211

اسلامی معاشرہ میں مرد وزن کا دائرہ کار،

اسلامی معاشرہ میں مرد وزن کا دائرہ کار
تحریر :محترمہ میمونہ اسلم، منڈی بہاؤ الدین
ایک صالح اور پاکباز معاشرے کے لئے نظام ہائےاسلام سے بہتر اور کوئی نظام نہیں، اسکی مقدس تعلیمات انسان کے خیالات کی بھی حفاظت کا درس دیتی ہیں،
جس مذہب میں خیالات کی پاکیزگی و شرافت کا اتنا اہتمام ہو، اسکے معاملات پر شریعت کے پہروں کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، شریعت اسلامیہ میں حیاء کو خاص مقام حاصل ہے، یہ اسلام کا حسن ہے، مومن سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے، یا خلاف حیا کوئی کام ہوتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی پہاڑ اس پر گرنے والا ہے، جب کہ دیگر مذاہب میں یہ کیفیت یوں ہی ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھی تھی جسے اس نے اڑا دیا.
اسلام اپنے ماننے والوں کو باحیا دیکھنا چاہتا ہے، اور اسکے لیے اس نے قواعد و ضوابط بھی مقرر کیے ہیں اور اسے فالو کرنے پر زور بھی دیا ہے اور نہ ماننے پر سخت تنبیہہ بھی کی ہے اور وعیدیں بھی بیان کی ہیں
انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا، ضروریات زندگی کے لیے اسکا افراد معاشرہ سے واسطہ پڑتا ہے،جس میں گھر کے اندر کے افراد بھی شامل ہیں اور باہر کے بھی
بنیادی طور پر افراد کی دو اقسام ہیں
ایک وہ جو محرم کہلاتے ہیں جن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے ان سے پردہ کے لیے عورت کا ساتر لباس یعنی جو باریک اور چست نہ ہو، کافی ہے

جب کہ دوسری قسم غیر محرم افراد کی ہے جن سے شریعت مطہرہ نے فاصلہ رکھنے کا حکم دیا ہے- اس میں قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں اورعوام بھی
علمی، دینی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے تحت ان لوگوں سے بات چیت کرنے کی نوبت آتی رہتی ہے، اسی لیے اسلام نے اسکے کچھ اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں اور ان میں حکمت یہ رکھی ہے کہ امکان فحاشی کا انسداد ہو-
یہی وجہ ہے کہ، ہمارے معاشرے میں صنف نازک کی تعلیم و تربیت پر بہت فوکس کیا جاتا ہے، اسے اس کی حدود و قیود بتائی جاتی ہیں، اور یہ بات واقعی لائق تحسین بھی ہے، لیکن جہاں خواتین کے لیے حدود مقرر ہیں، وہاں مردوں کے لیے بھی کچھ دائرے بنائے گئے ہیں ان کو بھی اس سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے
مثلا نظریں جھکانے کا حکم ہی لے لیجیے،
اسلام نے جہاں خواتین کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا وہاں مردوں کو پہلے مخاطب فرمایا
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-
مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں ،عورتوں کو بعد میں کہا
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ
اورمسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں

البتہ ساتھ صالح خواتین کا طرز عمل بھی بتایا کہ
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۔(النسائ: ۳۴)
’’پس جو صالح عورتیں ہوتی ہیں وہ ادب والیاں ہوتی ہیں، اپنے خاوند کی عدم موجودگی میں اپنی عصمتوں کی حفاظت کرتی ہیں جس کی حفاظت کا اللہ نے حکم دیا

پھر قرآن کریم نے جہاں عورت کے دل لبھانے کو بیان کیا ، وہاں مردان پاکباز کے لیے یوسف علیہ السلام کے دامن بچا کر نکل جانے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے

اسلام نے جہاں عورتوں کو شمع محفل بننے کے بجائے چادر اور چاردیواری کی نصیحت کی، اور باہر نکلتے وقت نظروں کی حفاظت اور عصمت و پارسائی کا حکم دیا، اور اسے بتایا کہ نکلے تو پردہ میں نکلے اور راستہ کے کنارے پر چلے تاکہ پتا چلے کہ یہ باوقار مسلمان عورت ہے، وہیں مردوں کو ارشاد فرمایا ۔۔
کہ اسے جھانک جھانک کر مت دیکھو بلکہ حدیث شریف میں ہے
عورت کو جھانکنا شیطانی کام ہے
فرمایا
المَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘ پھر مردوں کو راستے کے مزید. آداب بیان کیے

فَإِذَا أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوْا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ، قَالُوْا: وَمَا حَقُّہٗ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذٰی۔۔۔۔ (صحیح مسلم ، رقم الحدیث:۵۶۸۵
یعنی جب راستے میں مجلس ناگزیر ہوجائے تو راستے کو اس کو حق دو، صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے؟
فرمایا کہ غض البصر، اور کف الاذی
کف الاذی سے مرادتو یہ ہے کہ زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ دے
گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا، مار پیٹ، جھوٹ، غیبت، چغلی، بدعہدی نہ کرے
جب کہ غض بصر سے مراد نظروں کا غیر محرم خواتین کی طرف اٹھنے سے روکنا ہے…
اور یہ حقیقت ہے کہ اس سے بچت ہوگی تو بہت سے فتنے دبے رہیں گے-

اسکے علاوہ عورت سےکہا کہ بات کرنا پڑے تو ولا تخضعن بالقول کہ گفتگو میں نرمی نہ کرو،
امام رازی نے لکھا ہے کہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بدزبانی کرے، بلکہ قول معروف ہو اور حاجت کے تحت ہو بلاضرورت نہ. ہو
یعنی دائرہ کار کا خیال رہے
بلا حجاب بھی نہ ہو بلکہ من وراء حجاب ہونی چاہیے- اور تقوی و بھلائی کی ہونی چاہیے.
باہمی ربط کی حد عورت کے لیے بھی متعین کی، تو مرد کے لیے بھی کی
خلوت و تنہائی سے مرد کو بھی منع کیا عورت کو بھی
باہر کے کاموں کی ذمہ داری کے لیے عورت کو مجبور نہیں کیا،بلکہ یہ ذمہ داری مرد کے کندھوں پر ڈالی، کہ عورت خاندان کا کام سنبھالے کیونکہ اگر باہر کا ہی سنبھالتی رہ جائے گی تو پھر گھر بکھر جائے گا
اللہ کریم ہم سب کو اپنی حدود پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُكَ الْھُدىٰ وَالتُّقىٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنىٰ”.

اپنا تبصرہ بھیجیں