یوم حق خود ارادیت نئے عزم کا دن
سید ثاقب اکبر
ڈپٹی سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان
5جنوری دنیا بھر میں کشمیر کے یوم حق خود ارادیت کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ یہ دن اس قرارداد کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جو اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت دینے کے حوالے سے منظور کی گئی تھیں اور وعدہ کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنا چاہتے ہیں ۔5جنوری، کی اس قرارداد سے ایک نکتہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں کسی تیسرے آپشن کا تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ تیسرا آپشن بعد میں عالمی اور ہندوستانی سازشوں کے ذریعے سے سامنے لایا گیا تاکہ واقعی اگر کشمیر پاکستان سے الحاق کر رہا ہو تو اس کے نتیجے میں کشمیر میں ایک نئی تحریک چلائی جائے ۔
یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ نے 13 اگست 1948کو ایک بنیادی قرارداد منظور کی تھی لیکن پھر ایک نئی قرارداد 5 جنوری 1949کو منظور کی گئی ۔ بعد کی قرارداد کو زیادہ واضح سمجھا جاتا ہے نیز اس میں کشمیرویوں کے حقوق کی بہتر طور پر ترجمانی کی گئی ہے ۔ اسی لیے اس دن پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور پوری دنیا میں اسی قرارداد کے حوالے سے یوم حق خودارادیت منایا جاتا ہے ۔بھارت نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ستمبر 1951میں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کروائے ۔ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی توثیق کی جس کے نتیجے میں بھارت نے یہ ظاہر کیا کہ کشمیر اب قانونی طور پر بھارت کا حصہ ہے تاہم جب کشمیری عوام نے ہی اس اسمبلی کو جعلی قرار دے دیا تو اس توثیق کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔
ہندوستان تو اس مسئلہ کا ایک فریق تھا جو اقوام متحدہ میں خود اس مسئلے کو لے کر گیا تھا، اس کے کسی بھی اقدام کو ویسے بھی قانونی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یہ کام اقوام متحدہ کو کرنا چاہیے تھا کہ میدان میں آتے اور کشمیر میں ایک غیر جانبدارنہ ریفرنڈم کرواتے ۔ میری نظر میں ہندوستان اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اس لیے نہیں لے کر گیا کہ وہ کشمیریوں کو حقوق دینا چاہتا تھا بلکہ وہ اس لیے لے گیا کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے ۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ جا کر ، جنگ بندی کروا کر، قرارداد پاس کرواکے نیز خوبصورت لفظوں میں آزادی کا پیغام جاری کروا کر مجاہدین کی پیشرفت کو روک دیا ۔
یہ امر ایک حقیقت ہےکہ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ہندوستان اور عالمی طاقتوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو روکنے کے لیے استعمال کیا ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ۔ اگر اقوام متحدہ چاہے تو انڈونیشیا میں ایک جزیرہ نکال کر وہاں ایک الگ عیسائی ریاست قائم کر دیتا ہے ، اقوام متحدہ چاہے تو فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال کر باہر سے لا کر بسائے ہوئے لوگوں کی ریاست کوعالمی برادری سے قبول کروا سکتا ہے اور مقامی فلسطینیوں کو واپسی کے حق سے محروم کرکے دو ریاستی حل پیش کر سکتا ہے ۔ اقوام متحدہ کاعراق ، افغانستان کے مسئلے میں کردار بھی ہمارے سامنےہے ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کے ذمہ دار ، حکومتیں، جماعتیں اقوام متحدہ کے اس دلفریب خواب کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کشمیری کب تک اس دلفریب نعرے پر اکتفا کریں گے کہ اقوام متحدہ آئے اورکشمیر میں حق خودارادیت کی فراہمی کے لیے استصواب رائے کا اہتمام کرے ۔میری پیشین گوئی ہے کہ اقوام متحدہ دوبارہ اس واقت آئے گی جب کشمیر میں آزادی کی تحریک شباب پر ہوگی۔ ہمیں تو یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اقوام متحدہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ اس آزمائش اور امتحان میں ناکام ہو چکی ہے ۔ اسی طرح بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ثالثی کرے بھی عجیب ہے۔ انھیں دیکھنا چاہیے کہ امریکہ اور برطانیہ کب سے فلسطین کے مسئلے میں ثالثی کر رہے ہیں اور ان کی اس ثالثی سے سوائے صیہونی ریاست کے کس فلسطینی کو فائدہ ہوا ہے ۔
راقم کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ حریت کی تحریک یہ نہیں ہے کہ آپ قراردادیں پیش کریں ، بددعائیں دیں ، ریلیاں نکالیں ۔ عراق جنگ کے خلاف برطانیہ میں ملین مارچ ہوئے تاہم ان کی حکومتوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ جب اپنے ہی ملکوں میں ملین مارچ پر انھوں نے اثر قبول نہیں کیا تو ہماری قراردادوں ، ریلیوں کا ان پر کیا اثر ہوگا ۔ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو ہم اس تحریک کو ترک کر دیں جو کہ غیرت اور آزادی کے شایان شان نہیں ہے یا پھر ہم اس کے لیے سنجیدہ کوشش کریں ۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ سنجیدہ کوشش خود کرنی ہے جیسے یمن کے لوگ کر رہے ہیں ، جیسے عراق کے لوگوں اور لبنان کے لوگوں نے خود جدوجہد کی ہے ۔ فلسطین میں بھی اب مغربی کنارے تک عوامی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ پاکستان کی حکومتیں یاا دارے کوئی بہت سنجیدہ اقدام کریں گے تو :
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
لہذا وہ لوگ جو کشمیر کے موضوع پر سنجیدہ ہیں ان کو چاہیے کہ کشمیر کے حریت پسندوں کو مضبوط کریں ۔ میدانی اور غیرپہاڑی علاقوں ، جہاں جنگلات بھی نہیں ہیں میں اگر فلسطینی اسرائیل کو ناکوں چنے چبواسکتے ہیں تو جنگی لحاظ سے کشمیر کا علاقہ تو بہت زبردست ہے ۔اگر کشمیری خود کھڑے نہیں ہوتے تو بھارت آبادی کے تناسب کی تبدیلی ، قانونی حیثیت کی تبدیلی ، معاشی استحصال ، تعلیمی میدان میں پیچھے رکھنا اور ایسے ہی منفی اقدامات جاری رکھے گا ۔ کشمیر اور پاکستان کے وہ قائدین جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ ہیں کو چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر کم مگر چیندہ اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ایک بیٹھک کریں اور مسئلے کے حل کی جانب بڑھیں ۔ وہ پارٹیاں جو اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں ان سے توقع نہ کریں کہ وہ تحریک آزادی کو کوئی نئی اٹھان دیں گی ۔