Skip to content

کیا پاکستان کے لیے سی پیک آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا معاہدے کے آغاز میں تھا؟

  • by

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے چین کے چار روزہ دورے کے پہلے روز چینی سرمایہ کاروں سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بارے میں بات چیت کے ساتھ ساتھ انھیں یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ پاکستان چین کا ساتھ ’ہر صورت میں دے گا۔‘
اسی دوران وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سی پیک خالد منصور نے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں ’خوشخبری‘ دی کہ تین چینی کمپنیاں نہ صرف پاکستان کی زراعت کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں بلکہ ٹیکسٹائل میں بھی سرمایہ لگانے کے لیے کئی چینی کمپنیاں تیار ہیں۔‘
ان تمام بیانات سے ایک بار پھر یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے سی پیک کے تحت منظور شدہ منصوبے اب بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے شروعات میں تھے اور ان پر کام اسی طرح چل رہا ہے جیسے پہلے چل رہا تھا۔
تاہم زمینی حقائق ہمیں اس منصوبے کے بارے میں کیا بتاتے ہیں اور ان منصوبوں کے تحت کتنا کام ہو چکا ہے اور اب کتنا باقی ہے؟ کیا پاکستان کے لیے ان منصوبوں کی آج بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنا کہ اس معاہدے کے طے پانے کے وقت تھی؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملات اب خاصے مختلف ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اس حقیقت پسندانہ سوچ کا فقدان تھا جو ان منصوبوں کی شروعات میں حکومتی حلقوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کا اثر سی پیک کے تحت منصوبوں پر براہِ راست پڑ رہا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کی بنیاد
واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں پر کام ہو گا۔
سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی بنیاد سنہ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں رکھی گئی تھی۔
’ون پلس فور‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف نے سنہ 2006 میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے جن میں 50 کے قریب منصوبوں پر کام ہونا تھا۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’یہ منصوبوں سے زیادہ ایک وِش لسٹ (یا خواہشات کی فہرست) تھی۔ جس میں یہ واضح ہے کہ اس ایم او یو کے تحت کام نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ نا ممکن تھا۔
’اگر آپ گوادر بندرگاہ کا معاہدہ دیکھیں تو اس میں 91 فیصد ریوینیو شیئر چین کا ہے اور باقی پاکستان کا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا اور کس کا مفاد زیادہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں میں ’مسلم لیگ نواز کا بنیادی مقصد پنجاب میں سرمایہ لانا تھا۔ اسی لیے چین نے اورنج ٹرین کے لیے بھی فنڈ دیا اور دو پاور پلانٹ بھی لگوائے۔‘
18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبوں سے متعلق اپنی سفارشات وفاقی حکومت کو منظوری کے لیے بھیج سکتے ہیں۔
اس دوران سب سے زیادہ تجاویز پنجاب اور سندھ سے پیش ہوئیں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس کا حصہ دیر سے بنے اور سیاسی چپقلش کی وجہ بھی بنے۔
’پاکستان سمجھتا ہے کہ دوستی ہے اسی لیے سرمایہ لگاتا ہے‘
پاکستان میں سی پیک کی بنیاد ایک ایسے وقت میں رکھی گئی تھی جب پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ناکام ملک کا لقب دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بارے میں پاکستان کو یہی تاثر ملا کہ ’چین دوست ہے اس لیے سرمایہ لگاتا ہے۔‘
اس دوران سی پیک کے بارے میں ’گیم چینجر‘، ’فیٹ چینجر‘ جیسے الفاظ کئی بار استعمال کیے گئے لیکن اس کے بارے میں سرگودھا یونیورسٹی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف چائنا سٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا کہ ’سی پیک کو بہت سیاسی بنا دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں اس سے کئی زیادہ امیدیں کی جا رہی ہیں اور منصوبوں میں تاخیر کے باعث کہا جاتا ہے کہ سی پیک اس طرح کار آمد ثابت نہیں ہو پا رہا جتنا سوچا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سی پیک کے تحت بننے والے تمام منصوبے بیشک اہم ہیں لیکن یہ کہنا کہ یہ خطے کو بدل دے گا، ایسے بیانات دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ چین اس لیے سرمایہ نہیں کر رہا کیونکہ وہ دوست ہے، وہ پاکستان میں اپنا معاشی مفاد دیکھ رہا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *