Skip to content

کشمیر بیانیہ.

کشمیر کے بیانئے پر وزیراعظم اور دفتر خارجہ الگ الگ نظر آتے ہیں‘‘ کشمیر جیسے متفقہ باور کیے جانے والے قومی معاملے میں خود حکومت کی صفوں کے اندر اختلاف اور تقسیم کے عکاس یہ انتہائی لائق تشویش اور چونکا دینے والے الفاظ خلاصہ ہیں وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کے اُس خطاب کا جو انہوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ یوتھ فورم فار کشمیر کی تقریب میں کیا۔وفاقی وزیرنے محض یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ کشمیر پر وزارت خارجہ اور مختلف ریاستی ادارے وزیر اعظم کے بیانئے کا عملی طور پر ساتھ نہیں دے رہے بلکہ اپنے اس موقف کے حق میں دلائل و شواہد بھی پیش کیے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے غیر مبہم الفاظ میں الزام عائد کیا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات سے تنِ تنہا کشمیر کا بیانیہ بدل ڈالا مگر دفتر خارجہ، بیورو کریسی اور دیگر اداروں نے وزیراعظم کی کوششوں اور کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ اور کشمیر کی پالیسی بنانے والے دیگر ادارے وزیراعظم کے بیانیے کو اپنالیتے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔مودی حکومت کی جانب سے کشمیر پر غاصبانہ تسلط مستحکم کرنے کی خاطر عمل میں لائے گئے صریحاً ناجائز اقدامات کے خلاف عالمی سطح پر مؤثر ردعمل ابھارنے میں پاکستان کی ناکامی پر ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ قابل غور سوال بھی اٹھایا کہ کیا پاکستان برکینا فاسو سے بھی گیا گزرا ہے جس نے امریکہ کے خلاف قرارداد منظور کرالی۔ وزیراعظم کے بیانئے کی وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے بتایا کہ عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندی کو نازی ازم کے ساتھ ملایا جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا اور انٹرنیشنل میڈیا میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔ وزیر اعظم نے اکیلے اپنی کوششوں سے کشمیر پر پورا بیانیہ بدلا لیکن دفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے انہیں مایوس کیا۔ ڈاکٹر مزاری کے بقول عمران خان کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق نیا بیانیہ پوری دنیا نے تسلیم کیا لیکن وزارت خارجہ اپنے ہی وزیرا عظم کا پیغام اس طاقت کے ساتھ پیش نہیں کرسکی جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری وزارت خارجہ نازی ازم اور ہندوتوا کا باہمی تعلق ہی واضح کردیتی کہ یہ دونوں کس طرح ایک ہیں تو بہت ساری چیزیں واضح ہوجاتیں۔پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے کشمیر کے معاملے پر دوسرے ملکوں کے وزرائے خارجہ سے محض فون پر گفتگو یا کسی بین الاقوامی فورم پر خطاب کو ناکافی قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ ہمارے سفارت کاروں کو ہوٹل میں آرام کرنے ، کلف زدہ کپڑے اور تھری پیس سوٹ پہننے سے ہی فرصت نہیں لیکن کشمیریوں کے حق خود اختیاری کی جدوجہد کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں مُروّج سفارت کاری کے جدید کثیرالجہت ذرائع استعمال کیے جائیں ، مزاحمتی کلچر کو نمایاں کیا جائے ، کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور حق خود اختیاری کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد کو ڈیجیٹل فلموں اور دیگر ذرائع سے اجاگر کیا جائے ۔ انہوں نے صراحت کی کہ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر مضبوط ردعمل رونما ہوگا اور کشمیریوں کی جدوجہد کو عالمی رائے عامہ کی حمایت ملے گی۔ کشمیر جیسے قومی اتفاق رائے کے حامل باور کیے جانے والے معاملے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے مطابق وزارت خارجہ اور پالیسیوں کی تشکیل میں شریک اداروں کی جانب سے وزیر اعظم کے بیانئے کی عملی حمایت سے روگردانی کی روش کا اختیار کیا جانا فی الحقیقت نہایت سنجیدہ معاملہ ہے جسے معلق نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر مزاری کا شکوہ منظر عام پر آجانے کے بعد وزیر اعظم، وزارت خارجہ اور متعلقہ اداروں کی پوزیشن کی وضاحت اور ایک متفقہ قومی موقف کا اپنایا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے ۔