664

اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہی خدمات . محمد نادروسیم (ایم فل اسلامیات)

اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہی خدمات
محمد نادروسیم (ایم فل اسلامیات)
برصغیر کی سرزمین علم و حکمت کے حوالے سے ہمیشہ زرخیز ثابت ہوئی ہے۔یہاں عظیم علماءو مشائخ نے انسانیت کو نور الہی کی ضیاءسے آشنا کرنے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ان عبقری شخصیات کی صف اول میں ایک ایسی ہستی نظر آتی ہے جن کو اللہ تعالی نے بے پناہ علوم و فنون اور صلاحیتوںسے بہرہ ور فرمایا تھا۔عرب و عجم ان کو اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا بریلوی کے نام سے جانتے ہیں۔
آپ کی ولادت با سعادت بریلی شریف میں 10 شوال المکرم1272ھ کو ہوئی۔آپ کا اسم گرامی ”محمد“ ہے۔ اور آپ کے جدا مجد آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا کرتے اور آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے صغر سنی یعنی چار برس کی عمر میں قرآن مجید کا ناظرہ ختم کرلیا۔آپ کو خدادادذہانت حاصل تھی اسی وجہ سے چھ سال کے عمر میں ہی آپ نے بریلی شریف میں منعقدہ پروگرام موسوم بہ ”محفلِ میلاد النبیﷺ“ میں میلاد النبی کے موضوع پر ایک عظیم الشان خطاب فرمایا۔ پھر آپ نے اردو، فارسی اورعربی کی ابتدائی کتابیں مرزا غلام قادری بیگ سے حاصل کیں اور اکیس علوم کی تعلیم آپ نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے حاصل کی۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کے عمر میں یعنی 14 شعبان المعظم 1286ھ کو جملہ مروجہ علوم و فنون سے فارغِ التحصیل ہوئے اور ”العلماءورثة الانبیاء“ کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔ اسی دن آپ نے رضاعت کے متعلق پہلا فتوی لکھا، جواب بالکل درست تھا، والد ماجد علامہ نقی علی بریلوی نے خوش ہوکر فتوی نویسی کی اجازت دے دی اور مسند افتا پر بٹھا دیا۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت)
اعلی حضرت بطورعظیم فقیہ:
علوم و فنون علوم شرعیہ، قرآن حکیم، حدیث نبوی، فقہ، اصول فقہ، علم الکلام، سیرت، تصوف اور علمی میراث کے علاوہ امام احمد رضا کو 55 علوم پر دسترس حاصل تھی لیکن جس علم نے آپ کو شہرت دوام بخشی وہ علم فقہ ہے۔ اس علم میں حیات انسانی کے تمام پہلووؤں کے بارے میں روزمرہ پیش آنے والے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ کو فقہ اسلامی پر کامل عبور حاصل تھا آپ نے علوم شریعہ خصوصا فقہ اسلامی کا تقابلی مطالعہ کیا تھا جس کا عملی ثبوت ہمارے پاس العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ کی شکل میں موجود ہے۔جو علوم وفنون کے جواہر پاروں سے مزین ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی نظیر خطبہ فتاویٰ رضویہ ہے جس میں ائمہ مجتہدین و کتب فقہ کے تقریباً 90 اسمائے گرامی کو صنعت براعت استہلال استعمال کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لَڑی میں پرو دیا ہے کہ اللہ عز وجل کی حمد و ثنا بھی ہوگئی اور ان اسمائے مقدسہ سے تبرک بھی حاصل ہوگیا۔ اس خطبے سے مصنف کی فقاہت، قادر الکلامی اوروسعت علمی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
مولانا ابوالحسن ندوی آپ کے ہم خیال نہ ہوتے ہوئے بھی یہ اظہار خیال فرماتے ہیں۔
”جزئیات فقہ پر جو ان کو عبور حاصل تھا ان کے زمانے میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔“
جسٹس پیر کرم شاہ صاحب الازہری فرماتے ہیں۔
”ان کا دماغ روشن، ان کا دل منور تھا۔ کتب احادیث و فقہ پر گہری نظر تھی۔ تمام مسائل شرعیہ مع دلائل شرعیہ مستحضر تھے۔ ان کی فقہی نگارشات میں بکثرت ادب پارے ملتے ہیں۔ وہ دلائل و شواہد کے اتنے انبار لگا دیتے ہیں کہ قاری کا فکر و خیال پیاسا نہیں رہتا بلکہ سیر ہو جاتا ہے کہ پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگتی۔ ان کی فقہی تنقیدات بھی اعلی درجہ کی تحقیقات ہیں وہ جب فیصلہ کر لیتے ہیں تو پیچھے نہیں ہٹتے۔“
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال آپ کی علمیت و فقاہت اور قوت فیصلہ پر اظہار خیال فرماتے ہوئے کہتے ہیں۔
”ہندوستان کے دور اخیر میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا۔ مولانا ایک دفعہ جو رائے قائم کر لیتے تھے اس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے۔یقینا وہ دینی رائے کا اظہار بہت غور و فکر کے بعد کرتے تھے۔“
آپ کے ہاں ساری دنیا سے استفتاءاس قدر آتے تھے کہ کسی مفتی کے پاس اتنی تعداد میں فتوے آتے نہیں سنے۔ایک وقت میں پانچ پانچ سو استفتاءجمع ہو جایا کرتے تھے۔ خود امام رضا تحریر فرماتے ہیں۔
” فقیر کے یہاں علاوہ دیگر مشاغل کثیرہ و دینیہ کے کار فتوی اس درجے وافر ہے کہ دس مفتیوں کے کام سے زائد ہے۔ شہر و دیگر بلاد و امصار جملہ اقطار ہندوستان، بنگال،پنجاب، لیبار، برما ، ارکان، چین، غزنی و امریکہ، افریقہ حتی کہ سرکار حرمین محترمین سے استفتاءآتے ہیں اور ایک وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہو جاتے ہیں۔“
آپ کے فتاوی عربی، فارسی، اردو اور بعض فتوے انگریزی زبان میں ہیں۔ جس زبان میں استفتاءآتا اسی میں فتویٰ دیتے حتی کہ سوال منثور آیا تو جواب بھی نثر میں دیا سوال نظم میں آیا تو جواب بھی نظم میں دیا۔
شیخ ابو الفتح ابو غدہ ننے فتاوی رضویہ کا صرف ایک عربی فتوی مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے اورفرماتے ہیں۔
”عبارت کی روانی اور کتاب و سنت و اقوال سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر میں حیران ہو گیا اور ششدر رہ گیا اور اس ایک فتوی کے مطالعہ کے بعد میں نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے۔“
جسٹس محمد دین مرحوم (چیف کورٹ بہاولپور) جب ایک مقدمہ کا فیصلہ نہ کر سکے مفتیوں سے آٹھ فتوے لیے پھر بھی وہ مطمئن نہ ہو سکے تو انہوں نے ہدایت کی کہ پورا مقدمہ متعلقہ فتاوی کی نقول کے ساتھ امام احمد رضا کی خدمت میں پیش کیا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ:
”ان تمام فتاوی کو ملاحظہ فرمائیں اور ان سوالات حل طلب کے متعلق اپنی رائے کا مع استفتاءجواب تحریر فرما کر جلد مرحمت فرما دیں۔“
مشہور فقہی تصنیفات
یوں توفقہ کے میدان میں آپ کی بہت سی تصانیف ہیں اورآپکی تقریبا ہر کتاب میں فقہی ابحاث ملتی ہیں لیکن ہم یہاں چند کتب کا اجمالی ذکر کرتے ہیں۔
٭کفل الفقيه الفاهم فی أحکام قرطاس الدراهم
علمائے حرمین نے کرنسی نوٹ کے بارے آپ کو 12سوالات پیش کیے جو نہایت ادق تھے۔ محدث بریلوی نے چند روز میں ان سوالات کے جوابات میں ایک محققانہ اور فاضلانہ مقالہکفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم تصنیف فرمایا۔ جب یہ مقالہ مفتی شیخ عبداللہ صدیق نے ملاحظہ فرمایا تو دل کھول کر تعریف کی۔ یہ رسالہ پاک و ہند سے شائع ہو چکا ہے۔
٭أجلى الإعلام أن الفتوى مطلقا على قول الإمام
جہاں آپ نے ہزاروں فتاوی تحریر کیے وہیں فتوی نویسی کے آداب بھی بیان کیے ہیں۔ اس پر آپ نے درج ذیل رسالہ بھی تحریر کیا۔جس کانام ” أجلى الإعلام أن الفتوى مطلقا على قول الإمام ۔“رکھا اور اس رسالہ میں ثابت فرمایا کہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے امام کے قول پر کبھی فتویٰ نہ دیا جائے گا۔ بحرالرائق میں اس حوالے سے یہ بات موجود ہے:”ان العمل والفتویٰ ابداً بقول الامام الاعظم“۔آپ نے اسی کومدلل انداز سے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
٭فتاویٰ رضویہ :
”فتاویٰ رضویہ“اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان کی ذہانت و فطانت،تبحر علمی اور تفقہ فی الدین کا ایک عظیم الشان اور فقیداالمثال شاہکار ہے۔آپ نے اس کا نام امام ِ ”اَلعَطَایَا النَّبَوِیّة في الفَتَاوی الرضَوِیّة“ رکھا ہے، جو جدید تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہونے کے بعد تقریباً 22000 صفحات، 6847 سوالات و جوابات اور 206 تحقیقی رسائل پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہزاروں مسائل ضمنا زیر بحث آئے ہیں۔کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اب تک فقہِ حنفی کے فتاویٰ جات کاایسا جامع ،مبسوط مدلل اور مبرہن کوئی دوسرا مجموعہ مرتب نہیں ہوسکا۔33 مخرجہ جلدوں پر مشتمل اس فتاوی کو ہم بلا مبالغہ اردو زبان میں دنیا کا ضَخیم ترین فتاویٰ کہہ سکتے ہیں۔( فتاویٰ رضویہ اشاریہ،ص3)
بر صغیرکے ممتاز حنفی مذہبی اسکالر اور مورخ مولانا کوثر نیازی ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کو ”امام ابو حنیفہ ثانی“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:فقہ حنفی میں دوکتابیں مستند ترین ہیں۔ان میں سے ایک ”فتاویٰ عالمگیریہ “ہے جو دراصل چالیس علماءکی مشترکہ خدمت ہے جنہوں نے فقہ حنفی کا ایک جامع مجموعہ ترتیب دیا۔دوسرا ”فتاویٰ رضویہ“ ہے جس کی انفرادیت یہ ہے کہ جو کام چالیس علماءنے مل کر انجام دیا وہ اس مرد مجاہد (اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ)نے تن تنہا کر کے دکھایا اور یہ مجموعہ ”فتاویٰ رضویہ“ ،”فتاویٰ عالمگیریہ“سے زیادہ جامع ہے اور میں نے آپ کو ”امام ابو حنیفہ ثانی“کہا ہے وہ صرف محبت یا عقیدت میں نہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ ،کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ اس دور کے امام ابو حنیفہ ہیں۔“(امام احمد رضا کانفرنس1993ءمنعقد اسلام آباد میں خطاب)
فتاوی رضویہ کے امتیازات و خصوصیات:
فتاوی رضویہ کو فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ اپنے عہد کا عظیم شاہکار ہے جو بے مثال امتیازات و خصوصیات کا مرقع ہے۔ اسکی چند خصوصیت درج ذیل ہیں۔
جامعیت:
فتاوی رضویہ کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جن موضوعات اور مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے اور جن استفسارات کے جوابات دیے گئے ہیں وہ اس قدر جامع ہیں کہ ان میں کسی بھی جانب اور پہلو سے کوئی ابہام یا کمزوری باقی نہیں۔
دلائل کا ذخیرہ:
آپ مسائل میں صرف مسئلہ کی شرعی حیثیت بتانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس جواب پر قرآن وحدیث سے نقلی دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ حل طلب مسائل پر آپ سینکڑوں آیات کریمہ، احادیث مبارکہ اقوال فقہاءاور کتب فقہ سے نصوص پیش کرتے ہیں۔فتاوی رضویہ میں موجودفتاویٰ جات قراٰن و حدیث، نصوصِ فقہیہ واقوال سلف وخلف سے بھرپورنظر آتے ہیں اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
٭تیمم کی تعریف و ماہیتِ شرعیہ کا ایسا علمی و تحقیقی مسئلہ اس فتاویٰ کی زینت ہے کہ دورِ حاضر کے بلند پایہ محققین بھی ورطہءحیرت میں پڑ جاتے ہیں، پہلے تیمم کی 7 تعریفات ذکر کیں ، پھر پانی سے عِجز کی ترتیب وار 175 صورتیں بیان فرمائیں،جو دیگر کتبِ فقہ میں 40 یا 50سے زائد نہ ملیں گی نیزجن چیزوں سے تیمم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے کتبِ فقہ سے تقریباً 74 اشیا کے نام باحوالہ ذکر کرنے کے بعد آپ نے اپنی خداداد فَقاہت کی بدولت اس میں 107 کاخود سے اضافہ فرمایا۔ جن سے تیمم جائز نہیں کتب فقہ سے 58 کاذکر بحوالہ فرمانے کے بعد اپنے تَفَقّہ سے اس میں72 کا اضافہ فرمایا، جملہ اشیا کا شمار کسی قابلِ اعتماد فقہی کتاب میں ملنا بہت دشوار ہے۔
٭سجدہءتعظیمی کی حرمت پرجب آپ نے قلم کو جنبش دی تو 40 احادیث اور ڈیڑھ سونصوص سے اپنے دعوے کو ثابت کیا۔(فتاویٰ رضویہ،ج22،ص251)
٭نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کے نام پاک پر انگوٹھے چومنے کے مسئلے پر ”منير العينين في تَقبِیلِ الاِبہَامَین“ کے نام سے تقریبا 200 صفحات پر مشتمل یہ فتوی بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہے جو30 افادات اور 12 فائدوں پر مشتمل ہے اور ہر فائدے میں ایک اصولِ حدیث ذکر کرنے کے بعد اس کے اِثبات میں دلائل کا انبار لگا دیا ،حدیثِ ضعیف کے قبول و رَد پر علمِ اصولِ حدیث کے قواعد کی روشنی میں ایساجامع اور مفَصّل کلام کیا کہ دیکھنے والے اَنگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ،5ج،ص429)
ہمہ گیریت:
فتاوی رضویہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ حقیقی مسئلہ کی وضاحت کے ضمن میں دیگر بہت سے علوم کے ادق مسائل پر قیمتی ابحاث آجاتی ہیں۔اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ فتاوی رضویہ صرف فقہی احکامات کا مجموعہ نہیں بلکہ بہت سے دیگر علوم کی نفیس تحقیقات اور عمدہ معلومات پر مشتمل ایک عظیم انسائکلوپیڈیا ہے۔
ادبیت:
اس فتاوی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں چار زبانوں میں فتاویٰ موجود ہیں جس زبان میں سوال آیا اسی میں جواب دیا۔ نثر میں سوال آیا تو نثر میں جواب دیا۔ نظم میں سوال آیا تو نظم جواب دیا۔
سرعت:
فتاوی رضویہ کے اکثر فتاوی ایسے ہیں جو مستقل رسالہ کی شکل میں موجود ہیں۔ آپ کے پاس پانچ پانچ سو فتوے بھی جمع ہو جاتے تو ان سب کے جوابات ایک دو روز میں لکھوا کر ارسال فرما دیتے۔
للہیت:
آپ نے فتاوی پر کسی سے ایک پائی کا معاوضہ لینا بھی گوارا نہیں کیا۔ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں۔
”بحمد اللہ یہاں کبھی ایک پیسہ نہیں لیا گیا اور نہ لیا جائے گا۔بھائیو! وما أ سئلكم عليه أجرإلا علی رب العالمین۔“
تطبیق:
بعض دفعہ ایک ہی مسئلہ پر مختلف احادیث اور اقوال فقہاءآ جاتے ہیں جو بظاہر متعارض نظر آتے ہیں۔ ایسے مسائل میں ایک آدمی کو فتوی یا فیصلہ دینا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے مسائل کا حل بھی فتاوی رضویہ میں ہے۔
اسماءالرجال:
آپ کی نظر تاریخ و تذکرہ اور فن اسماءالرجال پر بہت وسیع تھی جگہ جگہ اس کے شواہد ملتے ہیں۔
مرجع العلماء:
علامہ احمد رضا کی خدمت میں استفتاءپیش کرنے والوں کی بڑی تعداد اصحاب علم و فضل کی تھی۔ ان میں مفتی، مصنف، جج، وکیل الغرض ہر شعبہ زندگی کے رؤسا شامل تھے۔
ایک اندازہ كے مطابق فاضل بریلوی نے ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ہر کتاب میں آپ کی فقیہانہ بصیرت کی جھلک نظر آتی ہے۔ در حقیقت آپکی فقہی خدمات بیان کرنے کے لیے ہزاروں صفحات کی ضرورت ہے۔