72

آئی ایم ایف کی مالی امداد کے لیے امریکہ سے بات کرنا آرمی چیف کا کام نہیں: عمران خان

آئی ایم ایف کی مالی امداد کے لیے امریکہ سے بات کرنا آرمی چیف کا کام نہیں: عمران خان
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مالی امداد کے جلد اجرا کے لیے امریکی حکام سے رابطہ کرنے کی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ یہ ‘آرمی چیف کا کام نہیں تھا۔’
پاکستان کے ایک ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز پر جمعے کے روز نشر ہونے والے انٹرویو میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کی طرف سے امریکی ڈپٹی سکریٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمن سے رابطہ کرنے کی خبروں کے بارے میں عمران خان سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تھا۔
جمعے کے روز بعض غیر ملکی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی ڈپٹی سکریٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمن سے رابط کیا اور آئی ایم ایف سے قریب ایک اعشارہ دو ارب ڈالر کی مالی امداد کے جلد اجرا کے بارے میں بات کی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعے کو جنرل باجوہ اور وینڈی شرمن کے درمیان رابطے کے بارے میں خبروں کی تصدیق کی ہے۔ ہفتہ وار بریفنگ میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کہا کہ دفتر خارجہ اس بارے میں آگاہ نہیں ہے کہ جنرل باجوہ نے ونڈی شرمن سے پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کا شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر اس بارے میں تبصرہ کرے گا۔‘ تاہم پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے تاحال ان اطلاعات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق جنرل باجوہ نے ’پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے آئی ایم ایف سے قرض کی جلد فراہمی میں تعاون کے لیے واشنگٹن سے رابطہ کیا ہے۔‘ اس خبر میں سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ ’آرمی چیف نے رواں ہفتے کے آغاز میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے فون پر بات کی تھی۔۔۔ پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے آرمی چیف واشنگٹن کی توجہ مبذول کروانے پر مجبور ہوئے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف سے سٹاف کی سطح پر ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت ساتویں اور آٹھویں مشترکہ پروگرام میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو چھ ارب ڈالر فراہم کرنے ہیں، اس کی قریب ایک اعشارہ دو ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری ہونی ہے۔
یہ رقم جس کی پاکستان کو اپنی موجودہ معاشی صورت حال میں اشد ضرورت ہے وہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو سطح پر معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے نہیں مل پا رہی۔ اطلاعات کے مطابق ایگزیکٹیو سطح پر معاہدہ اگست کے آخر تک تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
’امریکہ ہماری مدد کرے گا اور ہم سے مطالبہ نہیں کرے گا؟‘
آرمی چیف کے امریکہ سے رابطے کے سوال پر تبصرے سے قبل عمران خان نے اپنے مخصوص انداز میں ایک دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا کہ جب امریکہ مدد کرے گا تو کیا وہ کچھ مطالبہ نہیں کرے گا؟‘
عمران خان نے کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت پر نہ تو ملک میں کسی کو بھروسہ ہے، نہ ہی آئی ایم یف کو بھروسہ ہے اور نہ ہی ملک کے باہر ان پر کوئی اعتماد کرتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسی صورت حال میں آرمی چیف نے یہ ذمہ داری ادا کی ہے۔
عمران خان نے ان کی حکومت کی طرف سے دی گئی قومی سلامتی پالیسی کا ذکر کیا اور کہا کہ اس پالیسی میں ملک کی سلامتی کے ساتھ ساتھ ملکی کی معاشی سلامتی پر بھی زور دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر جنرل باجوہ نے امریکی حکام سے بات کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ آرمی چیف کا تو کام نہیں ہے اور اگر اس طرح ملک کمزور ہوتا چلا گیا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ ہماری مدد کرے گا اور ہم سے مطالبہ نہیں کرے گا؟‘
عمران خان نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ آپ کے خیال میں امریکہ کیا مطالبہ کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ جس طرح کے مطالبے پاکستان سے کیے جاتے ہیں اگر وہ اس حد تک گیے تو پاکستان کی سکیورٹی کمزور ہو گی۔ عمران خان نے اس ضمن میں پاکستان کی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے موجودہ معاشی بحران اس سے نکلنے کا واحد راستہ صاف اور شفاف عام انتخابات ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ انتخابات کے بعد پانچ سال کے لیے ایک حکومت قائم ہو گی جس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور معیشت کی بحالی میں بھی مدد ملے گی۔
صوبہ پنجاب میں حال ہی میں 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود عوام نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ تحریک انصاف کے حق میں ڈال کر اس کو جو کامیابی دلائی ہے اس نے بقول ان کے ’آپریشن رجیم چینج کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں