Skip to content

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ: پاکستان میں پیٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی کیا صورتحال ہے؟

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے گذشتہ شب پیٹرول کی قیمت میں 12 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے چہ مگوئیاں تو گذشتہ کئی روز سے جاری تھیں تاہم وزارتِ خزانہ کی جانب سے منگل کی شب قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایک عام صارف کو آج سے ایک لیٹر پیٹرول 159 روپے 86 پیسے میں ملے گا جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 10 روپے کے اضافے کے بعد ایک لیٹر ڈیزل کی قیمت 144 روپے 62 پیسے سے بڑھ کر اب 154 روپے 15 پیسے کر دی گئی ہے۔
مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی 10 روپے آٹھ پیسے جبکہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں پونے دس روپے اضافہ کیا گیا ہے۔
منگل کی شب جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد اس وقت یہ قیمتیں سنہ 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر ہیں۔
اعلامیے کے مطابق اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے سال کی شروعات میں اوگرا کی سمری کے تحت قیمتوں میں اضافے سے گریز کیا اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے پٹرولیم لیوی میں کمی کی اور سیلز ٹیکس زیرو پرسنٹ کر دیا جس کی وجہ سے حکومت کو 35 ارب روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے پر حکومت کا موقف: ’اور کوئی چارہ نہیں‘
حکومت پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کیوں کر رہی ہے جب کہ خود اس کے اپنے رکن اسمبلی شکوہ کر رہے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہو گا؟
اس سوال کا جواب حکومتی ترجمان فواد چوہدری نے آج اس وقت دیا جب منگل کے دن وفاقی کابینہ کےاجلاس کے بعد ان سے صحافیوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر سوال کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ کابینہ کا نہیں، بلکہ وزارت خزانہ کا ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت جو حالات ہیں ان میں ظاہر ہے اس کے علاوہ اور کیا چارہ ہو گا کہ آپ پیٹرول کی قیمت بڑھائیں گے۔
فواد چوہدری نے وضاحت کی کہ ’دیکھیں تیل ہمارے ہاں تو نہیں پیدا ہو رہا۔ اس وقت دنیا میں جو حالات چل رہے ہیں، یوکرین میں اور دنیا ایک دوسرے کے حالات کو متاثر کرتی ہے۔
’یوکرین میں اور اس وقت یورپ میں جو ٹینشن بنی ہوئی ہے، اور امریکہ میں اس کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ہم کتنی دیر روک سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اربوں روپے تو نہیں ہیں جو ہم روزانہ اس مد میں دے سکیں تو ظاہر ہے قیمتیں بڑھیں گی۔’
دنیا میں تیل کی قیمتوں کی کیا صورت حال ہے؟
عالمی منڈی اس وقت خام تیل کی قیمتیں 92 ڈالر فی بیرل پر پہنچ چکی ہیں جس کی دوسری وجوہات کے علاوہ یوکرین کے مسئلے پر عالمی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو بھی قرار دیا گیا ہے۔
عالمی منڈی میں خام تیل کی موجودہ قیمتیں 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچی ہیں جس کا براہِ راست اثر پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات پر آ رہا ہے.
پاکستان اپنی تیل کی ضروریات کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ درآمدی تیل سے پورا کرتا ہے جس میں خام تیل کے علاوہ ڈیزل، پٹرول کی درآمد بھی شامل ہے۔
پاکستان میں تیل کے شعبے کی نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزی کونسل (او سی اے سی) کے سابقہ چیئرمین اور پاکستان ریفائنری کے چیف ایگزیکٹو زاہد میر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں 15 روز کے بعد تیل کی قیمتوں پر جو نظر ثانی کی جاتی ہے وہ گزرے 15 دنوں میں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اوسط نکال کر طے کی جاتی ہیں۔
‘پاکستان میں قیمتیں اب بھی کم ہیں’
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ کے اختتام سے لے کر چودہ فروری تک عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو جہاں خام تیل کی قیمت 92 ڈالر فی بیرل پر پہنچی ہے تو اس کے ساتھ پٹرول کی کی اوسط قیمت 102.6 ڈالر فی بیرل رہی ہے اور اسی طرح ڈیزل کی اوسط قیمت 106.53 رہی ہے۔
زاہد میر نے بتایا کہ پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں کا تعین عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں کی بجائے تیار ڈیزل و پٹرول کی قیمتوں پر کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ خام تیل اور ڈیزل و پٹرول کی تیار مصنوعات میں عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں فرق ہوتا ہے مثلاً اگر گذشتہ 15 روز کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو خام تیل کی قیمت 92 ڈالر فی بیرل تھی تو ڈیزل کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔
انھوں نے کہا کہ جب اس قیمت میں فریٹ چارجز شامل کیے جاتے ہیں تو اس کی پاکستان میں درآمدی قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
زاہد میر کہتے ہیں کہ یہ بات تو صحیح ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اگر حکومت پاکستان بھی ملک میں قیمت بڑھاتی ہے تو اس کی سمجھ آتی ہے کیونکہ مہنگا ڈیزل و پیٹرول خرید کر اسے سستا نہیں بیچا جا سکتا۔
ان کے مطابق پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ابھی بھی بہت سارے ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح کیا ہے؟
بیرون ملک سے تیل درآمد کرنے کے بعد جب اسے مقامی منڈی میں بیچا جاتا ہے تو اس پر مختلف ٹیکس بھی لگائے جاتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے 31 جنوری کو تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کی گئی تو حکومت نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے عالمی منڈی میں قیمتوں کے اضافے کو عوام پر منتقل کرنے کی بجائے اس کا بوجھ خود سہا ہے۔
ملک کی وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق گذشتہ نظر ثانی جائزے میں تیل کی مصنوعات میں اضافہ نہ کر کے حکومت نے تیس ارب روپے کا نقصان خود برداشت کیا اور سالانہ بنیادوں پر کم سیلز ٹیکس وصول کر کے یہ 260 ارب کا نقصان ریونیو کی مد میں برداشت کر رہی ہے۔
31 جنوری 2022 میں اگر پیٹرول پر حکومتی ٹیکسوں کا جائزہ لیا جائے تو سیلز ٹیکس کی شرح کو صفر کر دیا گیا تھا جو 16 جنوری 2022 کو ایک لیٹر پیٹرول پر 0.79 فیصد تھا۔
اسی طرح پی ڈی ایل کی شرح 17.62 روپے فی لیٹر سے 13.92 روپے فی لیٹر کر دی گئی تھی۔ ملک کے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے پی ڈی ایل کی مد میں چھ سو ارب روپے ٹیکس جمع کر نے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
زاہد میر نے اس سلسلے میں کہا کہ حکومتی ٹیکسوں کے علاوہ صارفین کو جس قیمت پر تیل بیچا جاتا ہے اس میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ ڈیلرز کا منافع بھی شامل ہے جو ایک لیٹر پٹرول پربالترتیب 3.68 روپے اور 4.90 ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اسی طرح اس میں ان لینڈ ایکچولائزیشن مارجن بھی شامل ہوتا ہے تاکہ ملک کے تمام حصوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکسانیت ہو۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے ٹیکس کم کر دیے ہیں تاہم انھیں ٹیکس کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کو چلانے کے لیے زیادہ ٹیکس کی ضرورت ہے تاہم پھر بھی حکومت نے عالمی مارکیٹ میں ہونے والے اضافے کو خود زیادہ برداشت کیا۔
ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی کم قدر سے درآمدی تیل کے مہنگا ہونے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے کمزور ایکسچیینج ریٹ نے بھی اس تیل کو مہنگا کیا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *