594

یکساں نصاب تعلیم کے نام پر سازشیں.مفتی گلزاراحمدنعیمی

یکساں نصاب تعلیم کے نام پر سازشیں
پاکستان اسلام مخالف قوتوں کی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔آئے دن نت نئی سازشیں بنی جارہی ہیں۔نئے لوگ، نئے ادارے ان سازشوں کو پھیلانے کے لیےاستعمال کیے جاتے ہیں۔ابھی ایک مشکل سے نبردآزما ہوا ہی جاتا ہےتو نئی مشکل نئی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ابھی فرانسیسی سفیر کا بحران کچھ ٹھنڈا پڑا ہی تھا کہ صوبہ پنجاب میں نصاب تعلیم سے تمام اسلامی مواد نکال دینے کا مسئلہ کھڑ ا کر دیا گیا۔اب یہ بات پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے کہ شعیب سڈل کے ون مین کمیشن نے صوبہ پنجاب کے ہیومن رائٹس اینڈ مائینارٹی افیئرز کولکھا کہ یکساں نصاب تعلیم کی پالیسی کے تحت وہ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کو احکامات جاری کرے کہ وہ مختلف مضامین سے اسلامی مواد کو نکال کر صرف اسلامیات کے مضمون تک اسے محدود کردے۔چناچہ اس حکم کے تحت تمام درسی کتب سے حمد ونعت سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلفائے راشدین اور اسلام کے عظیم ہیروز اور صوفیاء کی تعلیمات کو نصاب سے نکالنے پر عملا کام شروع بھی ہو گیا۔اس کے لیے عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی نہ کیا گیا اور نہ ہی پنجاب کی صوبائی کابینہ کی منظور کو اہم سمجھا گیا۔خدا بھلا کرے ان فرض شناس اور محب وطن پاکستانی افسران کا جہنوں نے اس گھناؤنی سازش کو بہت ہی جلد تشت ازبام کر دیا۔یوں ون میں کمیشن کی یہ گھناؤنی سازش کامیاب نہ ہوسکی۔
جہاں تک ون کمیشن کا تعلق ہے یہ 2014 میں سپریم کورٹ نے بنایا تھا اور اسکا صرف ایک مقصد تھاکہ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق سپریم کورٹ کےایک خاص فیصلے پر اس کمیشن کے ذریعے سے عمل کروایا جاسکے۔اسکا سربراہ ایک معروف بیوروکریٹ جناب شعیب سڈل کوبنایا گیا۔چونکہ شعیب سڈل ہی اس کمیشن کے اکلوتے ممبر ہیں اس لیے اسے ون مین کمیشن کہاجاتا ہے۔اس کمیشن نے 30 مارچ کو یکساں نصاب تعلیم پر اپنی تجویز پیش کی تھیں کہ قومی نصاب کی تمام کتب سے اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے جو مواد ہے اسے نکال دیا جائےاور اسے صرف اسلامیات میں شامل رکھا جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی نصاب سے اسلامی مواد کو خارج کرنے کی تجویز ون مین کمیشن نے کیوں دی؟ کیا یہ مطالبہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کا ہے؟اسکا واضح اور دوٹوک جواب ہے کہ نہیں۔یہ مطالبہ کسی بھی غیر مسلم پاکستانی کمیونٹی کا نہیں ہے۔میں سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والے نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز کا ممبر ہوں اسکی تشکیل کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے اور اسکے متعدد اجلاس بھی ہوچکے۔اس کمیشن میں تمام اقلیتوں کے بہت ہی سنجیدہ، پڑھے لکھے اور معاملہ فہم نمائندے موجود ہیں۔انہوں نے کبھی ایک دفعہ بھی اس پر گفتگو نہیں کی کہ اسلامی مواد کی وجہ سے ہمیں نقصان ہورہا ہے۔اسی وجہ سے جب یہ سازش منظر عام پر آئی تو اس کے خلاف قومی اقلیتی کمیشن کے چیرمین محترم چیلا رام کیولانی نے بیان دیا۔چیلا رام کیولانی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔بہت محبت کرنے والی شخصیت ہیں اور سچے محب وطن پاکستانی ہیں۔میری عیسائی کمینوٹی کے نمائندہ جناب البرٹ ڈیوڈ اور ڈاکٹر سارہ صفدر سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی تو انہوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔
حکومتی سطح پر بھی اسکے خلاف سخت رد عمل آیا۔پیرزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امور نےایک نجی چینل کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سفارشات بالکل یک طرفہ ہیں اور افراتفری پھیلانے کا پروگرام لگتا ہے۔شعیب سڈل کو ایک محدود مدت کے لیے اختیار دیا گیاتھا۔یہ صرف ایک شرارت ہے اور ہم ہر سطح پر اسکا مقابلہ کریں گے۔یہ مذہبی۔منافرت پھیلانے کا ذریعہ ہے یہ کہیں بھی قابل قبول نہیں ہے”
وفاقی وزیر مذہبی امور نے اسے ایک شرارت اور مذہبی منافرت پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ہےقرار دیا ہے۔میرے خیال میں یہ صرف شرارت ہی نہیں ہے بلکہ ایک سازش ہے۔یہ اقلیتوں اور اکثریت کو دست وگریباں کرنے کی سازش ہے۔یہ پاکستان کے ایمیج کو تباہ کرنے کی ایک سازش ہے۔میں حکومت اور مذہبی طبقہ کو بہت واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ اس سازش کے پیچھے فتنہ قادیانیت ہے۔ون مین کمیشن کے نیچے کام کرنے والے افراد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو قادیانی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔انکی شدید ترین خواہش ہے کہ حکومت کے قائم کردہ اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو نمائندگی ملے۔یہ حکومت کی دانشمندی ہے اور وفاقی وزیر مذہبی امور کی استقامت ہے کہ انہیں اس کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا۔قومی اقلیتی کمیشن کے قیام کے بعد بھی جب ون مین کمیشن اور قومی اقلیتی کمیشن کے دو مشترکہ اجلاس ہوئے تو وہاں بھی ون مین کمیشن کے نمائندے نے میرے ساتھ اس موضوع پر بہت سخت الفاظ کا تبادلہ کیا۔میری دانست کے مطابق صوبہ پنجاب کے ٹیکسٹ بورد کو یہ تجاویز اس لیے دی گئیں تاکہ قادیانی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔یہ اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ بالکل بھی نہیں ہے۔قومی اقلیتی کمیشن کے اجلاس کے افتتاح پر تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں۔سب سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے۔اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ کسی اقلیتی مذہب کا نہ مطالبہ ہے نہ ایجنڈا۔یہ ایجنڈا اسی مذہب کا ہے جسکا میں نے درج بالا سطور میں ذکر کیا ہے۔
بعض افراد اور بعض تنظیموں کا خیال ہے کہ یہ حکومت نے کرایا ہے اس لیے وہ اسے مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ جب حکومت قرآن مجید کی تعلیم کو تعلیمی اداروں میں ضروری قرار دے رہی اور جس حکومت کا وزیراعظم تعلیمی اداروں میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیمی اداروں میں پڑھانا ضروری قرار دیتا ہو وہ حکومت اردو سے حمد و نعت اور دوسرے اسلامی مواد کو کیوں نکالے گی۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ خفیہ طریقے سے سب کچھ ہوا ہے۔ حکومت کو یہ خفیہ طریقہ استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔حکومت اپنے لیے کوئی بھی بحران نہیں کھڑا کرنا چاہتی۔ہمیں ہر معاملہ میں حکومت کو مورد الزام نہیں ٹہرانا چاہیے۔
آخری بات یہ ہے آئین پاکستان کا آرٹیکل 31 ہر حکومت کوپابند بناتا ہے کہ وہ قرآن اور اسلامی تعلیمات کی تدریس کا باقاعدہ انتظام کرے۔آرٹیکل 31 مین واضح لکھا ہے کہ” قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت پہنچانا”
قائد اعظم علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں ہم اسلامی کلچر اور ثقافت کی حفاظت کریں گے۔ہم بھی قائد اعظم کے اس فرمان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔یہاں ہم اسلام اسلامی کلچر کی حفاظت کریں گے اور اس فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔
ان شاء اللہ۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں