599

ارتقا کی تاریخ اور مساوات

لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر ارتقا ایک حقیقت ہے تو پھر یہ ایک مقا م پہ آکر رک کیوں گیا ہے؟ انسانوں کو آپ دیکھیں کہ وہ کس قدر کامیاب ہیں۔ دنیا کے بلند ترین مقامات سے لے کر برف زاروں تک، ہر جگہ انسان نے آباد کرلی۔ کوئی دوسرا جاندار ایسا کیوں نہ کر سکا۔ ایک سائنسدان، جس کا نام میں بھول گیا، وہ یہ کہتا ہے کہ انسان کا یہ خیال غلط ہے کہ وہ کرّہ ٔ ارض کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ جاندار ہے۔ مثال کے طور پر، وہ کہتاہے کہ چیونٹیاں انسانوں سے زیادہ کامیاب ہیں۔ دنیا میں چیونٹیوں کی تعداد انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے جیسے انسانوں کو زمین پہ ابھی صرف تین لاکھ سال ہوئے ہیں۔ چیونٹیاں چودہ کروڑ سال سے زندہ ہیں۔

چیونٹیاں انسانوں کے پیدا ہونے سے بہت عرصہ قبل زراعت کر رہی ہیں۔ وہ پتوں کے ٹکڑے کر کے اپنے بل میں لے جاتی ہیں، پھر وہ انتظار کرتی ہیں کہ ان پر فنگس اگنا شروع ہو، پھر وہ اس فنگس کو کھاتی ہیں۔ آج اگر ایک حادثہ رونما ہو، کوئی دم دار ستارہ زمین پہ آگرے یا عالمگیر آتش فشانی ہو یا زمین ایک بار پھر برف کا گولہ بن جائے، تو ان چیونٹی کے بچ نکلنے کے امکانات انسان سے زیادہ ہیں، جس طرح انسان یہ سوچتا ہے کہ زمین اس کی ہے، اسی طرح چیونٹیوں کے خیال میں یہ زمین ان کی ہے۔ وہ ہم سے زیادہ اس زمین کو استعمال کرتی ہیں۔ ہر مخلوق کے خیال میں زمین اسی کی ہے۔

اصل میں انسان بہت سست اور نازک تھا۔ کسی نے کیا خوب تجزیہ کیا کہ انسان نہ زیادہ بھاگ سکتا تھا، نہ دیر تک تیر سکتا، نہ وہ اڑ سکتا تھا، نہ وہ لڑ سکتا تھا، نہ وہ سردی کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ انسان کو اگر چیونٹی کے سائز کا کر دیا جائے، تو وہ چند لمحات میں انسان کو چیر پھاڑ دے۔ وہ انسان کی نسبت بہت زیادہ وزن اٹھا کر بہت زیادہ تیز رفتار سے بھاگ سکتی ہے۔ انسان نے اپنی سستی اور نزاکت کا کفارہ یوں ادا کیا کہ وہ بیٹھ کر سوچنا شروع ہو گیا۔

جو لوگ متجسس ہیں، وہ دو تین آرٹیکلز کا مطالعہ ضرور کریں۔ sciencemag.orgپر humans are still evolving and we can watch it happen کے نام سے ایک مضمون ہے Elizabeth Pennisiکا۔ بی بی سی پر ایک مضمون ہے؛ Bajau people evolved bigger spleens بائی پال رنکسن۔ جنوب مشرقی ایشیا میں Bajauنام کا ایک قبیلہ ہے۔ ایک ہزار سال سے یہ لوگ غوطہ لگا کر سمندر سے مچھلیاں پکڑتے آئے ہیں۔ یہ ستر میٹر گہرائی تک اتر جاتے ہیں۔ ان کے جسم میں تلی کا سائز پچاس فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس کافائدہ انہیں یہ ہوا ہے کہ غوطہ لگانے کے دوران دماغ جیسے اہم اعضا کو زیادہ آکسیجن میسر آتی ہے اور یوں وہ زیادہ دیر تک زیرپانی وقت گزار سکتے ہیں۔ اس کا انکشاف تک ہوا، جب الٹرا سائونڈ میں ان کی تلی کا سائز دیکھا گیا۔ بی بی سی کے مطابق، Bajauقبیلے کے جو لوگ غوطہ نہیں بھی لگا رہے تھے، ان کی تلی کا سائز بھی بڑھ چکا ہے، یعنی یہ جنیاتی طور پر انہیں منتقل ہو رہا ہے۔

رومنز کے عروج کی نسبت آج برطانیہ کے باشندوں کا قد لمبا اور رنگ مزید صاف ہو چکا ہے۔ PDE10A وہ جین تھا، جس کا تعلق تلی کے سائز سے تھا۔ تبت میں انتہائی بلند مقام پر زندگی گزارنے والے بھی کم آکسیجن میں زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں ؛اگرچہ اس میں صرف اور صرف ان کے آبائو اجداد کی نی اینڈرتھلز کے ساتھ مباشرت کا ایک تعلق ہے۔

اب، سوال یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ارتقا کیوں نہیں دیکھ پا رہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے ایک بچّہ گھڑی میں گھنٹوں والی سوئی کی حرکت دیکھنا چاہے تو وہ اسے کبھی بھی نظر نہیں آئے گی، اگر کچھ وقفے کے بعد وہ یہی گھڑی دوبارہ دیکھے تو سوئی آگے جا چکی ہوگی۔ یہی صورتِ حال تب پیش آتی ہے، جب انسان فاسلز کا اور ان کے ڈی این اے کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے اس سوئی کے اس سفر کے شواہدملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ جو لوگ سوچتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سائنسدان مل کر سات ارب انسانو ںکو پاگل بنا رہے ہیں، ایسا ممکن ہی نہیں۔ مختلف اقوام ہیں، مختلف مذاہب، اپنے اپنے تعصبات اور اپنے اپنے مفادات ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے سارے کارکن آج تک ایک نہیں ہو سکے۔ حکومت مخالف اور حکومت نواز گروپوں میں ہمیشہ تقسیم رہے۔ اس کے علاوہ غیر جانبدار اور پروفیشنل لوگ بھی موجود ہیں۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے سائنسی ماہرین کو اکھٹا کر عالمِ انسانیت کو اس طرح ایک لانگ ٹرم دھوکہ دینا ممکن نہیں کہ آزاداور غیر جانبدار لوگ حقیقت سے پردہ نہ اٹھائیں۔

اب، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین لاکھ سال عمر رکھنے والا ہومو سیپین(انسان ) کیوں اتنا عقلمند ہو گیا اور 60لاکھ سال کی عمر رکھنے والا چمپینزی کیوں ذہین نہیں ہو سکا؟ اسی سوال کو بڑا کر لیں کہ سولہ کروڑ سال کرّہ ٔ ارض پہ راج کرنے والا ڈائنا سار کیوں ذہین نہ ہو سکا۔ ریپٹائلز کو زمین پر 31کروڑ سال ہو چکے ہیں۔ مچھلی 53کروڑ سال پرانی ہے، لیکن وہ انسان کو شکار کرنے کا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈ سکی۔ اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ اصل میں سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ ارتقا نیچرل سلیکشن کے اصول کے تحت اپنے آپ ہورہا ہے۔ ایک تو خدا نظر نہیں آتا، دوسرا اگر آپ خدا کو تسلیم کریں تو پھر آپ کو اپنا طرزِ زندگی تبدیل کرتے ہوئے بہت سی پابندیاں قبول کرنا ہوتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ مغرب میں خدا کا انکار کرنا فیشن میں ہے۔ خدا پرستوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے، جس طرح آج مغرب میں شادی کر کے عمر بھر ایک ساتھ بتانے والے خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھئی تم دونوں نے پانچ سال ایک ساتھ گزار لیے۔ دوبچے پیدا کر لیے، اب جان چھوڑدو؛ ایک دوسرے کی۔ پیچھے خدا ہے، جس نے صرف ہوموسیپنز کو آزمائش سے گزارنا تھا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ گریٹ ایپس کا دماغ دنیا میں سب سے زیادہ evolvedہے۔ پرائمیٹس کا اس سے کم، میملز کا اس سے کم، ریپٹائلز کا اس سے کم اورمچھلی کا اس سے کم۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ تخلیق کرنے والے نے بھی تو سوچنا تھا کہ سب سے زیادہ جنگجو اور سب سے زیادہ ذہین مخلوق، اگر پہلے پیدا کر دی جائے۔ اگر اسے کروڑوں سال مل جائیں زمین پر تو وہ کیا حال کرے گی اس کا؟ انسان نے تین لاکھ سال میں ہی باقی مخلوقات کی تباہی پھیر دی ہے۔ اگر اسے 53کروڑ سال مل جاتے تو ہر انسان کی جیب میں اپنا ذاتی ایٹم بم ہوتا۔ آخری جواب یہ ہے کہ ڈائنا سار، انسان اور پودوں کے جسم کے اندر موجود کاربن اور دوسرے عناصر کی اصل عمر ایک ہی ہے اور وہ عمر ہے 13.7ارب سال۔ انسان کائنات ہے۔ کائنات انسان ہے۔ ایک دنیا اندر کی اور ایک باہر کی۔ ایک جواب یہ بھی ہے کہ پہلا زندہ خلیہ جب پیدا ہو اتھا، تو اس کے بعد وہ کبھی نہیں مرا۔ ہمیشہ مرنے سے پہلے اپنے جیسے ان گنت پیدا کر کے مرا، لہٰذا زندگی ایک ہی بار پیدا ہوئی تھی اور ایک ہی دفعہ مرے گی۔ ایک بہت بڑے حادثے میں، جسے خدا” القارعہ “کہتا ہے!