137

افغان وزیرِ خارجہ او آئی سی اجلاس سے باہر کیوں؟

او آئی سی اجلاس میں وزیر کے بغیر طالبان وفد کی موجودگی کو اس طرح محسوس نہیں کیا گیا جس طرح امیر خان متقی کی دسمبر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔
پاکستان کی میزبانی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ 48 واں اجلاس میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دعوت کے باوجود شرکت نہیں کی۔

امیر خان متقی نے اسلام آباد میں افغانستان پر دسمبر میں ہونے والی او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ کابل سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق پاکستانی سفیر منصور خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے افغان وزیر خارجہ کو ’سپیشل گیسٹ‘ یعنی خصوصی مہمان کی حیثیت سے کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔

امیر خان متقی ترکی میں ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد کابل واپس لوٹ آئے تھے اور افغان وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق انہوں نے منگل (مارچ 22) کو کابل میں اقوام متحدہ کے دفتر کی ان چارج ڈیبورا لائنز کے ساتھ ملاقات بھی کی۔

اس ملاقات میں افغان وزیر خارجہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے اور ان کے رہنماؤں اور حکومت پر بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ متقی کے مطابق اقوام متحدہ میں افغانستان کا نمائندہ نہ ہونے سے ملک کے اندر اور باہر افغانوں کے حقوق تلف کرنے کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ افغان وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے نمائندے سے تو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انہوں نے خود کو اسلامی ممالک کے اہم فورم سے دور رکھا، جس میں افغانستان ایجنڈے پر ایک اہم موضوع ہے۔

افغانستان کے ساتھ امداد کے لیے او آئی سی کا ایک ٹرسٹ فنڈ قائم کرلیا گیا ہے، تنظیم نے کابل کے لیے اپنا نمائندہ بھی مقرر کیا ہے اور دسمبر کے او آئی سی اجلاس کے فیصلے کے مطابق اس تنظیم کے تحت علما کا ایک وفد افغانستان بھیجا جائے گا تاکہ دیگر معاملات کے علاوہ اسلام کے معتدل فکر سے متعلق طالبان قیادت کے ساتھ ڈائیلاگ کا آغاز کیا جاسکے۔

او آئی سی افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل، خواتین کی تعلیم اور دیگر حقوق کے احترام کا مطالبہ بھی کرتی آرہی ہے۔ یہ اور دیگر اہم معاملات پر طالبان اور او آئی سی کے مذاکرات وقت کا تقاضا ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا تکل کے مطابق کانفرنس میں افغان وفد کی قیادت وزارت خارجہ میں سیاسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ محمد اکبر عظیمی نے کی۔ وفد میں اسلام آباد کے افغان سفارت خانے کے ناظم الامور محمد شکیب بھی شامل تھے۔
وزیر کے بغیر طالبان وفد کی موجودگی کو اس طرح محسوس نہیں کیا گیا جس طرح امیر خان متقی کی دسمبر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔
طالبان کی جانب سے نچلی سطح کے وفد بھیجنے کو ان کی حکومت اور او آئی سی کے درمیان کسی حد تک خلیج یا بد اعتمادی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اگست میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کسی بھی اسلامی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرح او آئی سی میں بھی افغانستان کی سیٹ سابق حکومت کے پاس ہے، تاہم اجلاس میں سابق حکومت کے کسی نمائندے کو دعوت نہیں دی گئی۔

22 مارچ کو شروع ہونے اجلاس کے دوران افغانستان کی سیٹ خالی پڑی تھی اور اس پر افغانستان کا قومی جھنڈا بھی نہیں تھا، البتہ او آئی سی رکن ممالک کے جھنڈوں میں افغانستان کا قومی جھنڈا ضرور نصب تھا۔

طالبان نے قومی جھنڈے کی بجائے امارت اسلامی کے اپنے جھنڈے کو قومی جھنڈے کی حیثیت دی ہے اور صدارتی محل سمیت تمام سرکاری عمارتوں سے افغانستان کا قومی جھنڈا ہٹایا گیا ہے۔

اجلاس میں افغان وزیرِ خارجہ کی شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہے کہ طالبان نہیں چاہتے کہ ان کی حکومت کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنایا جائے جیسا کہ دسمبر میں شرکت کرنے والے متقی کی قیادت میں ہونے والے وفد پر تنقید ہوئی تھی۔
اصل میں دسمبر میں او آئی سی کے اجلاس کے بعد امیر خان متقی کی دوسرے مہمانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تصویریں تو سامنے آئی تھیں، مگر جب اجلاس کے اختتام پر تمام وزرائے خارجہ کی گروپ فوٹو لی گئی تو اس میں متقی شامل نہیں تھے۔ اس کے بعد طالبان کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس کے علاوہ اسلام آباد میں دسمبر 2021 میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں افغانستان کی نشست بھی طالبان حکومت کو نہیں دی گئی تھی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے ہال میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کی سیٹ خالی پڑی تھی اور افغان وفد پچھلی نشستوں میں دیگر وفود کے عہدیداروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جو میڈیا کی توجہ بھی حاصل نہ کرسکا۔

شاید اسی سے بچنے کے لیے طالبان نے فیصلہ کیا کہ اپنے وزیرِ خارجہ کو اجلاس سے الگ رکھا جائے۔

وجوہات جو بھی ہوں لیکن طالبان کو کانفرنس کے لیے اعلیٰ سطح کا وفد بھیجنا چاہیے تھا تاکہ دیگر ممالک کے وزیروں کے وفود سے دوطرفہ ملاقاتوں کا موقع اور براہ راست بات کرنے کا موقع ملتا۔ طالبان حکومت کو اس وقت دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہییں۔

وزیر اعظم عمران خان، سعودی عرب اور دیگر اہم ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ چین کے وزیر خارجہ نے بھی اپنی تقاریر میں افغانستان کے ساتھ امداد کی یقین دہانی اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔ اکثر وزرا کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے پر بھی زور دیا گیا۔

طالبان حکومت کے لیے یہ اچھا موقع تھا کہ اسلامی ممالک کی تشویش پر اپنے موقف کا اظہار کرتے۔ طالبان کو اپنے موقف میں نرمی دکھانی پڑے گی تاکہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے حمایت حاصل کی جا سکے۔

پاکستان اس وقت طالبان حکومت سے بین الاقوامی رابطوں پر زور دے رہا ہے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان پر بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک مستحکم افغانستان ہی افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال سے روک سکتا ہے۔

او آئی سی کے اجلاس میں وزیر کا نہ بھیجنے کا ایک اور سبب آج کل کچھ اہم معاملات پر طالبان کے آپسی صلاح مشورے بھی ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ طالبان کے رہبری شوریٰ کے اراکین اور سینیئر رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس آئندہ چند روز میں قندھار میں ہونے والا ہے، جس میں وزارتی سطح پر تبدیلیوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ اجلاس کی صدارت کریں گے۔

باظابطہ اجلاس سے پہلے طالبان امیر نے رہنماؤں کے ساتھ مشورے کیے ہیں اور اب شوریٰ کے اجلاس میں فیصلوں کا امکان ہے۔

کسی بھی ملک کی جانب سے تسلیم نہ ہونا طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان کا موقف ہے کہ عبوری حکومت کی بجائے ایک مستقل حکومت اور کابینہ کی تشکیل تسلیم ہونے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔

لیکن پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک کا مطالبہ ہے کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے۔ سابق صدر اشرف غنی نے منگل کو نوروز پر ایک پیغام میں طالبان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’چند افراد افغانستان کے حکمراں نہیں ہو سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان میں حکومتی نظام کو قانونی حیثیت نہ دی جائے، تب تک علاقائی اور بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں