364

یکساں’’خطباتِ جمعہ‘‘کی ترویج کا مسٔلہ.ڈاکٹر طاہر رضا بخاری

چاند کی رویت اور قمری کیلنڈر کے علاوہ،جن دیگر امور میں سعودی عرب کو’’آئیڈیا لائز‘‘(Idealize)کیا جاتا ہے،ان میں ایک اہم مسٔلہ’’یکساں خطباتِ جمعہ‘‘کا بھی ہے ،جنہیں عرفِ عام ’’سرکاری خطبات‘‘بھی سمجھا اور جانا جاتا ہے، جس کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں ایک مرتبہ پھر زیر غور لاتے ہوئے،بحر کی اِن پُرسکون موجوں کو مضطرب اور مرتعش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس سلسلے میں تقریباً ایک سو مختلف موضوعات کا انتخاب کر کے ، ان پر بہتر ین دینی اور تحقیقی مٹیریل ترتیب دینے کا عزم کیا گیا ہے،اُ مید واثق کہ ماضی کی طرح، ان عنوانات و موضوعات پر مبنی مفصل اور مبسوط کتاب، طباعت و ا شاعت کے بعد، ملک بھر کے آئمہ/خطبأ کو مطالعہ کے لیے پیش ہوگی ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو غالباً یہ ذمّہ داری صدر مملکت جناب عارف الرحمن علوی کی طرف سے تفویض ہوئی ،جو کہ دینی اقدار اور اسلامی روایات کے بڑے متمنی اور روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کے علمبردار اور بالعموم ہمارے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نورالحق قادری کی معیت و مصاحبت میں وطنِ عزیز کے علمأ، مشائخ اور دینی شخصیات سے رابطہ اور گفت و شنید کی کوئی نہ کوئی صورت نکا لنے کے شائق اور گاہے بگاہے اس مقصد کے لیے ایوانِ صدر کے دَر بھی وَ اکر دیتے،جیسا کہ انہوں نے ایک روزقبل بھی ، ایسی ہی ایک وقیع اور جامع نشست کا اہتمام فرمایا: ’’سرکاری خطبات‘‘ کی تشکیل جیسی، اس طرح کی ہر کوشش کو دیکھنے اور جانچنے کے حوالہ سے ہمارا عمومی روّیہ اور ردِّ عمل منفی نوعیت کا ہوتا ہے ، لہٰذا ابتدأ ہی میں ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ جس طرح سعودی عرب سمیت دیگر عرب ریاستوں میں جمعہ کے موقع پر ہر خطیب کو حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر ایک تحریری خطبہ موصول ہوتا ،جس کو وہ جمعہ کے موقع پر پڑھنے کا پابند ہوتا ،اور خطیب صاحب،جمعہ کے موقع پر اس تحریری خطبے کے علاوہ کچھ اور کہنے اور بولنے کا مجاز نہیں ہوتے،شاید ایسا ہی کوئی نظام اس خطّے میں بھی مروّج ہونے جارہا ہے ۔حالانکہ میری دانست کے مطابق، ایسا سرے سے ، کچھ بھی نہیں ۔ بر صغیر کا دینی کلچر اور محراب و منبر، دنیا کے دوسرے خطّوں سے مختلف اور بہت زیادہ خود مختار ہے ۔ عرب ریاستوں کا اپنا شاہانہ کروفر ہے ،جبکہ ہم جمہوری مزاج میں رچے بسے لوگ۔۔۔وہاں کی جملہ مساجد اور مدارس سرکاری تحویل اور کنٹرول میں ہیں،سرکاری اخراجات پر مساجد بنتی اور انُ کا مکمل بجٹ حکومت کی ذمّہ داری ہے ۔سعودی عرب میں “The Ministry of Islamic Affairs, Dawah and Guidance”موجود ہے، اس ادارے کا بنیادی مقصد مذہبی معاملات کی نگرانی اور سرکاری خطبات کا اجراء ہے۔ترکی میں مذہبی امور کا ڈائریکٹوریٹ ایک ریاستی ادارہ ہے جو کہ 1924میں آرٹیکل 136کے تحت سلطنت عثمانیہ کے اختتام پر قائم کیا گیا ۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اسلامی عقائد ، عبادات، اور اخلاقیات سے متعلق امور کو انجام دینا۔ عوام کو ان کے مذہب کے بارے میں راہنمائی ، اور عبادت گاہوں کا انتظام کرنا ہے۔ یہ ادارہ ملک کی 85,000مساجد اور بیرون ملک 2,000سے زائد مساجد کے لیے ہفتہ وار خطبہ تیار کرتا ہے۔ ترکی کی تمام مساجد کا عملہ سرکاری ملازمت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی طرح مصر میں مساجد کی نگرانی کرنے والی وزارت اوقاف نے جمعہ کے خطبہ کا اہتمام جرمن، فرانسیسی ، روسی ، ہسپانوی ، انگریزی ، یونانی ، ترکی اور اردو میں کر رکھا ہے۔بیشتر اسلامی ممالک میں، پرائیویٹ سیکٹر یا ذاتی و نجی تحویل میں کسی مسجد یا مدرسہ کے قیام کا کوئی تصوّر نہیں۔ یوں سرکاری مساجد میں جو سٹاف تعینات ہوگا، یقینا وہ بھی سرکاری ملازم ہوگا اورہر سرکاری ملازم قواعد و ضوابط کا پابند اور ریاستی و حکومتی پالیسی کا ترجمان اور مبلغ ہوگا۔ بر صغیر پاک وہند میںدین اور دینی اداروں کا درباراور سرکار سے زیادہ تعلق نہ رہا،سلاطین و امرأ نے اگر سرکاری خزانے سے کبھی مساجد بنوائی بھی،تو وہ زیادہ دیر تک۔۔۔سرکار کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام نہ دے سکیں۔ برصغیر میں دینی علوم کی تحصیل و ترویج اور درس وتدریس میں پرائیویٹ سیکٹر کا غلبہ رہا۔اگرچہ علی گڑھ یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند نے طلبہ کے باہمی تبادلے کی کوشش کی،مگر معاملہ دیر پا نہ ہوسکا۔ موجودہ صدی کے اوائل میں ریاستی سطح پر پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس کا اجراء ، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈکا قیام اور ماڈل دینی مدارس کی تشکیل عمل میں لائی گئی ۔مگر بدقسمتی سے خاطرہ خواہ نتائج میسر نہ آئے اوریوں اس اہم ترین شعبے میں ریاست اور حکومت رسوخ حاصل نہ کرسکی۔ خطباتِ جمعہ کے علمی اور تحقیقی پائے کا معتبر ہونا یقیناً ہر دور کی طرح، اس دور کی بھی اہم ترین ضرورت ہے اور کم وبیش حکومتی اور سرکاری اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ دینی قیادت وسیادت بھی اس پر اپنی درد مندی اور دلسوزی کا اظہا ر کرکے، علماء و خطباء کرام کو اپنے خطبات موثر اور معتبر بنانے پر زور دیتے رہتے ہیں۔ اسی تناظر اور تسلسل میں بعض اوقات ریاست کی طرف سے سرکاری خطباتِ جمعہ یا یکساں خطباتِ جمعہ جیسے مختلف امور زیر غور رہتے ہیں،جیسے کچھ عروصہ قبل اسلام آبا د انتظامیہ نے محض وفاقی ایریا کی حد تک ایسی ہی ایک کوشش کی تھی۔ اسی طرح اَسّی کی دہائی میں نفاذِ اسلام کی کوششوں کے نتیجہ میں وفاقی وزارتِ مذہبی امور اسلام آباد نے خطبات ِ جمعہ کے ٹائیٹل کے ساتھ پورے سال، جمعہ اور عیدین کے لیے بَاوَن خطبات ترتیب دے کر اس کتاب کو اعزازی طور پر عام کیا ،332صفحات پر مشتمل اِن ضخیم خطبات کے موضوعات یقیناً اتحاد واتفاق ،اَمن ورواداری ،انسا ن دوستی ،اخوت ومساوات جیسے جذبوں کے امین تھے ، اسی طرح مابعد بھی ایسی ہی ایک کاوش کے نتیجہ میں 370صفحات پر مشتمل کتاب’’خطبات‘‘کے نام سے ترتیب پائی ، ان حکومتی کاوشوں کے ابتدائیہ میں یہ بات بطورِ خاص تحریر کی گئی کہ ان خطبات کو طبع کرنے کا مقصد علماء وخطباء کو کسی خاص کتاب ، مواد یا موضوع کا پابند بنانا نہیں بلکہ اس کا مقصد جدید عصری موضوعات کے حوالے سے ان کو مطالعاتی مواد فراہم کرنا ہے۔ گویا مساجد کے اندریکساں خطباتِ جمعہ یا معیاری خطبات کی ترویج ہر دور میں کسی نہ کسی طرح زیر غور رہی ، تاہم اس خطہ کی معلوم تاریخ کے مطابق یہاںپر یہ تجربہ کلیتاً کامیاب نہ ہوسکا۔ علمی اور فکری اعتبار سے یہ کوئی ایسا غیر مستحسن عمل بھی نہ ہے ، تاہم مساجد اورمحراب ومنبر اس نوعیت کے سرکاری کاوش کو اپنے کارِ خاص میں مداخلت اور دینی شعائر اور روایات کے منافی خیال کرتے ہیں ،جس سے بہت سے مسائل پیدا ہونے کا احتمال موجود رہتا ہے ۔ علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی اپنے اپنی خود نوشت’’اپنا گریباں چاک‘‘میں جو معروضات اپنے والدِ گرامی کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے چند سوال اُٹھائے تھے وہ ہمارے موضوع سے یقیناً قریب تر ہیں ۔وہ لکھتے ہیں :’’اس ضمن میں آپ اس تجویز کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف شعبوں سے دینیات کا شعبہ الگ کردیا جائے۔ اس شعبہ کا کام مساجد اور مدرسوں کو کنڑول کرنا ہو، مدرسوں کے لیے جدید نصاب کا تعین کرنا اورانہیں یونیورسٹیوں سے منسلک کرناہو۔ اسی طرح صرف حکومت کے سند یافتہ آئمہ مساجد کا تقرر اس شعبہ کی ذمہ داری ہو۔ جب ترکی میں اس طرز کی اصلاحات نافذکی گئیں تو آپ نے بڑے جوش وخروش سے ان کا خیر مقدم کیا اور فرمایا تھا کہ اگر مجھے ایسا اختیار حاصل ہو تو میں فوراً یہ اصلاح مسلم انڈیا میں نافذ کردوں‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں