں رہے۔
دوسرا: فلسطین
سابق امریکی صدر کے برعکس، جو بائیڈن نے ظاہر کیا ہے کہ وہ اسرائیل فلسطین مسئلے کی پیچیدگی سے بخوبی واقف ہیں، اور اسی وجہ سے اچانک مفاہمت یا صدی کی ڈیل جیسے خیالات کی ان کی جانب سے توقع نہیں۔بائیڈن نے یہ بھی واضح طور پر کہا ہے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کی دو آزاد ریاستوں کی تشکیل کے خیال کی حمایت کرتے ہیں۔جو بائیڈن سب سے پہلے جمعہ (15 جولائی) کو مشرقی یروشلم کے ایک ہسپتال کا دورہ کریں گے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی کسی امریکی صدر نے پرانے شہر سے باہر مشرقی یروشلم کے علاقوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ ہسپتال ایک ایسی جگہ واقع ہے جسے فلسطینی اپنے ملک کا دارالحکومت سمجھتے ہیں۔اس دورے کے دوران، جو بائیڈن کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی ہسپتالوں کے نیٹ ورک کے لیے اہم امداد کی توقع ہے۔اس کے بعد وہ محمود عباس سے ملاقات کے لیے بیت المقدس جائیں گے۔ وہاں، یہ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالی امداد کا اعلان کر سکتے ہیں۔
تیسرا: ایران
جب جو بائیڈن صدر بنے تو توقع کی جا رہی تھی کہ تہران اور واشنگٹن کے تعلقات میں تیزی سے تبدیلی آئے گی۔اپنے دورے کے دوران جمعے کے دن جو بائیڈن سعودی عرب جائیں گے اور تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو گا کہ ایک امریکی صدر اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب کے لیے پرواز کریں گے۔سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کو یہ توقع ہے کہ مذاکرات میں ایران کا مسئلہ اٹھایا جائے گا۔اسرائیلی میڈیا نے علاقائی فضائی دفاعی اتحاد بنانے کے اقدام کی بھی بات کی ہے، جس کی سب سے پہلے اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوئم نے بھی منظوری دی۔ شاہ عبداللہ کے مطابق اس اتحاد کو فی الحال ابتدائی مذاکرات کی سطح پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔اگرچہ یہ توقع نہیں ہے کہ اس سفر کے دوران اتنے اہم اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا جائے گا، لیکن شبہ ہے کہ مذاکرات میں اسرائیلی وزیر اعظم اور عرب ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ اس نظریے کے اصول کو اٹھایا جائے گا۔اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کا بھی کہنا ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام میں پیش رفت ان کے لیے سنگین سیکیورٹی خطرہ بن گئی ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس دورے کے موقع پر سفارتی اقدامات اٹھائے ہیں جن کے تحت قطر، عراق اور عمان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے ہیں۔ میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ایرانی وفود نے عمان میں اعلیٰ مصری حکام سے بھی ملاقات کی۔
سعودی عرب
اگرچہ جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے سعودی عرب کا سفر نہیں کریں گے، لیکن بہت سے لوگ دونوں کے درمیان ملاقات کے منتظر ہیں۔ہفتہ (16 جولائی) کو جو بائیڈن اپنے سفر کے آخری سٹاپ پر خلیج فارس تعاون کونسل +3 کے رہنماؤں کے خصوصی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس کونسل کے ارکان (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور عمان) کے سربراہان کے علاوہ مصر، عراق اور اردن کے سربراہان اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدر ریاض میں کن اہم امور پر بات کریں گے، لیکن وہ پہلے ہی اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ ان کے دورے کا مقصد صرف تیل نہیں ہے اور ان کے پاس خطے کے لیے بڑا منصوبہ ہے۔اسرائیل سے سعودی عرب کے لیے ان کی تاریخی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے، توقع کی جاتی ہے کہ اسرائیلی تعلقات کو معمول پر لانا اس منصوبے کا حصہ ہو گا۔سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو بائیڈن کے لیے کبھی بھی مقبول شخصیت نہیں رہے۔ یہاں تک کہ سفر کے موقع پر، بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ وہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے ریاض نہیں جا رہے۔ تاہم دونوں کے درمیان ملاقات بائیڈن کے آنے والے سفر میں ایک اہم لمحہ ہو گی۔اس عرصے کے دوران، محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل اور یمن میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات جیسے مسائل کی وجہ سے امریکی میڈیا کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یوکرین کی جنگ سے پہلے بائیڈن محمد بن سلمان سے فون پر بات کرنے پر بھی راضی نہیں تھے۔اس پس منظر پر غور کیا جائے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اب شہزادہ محمد تیل کی پیداوار بڑھانے سمیت امریکی حکومت کی درخواستوں پر عمل کرنے میں کوئی جلدی نہ کریں۔ چند ماہ پہلے تک یہ تاثر تھا کہ سعودی ولی عہد وائٹ ہاؤس سے قربت کے طلبگار ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ رشتہ الٹا ہو گیا ہے اور ان کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ اس وقت واشنگٹن کو ان کی کتنی ضرورت ہے۔ایسی صورتحال میں محمد بن سلمان متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید کے ساتھ مل کر اپنے کارڈ کھیلنے میں محتاط رہنے کی کوشش کریں گے۔ تیل کے علاوہ، ان میں سے ایک اور کارڈ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا ہے۔
یمن کی جنگ
محمد بن سلمان کا ایک اور کارڈ یمن کی جنگ ہے۔ فی الحال، اگر جو بائیڈن اس سفر کے دوران یمن میں جنگ کے خاتمے کے امکان پر زور دیں، تو وہ ایک بہت اہم مقام حاصل کر لیں گے، جس کی ان کو ویسے بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔اگرچہ جو بائیڈن کو آخر کار ریاض جا کر توانائی کی قیمتوں میں کمی کا راستہ تلاش کرنا پڑا، لیکن یہ معاملہ وائٹ ہاؤس کے لیے بہت مہنگا پڑا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کو بہت سے حامیوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔محمد بن سلمان بھی اس سب سے واقف ہیں۔ یمن کی جنگ میں اب تک ان کو ایک ایسے سیاست دان کے طور پر دیکھا گیا ہے جو صنعاء میں حوثی حکومت کا تختہ الٹنے کے اپنے اصل مقصد کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔تاہم، محمد بن سلمان جن مراعات کے بدلے میں آگے بڑھ سکتے ہیں ان میں واشنگٹن کی جانب سے ایران کے خلاف حمایت حاصل کرنے سے لے کر سعودی خاندان کے روایتی ڈھانچے میں ان کی سیاسی حمایت میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق
اگرچہ امریکی حکومت کا اصرار ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار اس کے لیے بہت اہم ہیں لیکن جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے میں عمومی طور پر اس معاملے میں کسی قسم کی اہم پیش رفت کی امید نہیں کی جا رہی۔
الجزیرہ کی فلسطینی نژاد امریکی رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کی موت، جمال خاشقجی کا قتل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں جمہوریت کی طرف منتقلی جیسے معاملات پر مشکل ہے کہ، جو بائیڈن اور جن رہنماؤں سے وہ ملاقات کریں گے، ان کے درمیان کسی بھی قسم کی بات چیت ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں