242

ارتعاش . ارشاد عارف

امور سیاست و ریاست پر غور و فکر اور بحث کرنے والے دانشوروں اور فلسفیوں نے اچھی حکمرانی کا ایک گُر یہ بھی بیان کیا ہے کہ معاشرے کو پرسکون رکھا جائے‘بلا وجہ ارتعاش پیدا نہ کیا جائے‘معاشرے اور ملک بنیادوں‘دیواروں اور ستونوں پر ایستادہ مسقّف عمارت کی طرح ہوتے ہیں۔ گاہے قدیم اور بوسیدہ عمارتیں اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے باوجود محض چھیڑ چھاڑ نہ کرنے اور لیپا پوتی کرتے رہنے کے سبب عرصہ دراز تک قائم رہتی ہیں جبکہ کنکریٹ سے بنی مضبوط عمارتیں دیکھتے ہی دیکھتے ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ زلزلے کسی عمارت کی بنیادوں پر کدال چلاتے ہیں نہ بلڈوزر سے دیواروں کو گرانے نکلتے ہیں وہ صرف شدید نوعیت کا ارتعاش پیدا کر کے اچھی خاصی پائیدار عمارتوں کو دھڑام سے گرا دیتے ہیں۔طے شدہ اُصولوں پر کاربند اور مطلوب اتفاق رائے کے حامل معاشرے ناموافق حالات کی گرمی سردی برداشت کرتے اور بکھرنے سے محفوظ رہتے ہیں‘وہ ناگزیر ضرورت کے بغیر کسی تنازعہ اور کشمکش سے گریز کرتے ہیں مبادا یہ کشمکش انتشار کی صورت اختیار کر لے اور الجھی صورت حال کو سلجھانا ممکن نہ رہے‘معاشرے کا تانا بانا ہی بکھر جائے۔ایوب خاں کو معزول کر کے یحییٰ خاں اقتدار میں میں آیا تو سیاسی جماعتوں اور عوام سے داد و تحسین اور فوجی آمر کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے ثمرات سمیٹنے کے شوق میں اس نے 1962ء کے آئین کو توڑنے کے علاوہ جمے جمائے ون یونٹ کو توڑ ڈالا‘حالانکہ یہ کام عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پارلیمنٹ اور حکومت کا تھا۔دستور سازی کے شوق میں ایک پنڈورا بکس کھول دیا‘ان کے بے سوچے سمجھے اقدامات اور پالیسیوں نے ایسا ارتعاش پیدا کیا جو آئین اور مضبوط جمہوری اداروں سے محروم ریاست نہ سہہ سکی‘ اقتدار کے بھوکے شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کی کھینچا تانی اس پر مستزاد ‘نتیجہ معلوم۔ بے وقت کے درست فیصلے بھی ملک و قوم کے مستقبل پر ناخوشگوار اثرات ڈالتے ہیں ۔برسر اقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت بھی معاشرے میں ارتعاش برپا کرنے پر تلی ہے‘مخالف سیاستدانوں سے لڑائی جھگڑا تو ہماری قومی روایت ہے‘میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی بدترین محاذ آرائی نے حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے ریکارڈ قائم کئے ‘اس معاملے میں ذوالفقار علی بھٹو کا بھی کوئی ثانی نہ تھا‘جو لوگ آج کل عمران خان اور ان کے وزیروں مشیروں کی تلخ گوئی کا گلہ کرتے ہیں انہیں بھٹو دورکی سیاسی لغت پڑھنے کا موقع ملے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘مولانا شاہ احمد نورانی‘میاں ممتاز دولتانہ‘مولانا مفتی محمود‘ایئر مارشل اصغر خان اور دیگر شرفا کے بارے میں کیسی زبان استعمال ہوتی تھی اور اپوزیشن کا ہمنوا میڈیا بھٹو پر تنقید کی آڑ میں کیا گل کھلاتا تھا‘موجودہ حکومت کا مگر کمال یہ ہے کہ صرف اپوزیشن پر اکتفا نہیں کرتی‘وقتاً فوقتاً قومی اداروں اور مختلف طبقات سے چھیڑ چھاڑ کا شوق پورا کرتی ہے۔ان دنوں قومی میڈیا اور الیکشن کمشن آف پاکستان حکمران طبقے کا ہدف ہیں۔پاکستان کے آزاد میڈیا کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اُسے ایوب خاں سے لے کر میاں نواز شریف تک ہر حکمران نے سرنگوں اور تہہ و بالا کرنے کی تدبیر کی‘اخبارات و جرائد کی بندش‘اشتہارات کی مار‘مقدمات اور گرفتاریوں سمیت کون سا حربہ ہے جو آزمایا نہیں گیا‘مگر سخت جان میڈیا زندہ و سلامت ہے اور ماضی کے انہی حکمرانوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے سرگرم جنہیں ہم ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے‘پرویز مشرف‘آصف علی زرداری اور نواز شریف کس حال میں ہیں؟کسی سے مخفی نہیں۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کانسپٹ پیپر سامنے آیا تو صحافتی تنظیموں نے نرم ردعمل ظاہر کیا ‘سی پی این ای نے تو وفاقی وزیروں فواد چودھری اور فرخ حبیب سے مذاکرات کئے اور اپنی تجاویز پیش کرنے کی ہامی بھری‘فواد چودھری نے اعلان کیا کہ تمام سٹیک ہولڈرز سے بامقصد مشاورت کے بغیر بل تیار ہو گا نہ اتھارٹی بنے گی‘سی پی این ای نے خیر مقدم کیا مگر چند دنوں بعد ایک پروفارما منظر عام آیا جس میں کانسپٹ پیپر کے علی الرغم صحافیوں اور صحافتی اداوں کے لئے لائسنسوں کی معطلی اور دس کروڑ روپے سے پچیس کروڑ روپے تک جرمانے کے اقدامات تجویز کئے گئے تھے‘یہ بھی پتہ چلا کہ وزراء کرام نے صحافتی تنظیموں کو مذاکرات نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے مگر وزارت قانون ایک بل تیار کر رہی ہے جس کا بیشتر حصہ ماضی کے بدنام قوانین سے مستعار ہے‘بھاری جرمانے‘ لائسنسوں کا ازسر نو اجراء ‘میڈیا ہائوسز کی بندش وغیرہ وغیرہ‘اب تمام صحافتی تنظیمیں سڑکوں پر ہیں ۔عمران خان کے جملہ سیاسی مخالفین انہیں ہلّہ شیری دینے میں مشغول اور حکومت کے لئے ’’ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘۔پاکستان میں مسئلہ بے لگام سوشل میڈیا ‘یو ٹیوب چینلز اور فیک نیوز کا ہے‘حکومت مگر کاٹھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ڈالنا چاہتی ہے جو پہلے ہی پیمرا اور پریس کونسل آف پاکستان کی صورت میں ریگولیٹری اداروں کے طے کردہ ضابطہ اخلاق کا پابند ہے۔پی ایم ڈی اے کی چھچھوندر حکومت سے نگلی جاری ہے نہ اُگلی‘تجربہ کار اپوزیشن نے موقع غنیمت جان کر اپنے ماضی کی پردہ پوشی کے لئے شعبہ صحافت کے ہمدرد کا روپ دھار لیا ہے اور کم از کم اس معاملے میں حکومت بالکل یکّہ و تنہا ہے۔ ارتعاش پیدا کرنے کا تازہ کارنامہ وفاقی کابینہ کے دو دانا اور مستعد ارکان فواد چودھری اور اعظم سواتی نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر الزامات کی بوچھاڑ سے انجام دیا ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر عمران خان کا حسن انتخاب ہیں اور کوئی انہیں نواز شریف‘آصف علی زرداری کی باقیات قرار نہیں دے سکتا‘ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی معترض ہو ںتو حکومتی عہدیداروں کا جواب یہی ہوتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ کی حکومت نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے اس منصب پر فائز کیااب بھگتو‘ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عمران خان نے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے بامقصد مشاورت کے بعد کیا۔حکومت کا اعتراض؟ چہ معنی دارد۔چنگی آں یا مندی آں‘صاحب تیڈی بندی آں۔ویسے بھی ادارے مضبوط ہوں تو سب کا بھلا ہے‘آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے ہر فیصلے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا متفق اور مطمئن ہونا ضروری ہے‘روز روز کی ’’چخ چخ‘تو تو‘میں میں‘‘ سے معاشرے میں ارتعاش برپا ہے اور جمہوری و سیاسی نظام کی چولیں ہل رہی ہیں‘مہذب اور دانش و بصیرت سے بہرہ ور حکومتیں چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر برسوں غور کرتی اور مسئلہ کے ہر پہلو کا ناقدانہ جائزہ لے کر قومی جذبات و احساسات کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں‘یہی احتیاط پسندی ان اقوام اور ممالک کو ہر قسم کے خطرات اور نقصانات سے محفوظ رکھتی ہے۔چرخہ چلانے والی اس بڑھیا کی طرح جو سارا دن سوت کاتنے کے بعد شام کے وقت سوت کی اٹی کو پھر روئی میں تبدیل کر دیتی ہے‘ طے شدہ معاملات کو بار بار چھیڑنا اور نت نئے تجربات سے معاشرے میں ارتعاش پیدا کرتے رہنا ایک ایسی غلطی ہے جو ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے۔اسی باعث آزادی کے چوہتر سال بعد بھی ہمارے ہاں ہر مسئلہ متنازع اور ہر معاملہ حل طلب ہے‘ملک کی چولیں ڈھیلی کیونکر نہ ہوں ؎ تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر اتنے نہ در بنائو کہ دیوار گر پڑے

اپنا تبصرہ بھیجیں