255

اسلام میں موت و حیات کا فلسفہ.سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

اسلام میں موت و حیات کا فلسفہ


سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

ہم نے کائنات کا جہاں تک مطالعہ کیا اور جس قدر دنیا کے خشک و تر گوشے کو دیکھا ،از آدم تا ایں دم ایک عجیب مشاہدہ سامنے آیا کہ ہر شخص اپنے وجود خاکی میں رمق حیات لے کر مادی عالم کی خوبصورتی و دلکشی میں گم، عجائبات کائنات سے لطف اندوز ہورہا ہے، آنکھیں محو حیرت ہیں، خود اس کا دنیا میں وجود بھی حرکت میں ہے، دل میں دھڑکن ہے، اعضا و جوارح میں گرم خون کی آمیزش ہے اور اس طرح وہ اپنی کشتئ حیا ت تجربات کے سمندر میں بڑھائے جارہا ہے۔ آخرش ہمیں اس وجود خاکی کی ایک منزل بالکل بر عکس نظر آئی۔ ہم نے دیکھا کہ اس کی وہی آنکھیں جو کچھ برسوں پہلے محو حیرت تھیں اب خاموش ہیں، وہی حرکت خیز وجود مکمل سکون و خاموشی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، دل وہی ہے مگر دھڑکن سے بے نیاز ہے۔ تمام اعضا و جوارح وہی ہیں مگر گرم خون کی آمیزش نہیں،اس کاپورا وجود بالکل سرد پڑا ہوا ہے۔تفتیشی فکر نے حل تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ کل تک جو وجود زندگی سے تعبیر ہورہا تھا اور زندہ کہلارہا تھا آج موت سے ہمکنار مردہ کہلا رہا ہے، اس منزل پر آکر موت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور حیات فانی ساتھ چھوڑ کر رخصت ہوگئی ہے… مجھے بہت تعجب ہوا کہ زندگی اور موت اسی کو کہتے ہیں…؟!اگر مادی نقطۂ نگاہ سے جب تک دل کام کرے، اعضا و جوارح میں خون کی گردش ہو اور جسم خاکی میں حس و حرکت کا سلسلہ باقی رہے تو کہا جاتا ہے کہ انسان زندہ ہے لیکن یہ سلسلہ ختم ہوتے ہی متذکرہ چیزیں اس کی موت اور عدم حیات کی قطعی و یقینی دلیل بن جاتی ہیں۔مگر دین اسلام کا غائرانہ مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں موت وحیات کا فلسفہ دنیاوی اور مادی زاویۂ نگاہ سے بہت مختلف ہے اس میں بعض ایسے افراد ہیں جو طبیعاتی اعتبار سے تو زندہ ہیں مگر حقیقتاً ان کا شمار مردوں میں ہوتا ہے… اسی کے برعکس کچھ ایسے بھی ہیں جو ظاہراً تو مردوں کی فہرست میں ہیں لیکن در حقیقت وہ زندہ و جاوید ہیں، ان کا نام نامی، شخصیت و کردار، اور امتیازات و خصوصیات بنی نوع بشر کے سطح ذہن پر ابھرتے رہتے ہیں،نہ صرف یہ کہ ان کی حیات کے نقوش بلکہ موت کی آغوش میں ابدی نیند کا طریقہ بھی قرطاس ذہن پر ابھرتا رہتا ہے۔یہ مادی اور معنوی دونوں زاویۂ نگاہ کے اختلاف و افتراق کی ایک خاص وجہ ہے چونکہ مادی اعتبار سے صرف حرکت و جود کو حیات تسلیم کیا گیا ہے، چاہے اس میں ذرہ برابر اچھائی ہو یانہ ہو… لیکن معنوی اعتبار سے اسلام اور قوانین اسلام کا نظریہ اس سے مختلف ہے اس لئے کہ اس میں انسانی زندگی اور اس کی شخصیت روحانی اقدار پر منحصر ہے یعنی اگر وجود فائدہ مند ہے تو حیات اور اگر بے فائدہ ہے تو عدم حیات یعنی موت ہے۔

اصل حیات

کسی مذہب و ملت سے تمسک اختیار کرنا اصل زندگی کی پہلی پہچان ہے، اگر کوئی شخص بے دینی اور لا مذہبیت کی زندگی گزار رہا ہے تو اسے مردہ تصور کیا جاتا ہے اس لئے کہ نہ اس کی کوئی روش ہوتی ہے اور نہ اس کا انداز و اسلوب ہی ایسا ہوتا ہے جو زندگی میں ایک مستقل راہ کا تعین کر سکے، اس کی زندگی بد نظمی کا شکار ہوکر اصل حیات سے منحرف ہوجاتی ہے۔قرآن مجید اس سلسلے میں واضح نشاندہی کرتا ہے:( یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم…)’’ اے ایمان لانے والو! خدا اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے‘‘۔ (۱)متذکرہ آیۂ مبارکہ سے واضح ہوتاہے کہ مذہب اسلام در اصل زندگی اور حیات کی دعوت دیتا ہے، روحانی حیات، مادی حیات، ثقافتی حیات، اقتصادی حیات، سیاسی حیات اور اپنے حقیقی و واقعی مفہوم کے ساتھ اخلاقی و اجتماعی حیات… اسلام کی ہر دعوت ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے مکمل طور پر حیات اور زندگی کی ایک دعوت ہے۔ اس مقام پر اگر کوئی یہ سوال کر ے کہ اسلام کا اصلی ہدف اور مذہب کا واقعی مقصد کیا ہے تو اس کا جواب بہت آسانی سے دیا جا سکتا ہے کہ اس کا ہدف و مقصد تمام جہات زندگی میں رمق حیات عطا کرنا ہے، اسلام کی دعوت ،زندگی کے ہر موڑ پر حیات کا پتہ دیتی ہے.. اس تناظر میں یہ سوال اٹھتاہے کہ . کیا طلوع اسلام اور نزول قرآن سے پہلے لوگ مردہ تھے، ان کی زندگی کیا حقیقی معنوں میں زندگی نہیں تھی…؟ یقیناًوہ لوگ اس زندگی سے محروم تھے جو قرآن اور اسلام عطا کرنا چاہتا ہے… آپ اہل عرب کی تاریخ حیات اٹھائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کی روش زندگی واقعی قابل تعریف نہیں تھی۔ ہاں! قابل مذمت ضرور تھی۔ ان کے یہاں قرآن کی وہ حیات آفرینی نصیب نہیں تھی جو باعث فخر و مباہات ہو لیکن شرم سے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ضرورتھا، کیا اپنی لخت جگر کو زندہ درگور کردینا زندگی ہے؟ نہیں ؛ بلکہ انسانیت کی واقعی موت کے مترادف ہے، اسے تو زندگی کا نام دینا بھی زندگی کی توہین ہے۔ کیا جنگ و جدال، قتل وغارت گری اور خونریزی پر اپنی بیش بہا زندگی کو نچھاور کر دینا حیات ہے؟ نہیں بلکہ حیات کے نام پر حیات کا خون کرنا ہے۔زمانۂ جاہلیت کے لوگ اگر چہ مادی اور حیوانی زندگی کے حامل تھے لیکن انسانی اور عقلی زندگی سے کوسوں دور تھے ایسے میں جب قرآن جیسی مقدس کتاب آئی اور اسلام جیسا مکمل دین آیا اور جب اس نے حیات و زندگی کی دعوت دی تب کہیں جاکر ان کی صحیح اور واقعی حیات کا آغاز ہوا۔حیات کی رعنائیوں کے لئے دعوت اسلام اور دعوت قرآن سب سے پہلی پہچان ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ حیات کی تمام جہات صرف دعوت اسلام قبول کرلینے سے حاصل ہوجاتی ہیں بلکہ اسلام کے چند اصول و دستورات ایسے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہونا ہی زندگی سے بھرپور حیات کی جانب اشارہ ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں:فاعملوا و انتم فی نفس البقا والصحف منشور والتوب مسبوط ’’اعمال بجالاؤ جبکہ تم زندگی کی فراخی اور وسعت میں ہو، تمہارے اعمال نامے کھلے ہوئے ہیں اور دامن توبہ پھیلا ہوا ہے‘‘۔ (2)ممکن ہے کہ زندگی کے کسی موڑ پر گناہوں کی وجہ سے لغزش آجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان بالکل مایوسی کی چادر اوڑھ کر خاموش بیٹھا رہے کیونکہ اصل حیات حاصل کرنے کے لئے خدا کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اس کی رحمت سے گنہگاروں کو امید دلائی جا رہی ہے ،قبل اس کے کہ عمل کی روشنی گل ہوجائے اور مہلت ہاتھ سے جاتی رہے اور عرصہ حیات تنگ ہوجائے…اس وقت بھی سنہرا موقع بن کر توبہ و استغفار کا دروازہ کھلا رہتا ہے اسے بند نہ ہونے دے… ’’والمسیئی یرجی قبل ان یحمد العمل و ینقطع المھل و ینقضی الاجل، بسد التوب‘‘ ۔(3)گویا زندگی کی شاہراہ میں اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونا سر فہرست ہے چونکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ زندگی کے کسی مرحلے پر عدم حیات کا تصور ذہن انسانی پر نہ ابھرے، اسی لئے اس نے اصول کے طور پر اعمال و عبادات کا نفاذ کیا تاکہ حیات کے متمنی اس دائرے میں داخل ہوکر مقصد سے ہمکنار ہوتے رہیں۔ لیکن کچھ لوگ ان اعمال و عبادات کے سلسلے میں غلو کے شکار ہوگئے اور انہوں نے قوانین اسلام سے ہٹ کر اپنے سطحی ذہن کے اعتبار سے عمل کرنے کی کوشش کی، نتیجہ میں سنورنے کے بجائے مزید بگڑتے گئے۔ایک مرتبہ امیر المومنین ؑ اپنے ایک صحابی علا ء الدین زیاد حارثی کے یہاں عیادت و مزاج پرسی کے لئے تشریف لے گئے، مولا نے چند نصائح کئے جس میں امور دنیا کو موضوع بنایا اور زندگی گذارنے کے سلیقے بھی بتائے۔ آخر میں علاء ابن زیاد حارثی نے کہا: یا امیر المومنین ؑ !مجھے اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی آپ سے شکایت کرنی ہے۔ حضرت ؑ نے پوچھا :کیوں اسے کیا ہوگیا ہے؟ علاء الدین نے بہت تاسف سے کہا:اس نے بالوں کی چادر اوڑھ لی ہے اور زندگی سے بالکل بے لگاؤ ہوگیا ہے۔ تو حضرت ؑ نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ۔ وہ آیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اے اپنی جان کے دشمن! تمہیں شیطان خبیث نے بھڑکا دیا ہے۔ تمہیں اپنی آل اولاد پر ترس نہیں آتا! اور کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لئے حلال کیا ہے اگر تم انہیں نہیں کھاؤ یا نہیں برتو گے تو اسے ناگوار گذرے گا۔ تم اللہ کی نگاہ میں اس سے کہیں زیادہ گرے ہوئے ہو کہ وہ تمہارے لئے یہ چاہے۔ (4)مذکورہ خطبہ میں مولا ؑ نے اصول حیات کی نشاندہی بڑے اچھے انداز میں کی ہے۔ اصل میں زمانۂ قدیم کے کچھ لوگ جو رہبانیت پرست ہوتے تھے،وہ اعمال و عبادات کے متعلق بڑا عجیب نظریہ رکھتے تھے، چنانچہ وہ لوگ زہد میں زندگی بسر کرنے کے لئے شہروں اور بستیوں سے نکل کر جنگلوں، پہاڑوں اور غاروں میں باقاعدہ سکونت اختیار کر کے اپنے خیال میں اللہ سے لو لگانے کا باطل مفروضہ رکھتے تھے، اگر کسی راہ گیر کی نگاہ پڑ گئی تو وہ اپنا بچا کچا سازو سامان دے دیتا تھا جسے کھاکر وہ پھر سے اپنی ذات میں گم ہوجاتے تھے۔حالانکہ زندگی اور اصل حیات اسے نہیں کہتے کیونکہ اسلام کا اعتدال پسندانہ مزاج اس طرح کی خانقاہی زندگی سے سازگار نہیں ہے۔ وہ روحانی ترقی کے لئے دنیاوی نعمتوں اور سعادتوں سے ہاتھ اٹھا لینے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ اس چیز کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ مسلمان دیگر آسائش حیات چھوڑ کر ہم جنسوں سے علیحدہ ہو کر تنہائی اور روپوشی کی زندگی بسر کریں، اور صرف عبادت میں لگے رہیں۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم صرف چند اعمال تک محدود نہیں بلکہ اسلام نے جائز اور حلال ذریعۂ معاش سے روزی کی تلاش اور باہمی سکون و ہمدردی اور تعاون کو بھی عبادت کا ایک اہم جز قرار دیا ہے۔ اگر انسان دنیاوی حقوق و فرائض کو فراموش کردے، اہل و عیال کی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہوجائے، کسب معاش کی فکر سے مستغنی ہوجائے تو حقیقت یہ ہے کہ وہ مقصد حیات کو پورا کرنے کے بجائے اپنی زندگی برباد کر رہا ہے۔ظاہر ہے اگر خدائے لا شریک کو صرف گوشہ نشین عبادت گذار پسند ہوتے تو دنیا کو آباد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ صرف عبادت کے لئے فرشتوں کا مقدس جھنڈ کافی تھا۔ انسانوں کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تمام جہات حیات کو سامنے رکھ کر صحیح اور حقیقی زندگی بسر کریں۔ معاشرتی ہجوم میں گھرے رہ کر وحدہ لاشریک کو یاد رکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

مردہ زندگی

حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور حیات خدا کی عطا کردہ ایک بہترین نعمت ہے، اس کا واقعی احساس و ادراک انتہائی شاداب اور لطیف ترین ہے لیکن انہیں کے لئے جو حقیقی طور پر ادراک اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں، وہ تو زندگی کے حرف اول سے بھی واقف نہیں جو اس کے مقاصد سے بے نیاز ہو کر گزر بسرکرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ،ایسا شخص زندہ نہیں بلکہ زندگی کے نام پر چلتی پھرتی ایک متحرک لاش ہے جس کا کوئی مصرف نہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ ہے..۔.ایک شخص ظاہری طور پر باحیات ہے لیکن وہ نفسانی خواہشات میں ایسا مست و مگن ہوچکا ہے کہ کسی منادئ حق کی آواز اس کی سماعت کے کسی گوشے میں نہیں ٹھہرتی،ا س کی زندگی فقط لطف اندوزی کا محور ہے۔ نہ تو وہ کسی مظلوم کی فریاد رسی کرتا ہے اور نہ ہی کسی بے نوا کے چہرے کی طرف دیکھنا گوارا کرتا ہے۔ اور نہ ہی عالم ہستی میں خدا کی نشانیوں اور آیتوں پر غور کرتا ہے۔ حتی اپنے ماضی و مستقبل پر بھی ایک لحظہ کے لئے نہیں سوچتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جائیں گے۔ ایسے شخص کی زندگی کو اسلام زندگی نہیں بلکہ موت سے تعبیر کرتا ہے۔چنانچہ قرآن آواز دے رہا ہے: اے پیغمبرؐ نہ تو اپنی باتیں، اسلام کے اصول و قوانین ان مردوں کے کانوں تک پہونچا سکتے ہو اور نہ ہی ان بہروں کو بلا سکتے ہو۔ جب وہ منھ پھیر کر پیچھے کی طرف لوٹ جائیں؛(انک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء اذا ولو مدبرین۔۔۔ )۔(5)خدا وند عالم قرآن مجید میں پیغمبرؐ کو مخاطب کرکے یہ کہنا چاہتا ہے کہ اے پیغمبر! آپ کے مخاطب تو زندہ لوگ ہیں، جن میں زندہ، بیدار اور حق طلب روح پائی جاتی ہے، جن میں معاشرتی زندگی کو بحسن و خوبی اور بے داغ بسر کرنے کی امنگ پائی جاتی ہے۔ جن میں ظالم کے خلاف احتجاج کی صلاحیت اور مظلوم و بے کس کے لئے ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے.. .لیکن آپ تو ایسے لوگوں کو مخاطب کر رہے ہو جو زندہ نما مردے ہیں جن کے اندر رمق حیات تو ہے مگر باعث سکون و اطمینان نہیں، تعصب، ضد اور گناہوں پر اصرار نے ان سے ان کی سوچ اور فہم و فراست کو پوری طرح سلب کر لیا ہے جن کے دائرہ میں آکر انہوں نے اپنی حیات کو موت کی وادی میں داخل کرلیا۔قرآن مجید کہتا ہے: اور نہ تم اندھوں کو گمراہی سے نجات دے سکتے ہو…( ولا انت بھادی العمی عن ضللتھم۔۔۔)۔(6)اے پیغمبر! ان کی آنکھوں کی حیات آفرینی و بصارت رخصت ہوچکی ہے۔ جس طرح مردے نہ کسی کی آواز سنتے ہیں اور نہ ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، ویسے ہی یہ لوگ ہیں، کیا تم ایسے لوگوں کو نجات کی طرف دعوت دے رہے ہو؟ تمہارا دعوت دینا ایسے لوگوں کے لئے بیکار ہے ان کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں ان کو ان کے ناگفتہ بہ حال پر چھوڑدو۔ان بے ضمیر لوگوں کے حال کی توضیح میں مولائے متقیان نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: ان ابغض الخلائق الی اللہ رجلان،رجل وکلہ اللہ الی نفسہ فھو حائر قصد السبیل، مشغوف لکلام بدع و دعا ضلال ورجل قمش جھلا موضع فی جھال الام عاد فی اغاش الفتن عم بما فی حق لھدانہ’’عالم ہستی میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک مبغوض اور بدترین دو طرح کے لوگ ہیں: ایک وہ شخص جسے پروردگار عالم نے اسی کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ درمیانی راستہ سے ہٹ گیا ہے صرف بدعت کا دلدادہ ہے اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے، دوسرے وہ جس نے جہالتوں کو سمیٹ لیا ہے اور انہیں کے سہارے جاہلوں کے درمیان دوڑ لگا رہا ہے، فتنوں کی تاریکیوں میں دوڑ رہا ہے اور امن و صلح کے فوائد سے اکثر غافل ہے‘‘۔(7) چونکہ جاہل انسانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اور وہ جو چاہیں کریں، ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو حالانکہ در حقیقت یہ بدترین عذاب الہی ہے۔اگر خدا کسی کے ساتھ ایسے سلوک کا ارادہ کرے تو گویا اس نے اس کے لئے اس کی حیات ہی میں ایک بدترین عذاب کا انتخاب کردیا ہے، ایسے میں وہ اپنی زندگی میں وہ مقام و منزل نہیں پاسکتا جو اسے ملنی چاہئے۔ در حقیقت انسان کی فلاح و بہبودی اسی میں پوشیدہ ہے کہ اسے مالک اپنے ہی رحم و کرم کے سایہ میں رکھے ورنہ اگر اس نے توفیقات کو سلب کر کے انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تو لمحوں میں فرعون، قارون، یزید، حجاج و متوکل …کچھ بھی بن سکتا ہے جو زندگی بھر جیتے جی موت سے ہمکنار تھے، اس لئے کہ خدا نے انہیں زندگی ہی میں عجیب عذاب میں مقید رکھا۔

حیات بعد ازموت

یہ بات حق و صداقت پر مبنی ہے کہ ہر انسان ایک نہ ایک دن ساحل مرگ سے ہمکنار ہوگا اس لئے خداوند عالم نے اپنی ابد آثار کتاب قرآن مجید میں بہت واضح انداز میں ذہن انسانی کو متوجہ کیا ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔( کل نفس ذائق الموت )۔(8)اگر چہ کائنات فنا میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے دماغ سے موت اور فنا کا تصور ختم ہوجائے مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اگر ہم اسے فراموش بھی کردیں، موت کے وحشت ناک تصور سے چھٹکارا بھی پالیں تب بھی وہ ہمیں نہیں بھلائے گی۔ اس دنیا کی زندگی آخر کار ختم ہونا ہی ہے اور پھر مجبوراً ہی سہی لیکن اس جہاں سے رخت سفر باندھنا ہی پڑے گا۔اس دنیا سے جانے والوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ جو بہت خاموشی سے کوچ کر جاتے ہیں، ان کی موت کچھ عرصہ بعد نہ کسی کو یاد رہتی ہے اور نہ ان کی شخصیت ذہن میں محفوظ رہتی ہے اس لئے کہ انہوں نے اپنی چند روزہ حیات کو اس طرح بسر نہیں کیا کہ اس کے نقوش سطح ذہن پر اس کی موت کے بعد ابھرتے اور پھیلتے رہیں،انہوں نے زندگی برائے زندگی گذاری اور چلے گئے۔لیکن قابل صد تعریف ہیں ایسے لوگ جو مرنے کے بعد بھی اپنی زندگی کے ایسے آثار چھوڑ گئے جو آج تک دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے نادر افکار اور بتائے ہوئے راستے دنیا والوں کے لئے اسوہ، نمونہ اور بہترین راہنمائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔تاریخ عالم و آدم کا غائرانہ مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بہت سی نامور اور بے مثل و نظیر شخصیتیں آئیں اور اپنی زندگی کے نقوش قائم کر گئیں جن کی وجہ سے وہ پس مرگ بھی زندہ ہیں۔ ان میں کوئی اپنی عدالت کی وجہ سے زندہ ہے تو کوئی اپنی سخاوت و بخشش کی وجہ سے کائنات حیات کے افق پر چھایا ہوا ہے… آپ نوشیروان عادل کی سوانح حیات اٹھائیں تو آپ کو مادی تاریخ نویسوں کے قلم کا عادل شخص نوشیرواں نظر آئے گا اگر چہ وہ افسانوی دنیا کی شہرت خیز عدالت کا مثالی کردار ہے مگر چونکہ اس نے اپنی عدالت کا سکہ اپنی حیات میں جمایا تھا۔ لہٰذا تاریخی خاکوں میں آج بھی زندہ ہے اور اس کی موت کے ہزاروں برس بعد بھی اس کی عدالت کا چرچہ زبان زد خاص و عام ہے چنانچہ شیخ سعدی کہتے ہیں:

زندہ است نام فرخ نوشیروان بعدل

گر چہ بسے گذشت کہ نوشیروان نماند

یہی حال حاتم طائی کی سخاوت و بخشش کا ہے، اس نے اپنی حیات میں حقوق الناس کا خیال کرتے ہوئے اپنے وجود سے چند لوگوں کو خوش و خرم رکھا اور اپنی حیات کو مفید بناتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگیا اس کی یاد آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہے۔اس کے علاوہ قرآن مجید نے حیات بعد از موت کا جو فلسفہ پیش کیا ہے وہ دنیاوی نقطہ نگاہ سے مختلف ہے چنانچہ خدائے لاشریک حیات بعد از موت کا عظیم اور بہترین نمونہ پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے:( ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتابل احیاء عند ربھم یرزقون)’’یہ گمان ہرگز نہ گرنا کہ جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کی حیات کی سب سے عمدہ دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے رزق پاتے ہیں‘‘۔(9)عام طور سے رزق کا جو مفہوم شہرت یافتہ ہے وہ یہ کہ مرزوق وہی ہوگا جس کے جسم میں رمق حیات ہوگی اور جو لوگ زندگی کی شاہراہوں پر محو سفر ہوں گے،بے جان اور مردوں کے متعلق ایسا یقین رکھنا معاشرے میں احمق بنا نے کے لئے بہر حال کافی ہے۔ مگر قرآن جیسی ابد آثار کتاب میں خدا نے موت کے بعد حیات کا بڑا عجیب فلسفہ بیان کیا کہ صرف یہ خیال کرلینا کافی نہیں ہے کہ شہدائے راہ خدا زندہ ہیں بلکہ ان کی زندگی اس لئے بھی مدلل ہے کہ وہ اپنے خدا کی جانب سے رزق پاتے ہیں۔ایک دوسرے مقام پر شہدا کی حیات بعد از موت کو مزید وسعت دی گئی، یہاں شدت پیدا کرتے ہوئے تمام انسانوں کو یوں مخاطب کیا گیا:(ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء، ولکن لاتشعرون)’’ اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ نہ کہو وہ تو زندۂ جاوید ہیں۔ چونکہ تم مادی ذہن رکھ کر پرکھنے کی کوشش کر رہے ہو اس لئے تمہیں ان کی زندگی کا واقعی شعور و ادراک نہیں ہے‘‘۔(10)ان تمام باتوں سے ہٹ کر بھی دین اسلام میں بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں حیات بعد از موت کا عقیدہ مسلم ہے، چاہے وہ برزخ کی زندگی سے ہی کیوں نہ مربوط ہو، لیکن تعجب تو ان بعض بے خبرلوگوں پر ہوتا ہے جو پیغمبر اسلامؐ کی ذات تک کے لئے بھی حیات بعد از موت کے قائل نہیں، یعنی انہیں بھی مردہ تسلیم کرتے ہیں اور آپ کو وسیلہ نہ ماننے کے لئے ان کی ایک دلیل یہی پیش کرتے ہیں کہ مردوں کو وسیلہ نہیں بنانا چاہئے، وہ کہتے ہیں کہ وہ تو مر چکے ہیں اور مردے کوئی بھی کام نہیں کر سکتے… حالانکہ اس باطل عقیدے کی تردید خود انہیں کے دوسرے گروہ کے عقیدے سے ہوتی ہے جس میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے کہ وفات کے بعد آنحضرتؐ کی ایک طرح سے برزخی زندگی ہے۔ یہ زندگی حیات شہدا سے بھی بڑھ کر ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے توضیح کردی ہے حتی وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ آنحضورؐ ان لوگوں کے اس سلام کو بھی سنتے ہیں جو لوگ آپ پر بھیجتے ہیں… ۔(11)شیعہ اور سنی کتابوں میں اس بارے میں بہت سی روایتیں موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ان لوگوں کے سلام سنتے ہیں جو دور یا نزدیک سے آپ پر بھیجتے ہیں اور آپ حضرات ؑ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں جس سے حیات بعد از موت کی واضح ترین نشاندہی ہوتی ہے…جنگ بدر کے بارے میں صحیح بخاری میں ایک حدیث میں یوں مرقوم ہے: کفار کی شکست اور جنگ کے خاتمے کے بعد رسول اللہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اس کنویں کے پاس پہونچے جہاں مشرکین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں، آپ نے انہیں نام لیکر پکارا اور فرمایا کیا بہترین تھا کہ تم خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے؟ جو وعدہ ہم سے خدا نے کیا تھا اسے تو ہم نے پالیا کیا تم نے بھی اپنے پروردگار کے وعدے کو پالیا ہے۔ اس موقع پر جب حضرت عمر نے کہا: یا رسول اللہ!ؐ آپ ایسے جسموں سے ہم کلام ہیں، جن میں روح نہیں ہے تو آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’والذی نفس محمد بیدہ ماانتم بأسمع لما اقول منھم‘‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے۔(12)ان باتوں کی وضاحت حضرت علیعلیہ السلام کی حدیث سے بھی ہوتی ہے چنانچہ نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ مولائے متقیان جنگ صفین سے لوٹ رہے تھے۔ واپسی پر کوفہ کے قبرستان سے گذرے، یہ قبرستان شہر سے باہر تھا ،آپ نے قبروں کی طرف رخ کیا اور فرمایا:یا اھل الدیار والموحش والمحال المغفر والقبور والمظلمہ یا اھل التبتہ یا اھل الغرب یا اھل الوحد یا اھل الوحش،انتم لفافرط سابق و نحن لکم تبع لاحق، اما الدور فقد سکنت، واما الازواج فقد نکحت واما الاموال فقد قسمت ھذا خبر ما عندنا فما خبر ما عندکم؟’’ اے وحشت کے گھروں، اے خالی مکانوں، اور تاریک قبروں میں رہنے والو!، اے خاک نشینو!، اے مسافرو!، اے تنہائیوں میں رہنے والو! اور اے اہل وحشت!تم اس راستے پر ہم سے پہلے چلے گئے ہو ہم بھی آملیں گے، اگر تم دنیا کی خبر پوچھتے ہو تو وہ یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں دوسرے آبسے ہیں تمہاری بیویاں اوروں سے بیاہ دی گئی ہیں اور تمہارے مال تقسیم ہوگئے ہیں۔ پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: ثم القفت الی اصحابہ فقال اما لو اذن لھم فی الکلام لأ خبر و کم انّ خیر الزاد التقوی’’ اگر انہیں بات کرنے کی اجازت ملے تو یقیناًتمہیں بتائیں کہ اس سفر کے لئے بہترین زادراہ تقوی ہے‘‘۔(13 )ایسا نہیں ہے کہ ان تمام باتوں کو مجاز اور کنایہ پر محمول کیا جائے گا بلکہ یہ تمام باتیں اس حقیقت کی خبر دیتی ہیں کہ موت کے بعد ایک برزخی زندگی ہے اور اس دور میں بھی انسان ادراک رکھتا ہے نیز اگر مردوں کو بات کرنے کی اجازت دی جائے تو وہ بات بھی کریں گے… اس کے علاوہ بھی ائمہ اطہار نے مختلف مقامات پر حیات بعد از موت کی وضاحت فرمائی ہے۔ اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی

ہٹ دھرمی کرتے ہوئے انکار کرے تو اسے تعصب اور ضد کا نتیجہ تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس سے حق و حقانیت میں تبدیلی نہیں آسکتی