Skip to content

گوانتناموبے سے ایک اور افغان رہا

گوانتناموبے سے ایک اور افغان رہا
افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اسد اللہ ہارون نامی ایک افغان شہری کو کیوبا کے گوانتاناموبے سے رہا کر دیا گیا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اسد اللہ ہارون نامی ایک افغان شہری کو کیوبا کے گوانتاناموبے سے رہا کر دیا گیا ہے۔
اسد اللہ ہارون گل المعروف ہارون الافغانی سات سال سے گوانتاناموبے میں قید تھے۔ ذبیح اللہ نے ایک ٹیوٹ میں کہا کہ اسد اللہ ہارون گوانتاناموبے کے ان دو قیدیوں میں سے ایک ہیں جنہیں ان کے خاندان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے ’سہولیات‘ فراہم کرنے پر قطری حکام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ بیرون ملک زیرحراست تمام افغانوں کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
امریکی فوج نے اسد اللہ ہارون گل کی شناخت ’اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے کمانڈر‘ کے طور پر کی ہے اور انہیں ’خطرناک دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔
ان کی رہائی کو گذشتہ سال ایک امریکی جائزہ پینل نے مسترد کر دیا تھا۔ لیکن گذشتہ اکتوبر میں ان کے رہائی کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ان کا شدت پسند گروپ میں کوئی قائدانہ کردار نہیں ہے اور وہ اپنے سابق ​​اقدامات پر پشیمان ہیں۔

افغان طالبان کے مطابق گونتناموبے میں دو میں سے ایک قیدی اسد اللہ رہا ہوئے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے گوانتاناموبے کیوبا میں اس بدنام قید خانے میں افغانستان اور پاکستان میں گرفتار کیے گئے سینکڑوں مشتبہ شدت پسندوں کو برسوں قید رکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور عالمی دباؤ کے نتیجے میں قیدی وقتا فوقتا رہا ہوتے رہے اور اب بہت کم تعداد رہ گئی ہے جن میں ایک پاکستانی بھی شامل ہیں۔
افغانستان میں چند سال قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کم از کم آٹھ افغانوں کو تشدد کے دوران غلط بیانی، غلط بیانی یا اعتراف جرم کی وجہ سے برسوں بغیر ثبوت کے گوانتاناموبے میں رکھا گیا۔
’گوانتانامو میں افغان تجربات‘ کے عنوان سے آٹھ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ان افغانوں کے کیسز کا جائزہ لیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے کسی کو بھی میدان جنگ سے نہیں پکڑا گیا، لیکن رپورٹ پر تحقیق کرنے والی کیٹ کلارک نے کہا کہ چھ پاکستانی یا افغان فورسز نے پکڑے اور صرف دو کو نامعلوم افراد نے پکڑا۔
افغان انویسٹی گیٹرز نیٹ ورک کے مطابق امریکی فوج کی تحقیقات اور عدالتی دستاویزات کے ساتھ ساتھ عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان افراد کے خلاف الزامات واضح نہیں تھے اور ان کی گرفتاریاں افواہوں، خفیہ شواہد، جانبداری، غلط بیانی اور ہراساں کرنے پر مبنی ہیں۔

کیٹ کلارک لکھتی ہیں کہ گرفتار افراد میں سے ایک شخص کو محض اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ اس نے دوسرے شخص سے سنا تھا کہ وہ ایک دہشت گرد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج نے وقت، جغرافیہ اور گروہوں کے لحاظ سے غلطیاں کی ہیں اور ایسے گروہوں کو بھی ملایا ہے جو برسوں پہلے ہتھیار ڈال چکے ہیں یا کبھی جہادی گروپوں کی صفوں میں نہیں لڑے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *