mazhar-barlas articles 221

اتنے بھی برے نہیں مگر…! مظہر برلاس

ایک کالم لکھا ….’’ سب کچھ گدلا ہے….‘‘ اس میں میرے بیوروکریٹ دوست نے بڑی صفائی سے معاشرے میں لوٹ مار کرنے والے طبقات کو دھونے کی کوشش کی اور ایک پوری قوم کو ایک ایسے ٹب کی مانند قرار دیا جس میں کرپشن زدہ گدلا پانی ہے۔ اس نے کرپٹ طبقات کی مثال گلاسوں کی نسبت سے دی اور کہا اس تمام تر لوٹ مار کا ذمہ دار عام آدمی ہے یعنی عوام ہی قصور وار ہیں۔ اپنے پیارے دوست کے سامنے ہم بھی ایک مثال دیتے ہیں۔ آپ نے جسے ٹب قرار دیا، آپ اسے بھینس تصور کریں، آپ نے جن طبقات کو گلاس قرار دیا، آپ انہیں جونکیں سمجھیں، بس یہی سمجھ لیجئے کہ عوام ایک بھینس کا نام ہے، انہیں لوٹنے والی جونکیں ہیں جو ان کا خون چوس رہی ہیں، آپ بجائے گلاسوں کے، ان جونکوں پر انہی طبقوں کے نام لکھوا دیں۔ اس کے بعد پتہ نہیں بیورو کریٹ دوست کون سی نئی دلیل لاتا ہے کیونکہ ایک جونک پر بیورو کریسی بھی لکھا ہوا ہے اور دوسری جونکوں پر باقی طبقوں کے نام ہیں۔

اس سے اگلا کالم لکھا ….’’ہم لوگ بہت برے ہیں….‘‘ اس پہ دو اساتذہ کے تبصرے دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔ ایک تبصرہ کراچی یونیورسٹی کے استاد اور روحانی کونسل رومانیہ کے سربراہ کا ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں خدمات انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید فرماتے ہیں ’’واہ مرشد! آپ کا تصرف رہا تو ان شا اللہ بہت برے لوگ بھی اچھے ہو جائیں گے، آپ نظر کرم تو فرمائیں، آپ خلق خدا کے لئے مثال ہیں، آپ کے کالموں کے ذریعے مولا علیؓ کے بہت سے فرمودات سے صرف آگاہی ہی نہیں بلکہ رہنمائی بھی ملی، آپ پر خاص ہستیوں کی خاص مہربانیاں ہیں، آپ کو روحانی قوت کی جو نعمت حاصل ہے ہم جیسے عاصیوں کو شیئر کریں کہ ہماری اصلاح ہو….‘‘ کئی کتابوں کے مصنف اور جامعہ کراچی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید کا بہت شکریہ مگر ان سے گزارش ہے کہ میں اس قابل کہاں؟ میں تو کسی بھی قسم کی سیاسی جانبداری کو ایک طرف رکھ کے خالصتاً معاشرے کی بھلائی کی باتیں کر رہا ہوں، لوگوں کو فرقہ پرستی سے بھی دور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ فرقہ بندی سے بچیں۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے کتاب حکمت یعنی قرآن پاک میں بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ وہ تفرقوں میں نہ پڑیں۔

اس کالم کی اشاعت کے بعد پیارے دوست بریگیڈیئر شاہد محمود سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے …’’ گلے ملو ہم اتنے بھی برے نہیں….‘‘ میرے بچپن کے دوست اور انگریزی ادب کے استاد پروفیسر اجمل خان ہمیشہ معاشرے اور سیاست پر دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب بیرونی دنیا میں بھی درس و تدریس سے وابستہ رہے مگر اب چند برس سے پاکستان ہی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر اجمل خان فرماتے ہیں ….’’ اس قوم کو کرپشن بطور نصاب پڑھائی گئی ہے، پچھلے تیس سال میں ہم پر بطور قوم سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ ہماری اخلاقیات تباہ کر دی گئی، ہمارا قومی کردار برباد کیا گیا، ہم نوے کی دہائی کے اثرات ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ بحیثیت قوم ہماری تربیت اساتذہ، علماء، صحافیوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داری تھی کہ لوگ تو بھیڑ بکریوں کی مانند ہوتے ہیں، انہیں سدھایا جانا ہوتا ہے لیکن ہمارے اساتذہ، علماء ، صحافی اور سیاستدان الٹا ہمیں کرپٹ کر رہے ہیں۔ آپ کے بیان کردہ واقعات چیخ چیخ کر بطور قوم ہماری ناکامی کی گواہی دے رہے ہیں۔ آپ جیسے دس کالم نویس آج تہیہ کر لیں کہ اسی طرح کے کالم لکھنے ہیں، دس اینکر اسی طرح کے پروگرام شروع کر دیں، چوروں اور شوبازوں کو میڈیا میں ہیرو بنا کر پیش کرنا بند کر دیں تو دو سال بعد بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ اس کا اثر اساتذہ پر بھی نظر آئے گا، معاشرہ درست سمت اختیار کرلے گا،اس طرح کا کالم لکھنے پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں….‘‘ اگر پروفیسر اجمل خان انگریزی ادب کے استاد ہیں مگر ان کی معاشرے پر بہت گہری نظر ہے، اب تو وہ سماجیات اور سیاسیات کے استاد بھی لگنے لگے ہیں۔ ان کی باتیں درست ہیں۔ کسی دن قوم کی اخلاقیات تباہ کرنے والے ان چاروں کرداروں پر لکھوں گا مگر امید رکھنی چاہئے کہ ؎

دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے

کئی قومی اور بین الاقوامی سیمینارز میں ایک ماہر سماجیات کے طور پر شرکت کرنے والی محترمہ فاخرہ سلطانہ چٹھہ نے صرف یہ لکھا کہ ….’’معاشرے کو آئینے دکھانے پر میں لاجواب سی ہو کر رہ گئی ہوں….‘‘ ایک اور تبصرہ بڑا دلکش ہے۔ سابق بیورو کریٹ فضل الرحمٰن ملک جو کہ اطلاعات و نشریات میں اعلیٰ اور ذمہ دار عہدوں پر رہے، وہ کہتے ہیں کہ …’’ لوگوں کی باتوں کو دل پر مت لیا کریں، لوگ تو امرود کو بھی میٹھا ہونے کی شرط پر خریدتے ہیں اور بعد میں نمک لگا لگا کر کھاتے ہیں….‘‘ بالکل درست فرمایا کہ کئی لوگوں کو اصلاحی باتیں بری لگتی ہیں مگر خلیل الرحمٰن قمر کے اشعار بھی تو یاد رکھئے کہ

ایک چہرے سے اتری ہیں نقابیں کتنی

لوگ کتنے ہمیں اک شخص میں مل جاتے ہیں

وقت بدلے گا تو اس بار میں پوچھوں گا اسے

تم بدلتے ہو تو کیوں لوگ بدل جاتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں