یوکرین جنگ طویل ہوسکتی ہے روس کامیاب ہوا تو بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی نیٹو کا انتباہ
کیف / دوحہ / واشنگٹن / تہران / کولمبو (اے ایف پی / نیوز ایجنسیز) روس اور یوکرین جنگ کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے، نیٹو چیف جنز اسٹولٹن برگ نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین جنگ طویل ہوسکتی ہے ، روس کامیاب ہوا تو بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی، تاہم جنگ کی قیمت چاہے خوراک اور توانائی کے بڑھتے نرخ ہی کیوں نہ ہوں یوکرین کی مدد کم نہیں کرسکتے، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی کہا ہے کہ طویل جنگ کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ جرمنی میں ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے کوئلے پر انحصار شروع ہوگیا ہے اور جرمن وزیر معیشت نے کہا کہ گیس کے استعمال کو کم کرنے کیلئے کوئلہ ناگزیر ہے۔ گیس کیلئے اٹلی قطر سے 29؍ ارب ڈالر کے معاہدہ میں شامل ہوگیا ہے جبکہ امیر ملکوں کے مرکزی بینکوں نے کساد بازاری سے نمٹنےکی کوششیں تیز کردیں، امریکا میں معاشی سست روی ہے تاہم امریکی سیکرٹری خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکا میں کساد بازاری ’ناگزیر‘ نہیں، معیشت سست ہونیکا امکان ہے۔ دوسری جانب ایران میں بھی مہنگائی بڑھ گئی ،روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے شہری پریشان ہوگئے ، ادھر سری لنکا میں ایندھن کیلئے طویل قطاریں ہرجگہ موجود ہیں ، فوج کیخلاف ہونے والے فسادات میں آرمی نے فائرنگ کردی جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین جنگ جاری رہی تو دنیا قحط سے جہنم بن جائے گی۔علاوہ ازیں آسٹریا کے حکومت نے بھی کوئلے سے چلنے والے پاور اسٹیشن کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے چیف نے خبردار کیا ہے کہ مغرب کو ایک ایسی جنگ میں یوکرین کی مدد کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا جو کئی سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جنز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ’جنگ کی قیمت بےشک بہت زیادہ ہے لیکن اگر روس اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس سے بھی بڑی قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی ایک طویل تنازع کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کی ہے ۔ وزیر اعظم بورس جانسن اور نیٹو چیف اسٹولٹن برگ دونوں نے ہی کہا ہے کہ مزید اسلحہ فراہم کرنے سے یوکرین کی جیت ممکن ہو سکتی ہے۔ نیٹو چیف نے جرمنی کے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ یہ جنگ برسوں جاری رہ سکتی ہے۔ ہم یوکرین کی مدد میں کمی نہیں آنے دے سکتے۔‘ ’چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ہو، صرف فوجی امداد کی قیمت ہی نہیں، بلکہ خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی۔‘ برطانیہ کے اخبار برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن پر الزام عائد کیا کہ وہ ’پرتشدد مہم کے ذریعے یوکرین کو بربریت سے جھکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ بورس جانسن نے لکھا ہے کہ ’مجھے ڈر ہے کہ ہمیں ایک طول جنگ کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ وقت سب سے اہم عنصر ہے۔ ہر چیز کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ کیا یوکرین روس کی جانب سے نئے حملے سے قبل اپنی دفاع کرنے کی صلاحیت مضبوط تر بناتا ہے یا نہیں۔‘ ادھر امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے چند دن بعد سیکرٹری خزانہ جینیٹ ییلن نے کہا ہے کہ امریکا میں کساد بازاری ’ناگزیر‘ نہیں لیکن معیشت کے سست ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے اے بی سی پر کہا کہ میں توقع کرتی ہوں کہ معیشت سست ہوگی کیونکہ یہ اس ہفتے مستحکم ترقی کی طرف منتقل ہو رہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کساد بازاری بالکل بھی ناگزیر ہے۔ امریکی معیشت کووڈ 19 سے ہونے والے نقصان سے مضبوطی سے بحال ہوئی ہے لیکن یوکرین میں جنگ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سپلائی چین کی خرابی نے مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ییلن نے اعتراف کیا کہ واضح طور پر افراط زر ناقابل قبول حد تک زیادہ ہے جو جزوی طور پر یوکرین کی جنگ سے منسوب ہےجس نے توانائی اور خوراک کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ صارفین کے اخراجات میں کمی کساد بازاری کی ممکنہ وجہ ہے۔ دوسری جانب اٹلی کی Eni قطر کے بڑے گیس منصوبے میں شامل، قطر انرجی کا کہنا ہے کہ اینی نارتھ فیلڈ ایسٹ پروجیکٹ میں صرف تین فیصد سے زیادہ حصص کی مالک ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق روس کی جانب سے اٹلی کو سپلائی کم کرنے کے چند دن بعد اطالوی کمپنی اینی نے دنیا کے سب سے بڑے قدرتی گیس فیلڈ سے پیداوار کو بڑھانے کے لیے قطر انرجی کے 28.75 ارب ڈالرز کے منصوبے میں شمولیت اختیار کرلی ۔ قطر انرجی کے سی ای او نے دوحہ میں ایک دستخطی تقریب کو بتایا کہ اینی نارتھ فیلڈ ایسٹ پروجیکٹ میں صرف تین فیصد سے زیادہ حصص کی مالک ہوگی۔ قطر نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فرانس کیٹوٹل انرجیز 6.25 فیصد شیئر کے ساتھ اس کی ترقی میں پہلی اور سب سے بڑی غیر ملکی شراکت دار ہوگی۔ کمپنیوں کی ایک نامعلوم تعداد بھی مقرر ہے جن کے نام بتائے جائیں گے۔ قطر کے وزیر توانائی سعد شیریدہ الکعبی نے کہا کہ آج مجھے اس منفرد اسٹریٹجک پروجیکٹ میں اینی کے شراکت دار کے طور پر انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ ایل این جی پروجیکٹ – گیس کی ٹھنڈی شکل جو اسے نقل و حمل کو آسان بناتی ہے – کے 2026 میں آن لائن آنے کی امید ہے۔قطر انرجی نے کہا کہ یہ قطر کی ایل این جی کی پیداوار کو 77 ملین ٹن سالانہ سے بڑھا کر 110 ملین تک لے جائے گا۔ ادھر جرمنی نے اتوار کو روسی گیس کی سپلائی میں کمی کے بعد اپنی توانائی کی ضروریات کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کا اعلان کیا، جس میں کوئلے کی طرف واپس جانا بھی شامل ہے جسے اس نے ’تلخ لیکن ناگزیر‘ قدم قرار دیا۔ وزارت اقتصادیات نے ایک بیان میں کہا کہ گیس کی کھپت کو کم کرنے کے لیے، بجلی پیدا کرنے کے لیے کم گیس استعمال کی جانی چاہیے۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کو زیادہ استعمال کرنا پڑے گا۔جرمنی کے معیشت اور موسمیاتی وزیر رابرٹ ہیبیک نے ایک بیان میں کہاکہ یہ تلخ ہے لیکن گیس کی کھپت کو کم کرنے کے لیے کوئلہ ناگزیر ہے۔ سری لنکا کی فوج نے ایک ایندھن اسٹیشن پر فسادات پر قابو پانے کیلئے فائرنگ کی، حکام نے اتوار کو بتایا کہ دیوالیہ ملک بھر میں پیٹرول اور ڈیزل کے لیے طویل قطاریں دیکھی گئیں۔ فوج کے ترجمان نیلانتھا پریمارتنے نے بتایا کہ ہفتے کی رات کولمبو کے شمال میں 365؍ کلومیٹر دور واقع ویزوماڈو میں فوجیوں نے فائرنگ کی جب ان کے گارڈ پوائنٹ پر پتھراؤ کیا گیا۔ پریمارتنے نے بتایاکہ 20سے 30؍ افراد کے ایک گروپ نے پتھراؤ کیا اور فوج کے ایک ٹرک کو نقصان پہنچایا۔ علاوہ ازیں سری لنکا میں معاشی بحران سنگین شدت اختیار کرگیا ہے اور سری لنکن وزیراعظم نے آنے والے دنوں میں غذائی قلت کی بھی گھنٹی بجا دی ہے۔سری لنکن وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سری لنکا میں آئندہ آنے والے مہینوں میں تقریبا 50؍ لاکھ افراد غذائی قلت کا براہ راست شکار ہوسکتے ہیں۔ سری لنکا میں تیل کی درآمدات پرادائیگیاں نہ ہونے کے باعث ایندھن کاسنگین بحران ہے اور بیل آٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے بات چیت کررہا ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پیر کو کولمبو جا کر قرض دینے کے امکانات کا جائزہ لے گا۔ دریں اثناء اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین اور روس کی جنگ کے اقتصادی اثرات کے باعث دنیا جہنم میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ای پی) کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے کہا کہ یہ جنگ دیگر عناصر کے ساتھ مل کر دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔