412

افغان امن : اب یاپھرکبھی نہیں ۔۔۔

افغانستان کامستقبل ایک مرتبہ پھر انتہائی غیریقینی صورت حال سے دوچار نظرآتاہے۔ بین الافغان مذاکرات پچھلے دومہینوں سے تعطل کاشکار ہیں جس کاسب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ فریقین کے درمیان پرتشددکاروائیوں میں بے پنا اضافہ ہورہا ہے ۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو مارنے کی اطلاعات آرہی ہیں ۔ طالبان نے توحالیہ ہفتوں کے دوران اپنی کاروائیوں میں اتنی شدت لائی ہے کہ ملک کے کئی صوبوں میں انہوں نے زمینی اہداف حاصل کرلیے ہیں۔دیکھا جائے توپچھلے بیس برسوں کے دوران افغانستان پہلی مرتبہ ایک نہایت نازک موڑ پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔دوسری طرف افغان قضیے میں شروع دن سے دخیل امریکہ ماضی کی طرح بدستور اپنی منافقانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ بات اب ہر کس وناکس پر عیاں ہوچکی ہے کہ عیارامریکہ کوافغان حکومت اورنہ ہی طالبان عزیز ہیں بلکہ اپنے مفادات اس کی اولین ترجیح ہیں ۔آج سے انیس سال قبل اسی امریکہ کی کتاب میں طالبان خطے کے بدترین دہشت گرد اور تخریب کار تھے جبکہ افغان حکومت میں شامل لوگ امریکہ کے ہاں قابل رحم اورہر حوالے سے حق بجانب تھے۔ لیکن جاتے وقت اس کا پینترا بدلتا ہوا نظرآتا ہے ۔افغان حکومت اس کی نظر میں ملامت اور وہ طالبان اس کے منظور نظر بن گئے ہیں جو اس کی نظر میں دہشت گرد اور افغانستان کی تباہی کے ذمہ دار تھے۔اشرف غنی اس مکار دوست پر برہم کیوں نہیں ہونگے جس نے انہیںاس حد تک نظرانداز کردیاکہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہونے والے ایک تاریخی معاہدہ کرتے وقت بھی انہیں اعتماد میں لینا درخوراعتنا نہیں سمجھا ۔ دوسری طرف اس نے صدر اشرف غنی کو یہاں تک مجبور کیاکہ حکومت کی قید میں طالبان کے پانچ ہزار قیدی بھی ان سے رہا کروا دیئے ۔ ڈیڑھ مہینہ قبل نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے الٹا اپنے وزیرخارجہ بلنکن کے ذریعے صدر اشرف غنی کو ایک دھمکی آمیز خط بھی بھیجا جس میںانہیں متنبہ کیاگیا تھاکہ اگر مذاکرات میں مزید لچک نہیں دکھاتے توطالبان عنقریب افغانستان کے اہم علاقو ں پر قابض ہوسکتے ہیں ۔اس خط کا دوسرا اہم نکتہ ایک عبوری حکومت کے قیام کا بھی تھا جس کی صدر اشرف غنی شروع دن سے سخت مخالفت کرتے آئے ہیں۔دوحہ معاہدے کی رو سے امریکہ نے اپنی افواج کو طالبان کے حملوں سے محفوظ لیا تاہم معاہدے میں طالبان کو افغانوں کے ساتھ ایک مہینے کی جنگ بندی پر بھی راضی نہیں کیا۔ ایسی منافقت کے بارے میں ایک پشتو مقولہ یاد آیاکہ ’’ خپلہ ا خیر پر غونڈئی کشیناستو اور موژ ئی پہ جنگ سرہ اختہ کڑو‘‘ یعنی عیار منصف خود تو امن کے ٹیلے پر اطمینان سے بیٹھ گئے اور فریقین کے بیچ صلح کرنے کے بجائے الٹا انہیں جنگ پر اکسا رہا ہے ــ‘‘۔ حامد کرزئی لگ بھگ تیرہ برس ملک کے صدر رہے تاہم اپنے دور صدارت کے آخری برسوں میں بلکہ اس سے بھی پہلے کرزئی صاحب کو عین الیقین ہوگیا کہ امریکہ کا افغان وطن کے امن سے کوئی سروکار نہیں بلکہ یہ اس کے اپنے مقاصد ، مفادات اور اہداف ہیں ۔ دوہزار چودہ میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے حامد کرزئی نے ارگ میں اپنی الوداعی تقریر میںانہوں نے واضح طور پرامریکہ کے مذموم ایجنڈے کی مذمت کی تھی اور اس کو ناقابل بھروسہ قراردیا۔ اس کے علاوہ کرزئی نے متعدد دفعہ امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے بلکہ اسے خطے میں امن کے نام پر مزید بدامنی اور شورش کاسبب بننے والا نام نہاد مددگار قراردیا ہے۔ حامدکرزئی کے بعد اشرف غنی صدر بنے اور تاحال اس عہدے پر فائزہیں۔کون نہیں جانتا کہ کرزئی کی طرح اشرف غنی صاحب کو بھی اب یقین ہوگیا ہے کہ اس عظیم الجثہ ہاتھی کے کھانے کے دانت اور، اور دکھانے کے اور ہیں،البتہ یہ الگ بات ہے کہ اپنے پیشرو کی طرح اشرف غنی باامرَ مجبوری اس چالاک دوست کے خلاف زبان کھولنے سے احتراز کررہے ہیں۔ اشرف غنی کا دور حکومت افغان قضیہ کیلئے ایک ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے یوں اس نازک موڑ پرانہیںنہایت دانشمندی اور حکمت سے اپنے پتے کھیلنا چاہییں تاکہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کہیں پھر سے اغیار کو نہ کرنا پڑے ۔ ٹرننگ پوائنٹ اسلئے ہے کہ پچھلے سال دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا اور اشرف غنی ہی کے دور حکومت میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز بھی ہوا جو اب معطل ہوچکاہے۔ مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے امریکہ افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کا عندیہ بھی دے چکا ہے جو کسی طور بھی افغانوں کو قبول نہیں ہے ۔ عبوری حکومت کا تجربہ تیس سال پہلے اس وقت بھی کیاگیا تھا جب سرخ افواج افغانستان سے نکل گئیں۔ اس وقت کی عبوری حکومت نے افغانستان کو نہ صرف طویل خانہ جنگی میں دھکیل دیا تھا بلکہ ایسی بے سر وپا حکومت نے ملک میں مزید تباہی اوربیرونی داخلت کی راہیں ہموار کی تھیں۔ ایسی حکومت وار لارڈ اور اقتدار کیلئے برسوں سے ترستے مفاد پرست سیاستدانوں کا ایک ملغوبہ ہوگا جس کے نتیجے میںپچھلے بیس برسوں کے دوران بننے والاسسٹم باالخصوص دفاعی نظام ایک مرتبہ پھر شکست وریخت سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ بین الافغان مذاکرات کی بحالی اور دونوں اطراف سے جنگ بندی پر اتفاق کرنا اس وقت انتہائی ناگزیز ہے جس کیلئے طرفین کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے افغان حکومت جس طرح امریکہ کے بارے میں محتاط ہے اسی طرح اسے پاکستان کے بارے میں بھی سخت گیر موقف اپنا نے سے احتراز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ افغان میں امن کا قیام نہ صرف امریکی تعاون پر منحصر ہے بلکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر بھی بیل مینڈھے چڑھ نہیں سکتی ۔ پاکستانی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا حالیہ دورہ کابل افغان امن کے حوالے سے ایک اچھی پیش رفت تھی لیکن چند روز بعد افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی حمداللہ محب کی طرف سے پاکستان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات قابل افسوس تھے جوظاہر بات ہے کہ ایسے نازک موڑ پر اعتماد کے فضاکوآلودہ کرسکتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں