214

گستاخی رسالت و دیگر جرائم میں عوام کا سزائیں دینا کیسا؟ تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

گستاخی رسالت و دیگر جرائم میں عوام کا سزائیں دینا کیسا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک غیرت مند مسلمان کے نزدیک گستاخی رسالت کا معاملہ انتہائی حساس ہے، کوئی بھی سچا مؤمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کر سکتا.
اسلامی شریعت میں گستاخ رسول کی سزا قتل ہے.لیکن یاد رہے کہ بالاتفاق شرعی و قانونی سزاؤں کا نفاذ عام مسلمانوں کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے. ہم شرعا اپنے باپ بھائی کے قاتل کو بھی ازخود خود شرعی سزا نہیں دے سکتے. اپنی اولاد پر بلکہ خود اپنے آپ پر بھی شرعی سزائیں نافذ نہیں کر سکتے. اس کے لیے ہمیں عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا.

عظیم عاشق رسول اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سزا کے طور پر قتل کرنا عوام کا نہیں بلکہ حکام کا اختیار ہے

اس وقت اس حوالے سے دو طرفہ آگ لگی ہوئی ہے. کچھ ملعونوں نے گستاخی رسالت کی عادت بنا لی ہے، ( اللہ ان کو تباہ و برباد کرے) جبکہ کچھ لوگوں نے گستاخی رسالت کی سزا کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا ناجائز استعمال شروع کر دیا ہے جس سے دین بدنام ہو رہا ہے .
اس سلسلے میں چند ضروری ہدایات ملاحظہ ہوں.

یہ بات ایک مرتبہ پھر اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ گستاخی رسالت سمیت دیگر جرائم چوری ڈاکہ قتل زنا شراب نوشی وغیرہ کی سزاؤں کا نفاذ حکومت کی ذمے داری ہے نہ کہ عام لوگوں کی.

اگر کسی شخص نے نعوذبااللہ گستاخی کا ارتکاب کیا، لوگوں نے اشتعال میں آ کر اسے مار ڈالا اور بعد از تحقیق ثابت ہوا کہ اس نے واقعی گستاخی کا ارتکاب کیا تھا تو قاتلوں کو بدلے میں قتل کی سزا تو نہیں دی جا سکتی لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کوئی بھی مناسب سزا دی جا سکتی ہے.

گستاخ رسول کے قاتل کو ہیرو بنانے کا رواج اس وقت شروع ہوا جبکہ حکومتوں نے اس سلسلے میں غفلت کا مرتکب ہونا شروع کیا، اگر حکومتیں گستاخان رسول کو عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بر وقت کیفر کردار تک پہنچا دیتیں تو کوئی بھی فرد قانون کو ہاتھ میں نہ لیتا اور نہ ہی لوگ اسے ہیرو بناتے. بلکہ ایسے میں حکومت عوام کی ہیرو ہوتی.

اگر خدا نخواستہ کوئی شخص گستاخی رسالت کا ارتکاب کرے تو لوگوں کی ذمے داری ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسے قتل کر دیں بلکہ ان کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ فی الفور اسے پکڑ کر قانون کے حوالے کریں. نیز اسے سزا دلوانے کے لیے ہر ہر سطح پر بھرپور جدوجہد کریں.

اگر حکومت نے گستاخ رسول کو سزا دینے میں غفلت کا ارتکاب کیا تو اس کا وبال اسی پہ پڑے گا، عام لوگ اس سے بری الذمہ ہوں گے. لہٰذا اس بنیاد پر عوام کے لیے سزائیں اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے.

اگر کچھ لوگ مل کر کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے مار رہے ہوں کہ اس نے اللہ و رسول کی گستاخی کا ارتکاب کیا ہے تو عام لوگوں کا اس مار پیٹ میں شامل ہونا قطعا جائز نہیں ہے ، کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اسے گستاخی کرتے نہیں دیکھا. بلکہ ان کا فرض ہے کہ مار پیٹ کرنے والوں کو حکمت سے منع کریں اور ملزم کو قانون کے حوالے کرنے تلقین کریں.

عام لوگوں کے لیے مجرموں کو سزائیں دینا اس لیے منع ہے کہ اس سے نہ صرف معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے بلکہ دیگر بھی انواع و اقسام کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں . اگر ہر ہر شخص خود ہی گواہ، خود ہی جج اور خود ہی جلاد بن کر سزائیں دینا شروع کر دے تو سب کچھ تلپٹ ہو کے رہ جائے.

پھر گستاخی رسالت کا معاملہ تو بےحد حساس ہے، اس میں کثیر کثیر باریکیاں ہیں، کئی دفعہ بندہ سمجھنے میں غلطی کر بیٹھتا ہے، حقیقت میں گستاخی نہیں ہوتی لیکن وہ سمجھتا ہے کہ گستاخی ہو گئی. لہٰذا جب تک عدالت خوب اچھی طرح تحقیق نہ کر لے تب تک کوئی بھی سزا نافذ نہیں کی جا سکتی.

یاد رہے کہ صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور دیگر بزرگان دین کی گستاخی بھی اگرچہ بہت بڑا اور سنگین جرم ہے لیکن اس کی سزا قتل نہیں ہے بلکہ اس پہ تعزیر ہے، یعنی حکومت و عدالت اس پہ بعد از تحقیق و تفتیش جو بھی سزا تجویز کریں وہی نافذ کی جائے گی. ان گستاخوں کو بھی سزا کے لیے حکومت ہی کے سپرد کیا جائے گا، عوام ازخود انہیں سزا نہیں دے سکتے .

عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ رسول صحابہ اہل بیت اور بزرگان دین کے گستاخوں سے خود کو دور رکھیں، ان سے ہر طرح کے تعلقات منقطع کر دیں، کسی بھی قسم کا لین دین نہ کریں، رشتوں ناتوں سے اجتناب کریں. ان کے ہاں آنا جانا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سب بند کر دیں، انہیں اپنے لیے مردہ تصور کریں.

کچھ دین دشمن لوگ تاک میں ہوتے ہیں، جیسے ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے مسلمانوں پہ شدت پسندی وغیرہ کے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں… ہم نے اسلامی احکام آپ کے سامنے واشگاف لفظوں میں پیش کر دیے ہیں ، اب اس کے بعد جو بھی غیر شرعی غیر اخلاقی یا غیر قانونی معاملہ ہو اس کا الزام اسلام، علماء اسلام یا مسلمان ایسے مقدس نام پہ دھرنے کی بجائے لوگوں کی ذاتی جہالت، شرارت اور جذباتیت پہ لگائیے….کیونکہ نہ تو اس کی ذمے داری اسلام پہ عائد ہوتی ہے نہ علماء کرام پہ اور نہ ہی مسلمان ہونے پہ.

اجتماعی مار دھاڑ اور قتل کے واقعات صرف ہمارے معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں ہوتے ہیں. وہاں بھی ذمے داری جہالت شرارت اور جذباتیت پہ عائد ہوتی ہے نہ کہ اس ملک یا قوم پہ.

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اسلام، اہل اسلام اور قانون ناموس رسالت کو بدنام کرنے کے لیے باقاعدہ سازشیں بھی کی جاتی ہیں، واقعہ کچھ ہوتا ہے بنا کچھ دیا جاتا ہے. لہذا عام مسلمانوں کو جلد بازی میں کوئی بھی رد عمل نہیں دینا چاہیے. یہاں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں