mehmood-sham 248

پاکستان نے 20 سال میں کیا سیکھا؟محمود شام

پاکستان نے 20 سال میں کیا سیکھا؟
محمود شام
افغانستان کے پہاڑوں، غاروں، وادیوں اور صحرائوں میں نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ امریکہ نے 20سالہ طویل فوجی مشق ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

اسلام آباد۔ کراچی۔ پشاور۔ کوئٹہ میں تاریخ پاکستانیوں سے پوچھ رہی ہے کہ پہلے 2001 میں پاکستان کو جو سیاسی۔ عسکری۔ سماجی۔ مذہبی کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ وہ کیا تھا یا نہیں۔

اب20سال بعد 31اگست 2021سے جو نیا دَور نئے تقاضے کررہا ہے کیا ہمارے حکمراں اور اپوزیشن ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

آخری امریکی فوجی بھی افغانستان کی سر زمین سے پرواز کرگیا ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان اب آزاد اور خود مختار ہوگیا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن عالمی تجزیے کہہ رہے ہیں کہ امارات اسلامیہ افغانستان۔ اور دولت اسلامیہ عراق و شام(داعش) کے درمیان اب طویل جنگ شروع ہورہی ہے۔

20سال پہلے امریکہ طالبان کی حکومت ختم کرنے آیا تھا۔ اب 20سال بعد طالبان کی حکومت قائم کرکے واپس جارہا ہے۔ دعویٰ تھا کہ القاعدہ کی کمر توڑ دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ کی کوکھ سے داعش کو پیدا کرکے جارہا ہے۔عمران خان تاریخ کا ادراک رکھتے تو وہ ان دنوں پاکستان بھر کے مورخین۔

محققین ۔ سابق سفارت کاروں اور وائس چانسلروں سے مشاورت کررہے ہوتے ۔ پوچھتے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے۔ اب کیا کیا ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو سفارتی طور پر کیا کرنا چاہئے۔ سیاسی طور پر کیا۔ عسکری انداز سے کیا۔ کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے؟

مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اگر حالات کی نبض پر انگلیاں رکھتے تو عمران خان کو کٹھ پتلی اور سلیکٹڈ کہنے کی بجائے سنجیدہ دانشوروں سے رہنمائی حاصل کررہے ہوتے کہ دنیا کی سپر طاقتیں فوجی قوتیں۔ علمی و سائنسی ترقی یافتہ قومیں تو ہمارے پڑوس میں 20سال سارے تجربے کرکے بے نیلِ مرام واپس جارہی ہیں۔

اس کے اثرات پاکستان افغانستان کی طویل سرحدوں کے ادھر خیبر پختونخوا۔ بلوچستان کے ذہنوں پر کس انداز میں پڑ رہے ہیں۔ یہاں مذہبی اور سماجی ردّ عمل کیا ہوگا۔ پاکستانی سیاستدانوں کا اب روڈ میپ کیا ہونا چاہئے۔ آئندہ پندرہ بیس برس کے لئے کیا پالیسیاں طے کی جائیں۔میڈیا کے بھی سینئر نمائندے افغانستان سے ملحقہ دیہات۔ قصبوں۔ شہروں میں جاکر بیٹھ گئے ہوتے کہ سرحد پار سے ہوائیں کیا سندیسے لارہی ہیں۔

ان علاقوں کے سینیٹروں۔ ارکان اسمبلی سے پوچھتے کہ وہ اپنے ووٹرز میں کیا محسوسات دیکھ رہے ہیں۔

کیا ہماری یونیورسٹیاں۔ تحقیقی ادارے غیر جانبدارانہ تجزیے کررہی ہیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو تاریخ اور جغرافیے نے جو چیلنج دیے تھے کیا پرویز مشرف، صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم میاں نواز شریف اور 3سال سے عمران خان نے ان کا صحیح مقابلہ کیا۔ درست معروضی پالیسیاں تشکیل دیں۔ یہ چیلنج اقتصادی بھی تھے۔ سیاسی بھی۔ سماجی بھی۔ اور فرقہ ورارانہ بھی۔ اب امریکہ کے آخری فوجی کے افغانستان سے انخلا کے بعد پھرپاکستان کی جو آزمائش شروع ہورہی ہے یہ ہماری معیشت پر بھی اثر انداز ہوگی۔

ہماری خود مختاری پر بھی اور ہمارے عقائد پر بھی۔ کیا ہماری سیاسی فوجی اور مذہبی قیادتیں اس کا ادراک کررہی ہیں۔بظاہر تو سوچ کی بلندی۔ اور ادراک کی گہرائی وہ نظر نہیں آرہی۔ جو تاریخ کے اس موڑ پر ہونی چاہئے۔

موجودہ عہد کا اس سے اہم اور حساس واقعہ کوئی نہیں ہوسکتا کہ امریکہ اور یورپ کو 20سال تک مطلق العنانی کے باوجود اپنا مشن مکمل کئے بغیر افغانستان خالی کرکے ان ہی طالبان کو دینا پڑ رہا ہے۔ جن سے انہوں نے چھینا تھا۔یہ واقعی پسپائی ہے یا حکمت عملی۔

دعویٰ کیا جارہا ہے کہ امریکہ نے ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ انسانوں کا انخلا کیا ہے۔ مگر ہزاروں گاڑیاں۔ سینکڑوں طیارے۔ ہیلی کاپٹر۔ بندوقیں گولیاں یہیں رہنے دی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ناکارہ ہوگیا ہے۔ یہ کیوں چھوڑ کر گیا ہے۔کیا ان کے تجربے ہوچکے اب نئے ہتھیار بنائے جائیں گے۔ کسی اور ملک کے عوام پر تجربہ کیا جائے گا۔

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ سیاہ و سفید کے مالک ہوجانے سے کیا پاکستان کے طالبان میں کوئی نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے۔ کیا وہ بھی جہانیانی اور دنیا کی امامت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ افغان طالبان تو کرپشن۔ بد عنوانی ۔ ریاستی وسائل کے ذاتی استعمال کے خلاف ہیں۔

وہ تو اپنے بانی سربراہ ملّا عمر کو عمر ثالث کہتے ہیں۔ خلیفہ دوم عمر فاروقؓ اور عمر بن عبدالعزیزؓ کے بعد۔ ملّا عمر تو لینڈ روور، پجیرو، ڈبل کیبن میں نہیں گھومتے تھے،موٹر سائیکل پر متحرک رہتے تھے۔ موجودہ سربراہ ہیبت اللہ اخوند زادہ تو ابھی تک منظر عام پر بھی نہیں آئے۔

ہمارے طالبان کے سربراہ تو ایوان وزیر اعظم میں سب سے پہلے پہنچتے۔ ہمارے ہاں تو اختیارات تقسیم کرنے کا تمدن ہی نہیں ہے۔

ایک طرف تو مجھے یہ احساس بھی ہے کہ میری نسل کو تاریخ کے کتنے بڑے واقعات کے چشم دید گواہ ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ سوویت یونین میں کمیونزم کا خاتمہ۔ دیوار برلن کا انہدام۔ چین کا سب سے بڑی معیشت بننا۔ اب امریکہ کا 20 سال بعد ناکام ہوکر واپس جانا۔ کووڈ 19 جیسی عالمگیر وبا میں ماہ و سال گزارنا۔

جب سفر اور سیاحت کی صنعت زبوں حال ہوگئی۔ کتنے لاکھ انسان دم توڑ گئے ۔دو سال سے دوسرے ممالک سے عازمین حج نہیں آرہے ہیں۔ عمرے کی سعادت نصیب نہیں ہورہی امریکہ نے جمہوری افغان مملکت کے قیام کے لئے ہزاروں ارب ڈالر خرچ کئے۔

اپنے بہترین دماغ کابل میں بٹھائے۔ دو طویل عشرے وقف کئے۔ یہ سب تاریخی مشاہدات ہیں۔ کیا ان سب سے میری نسل نے کوئی سبق سیکھا۔

میری تشویش یہ ہے کہ دیوار بہ دیوار ہمسایہ ہونے۔ منقسم خاندان آباد ہونے کے باوجود ہماری فکر۔ ہماری پالیسیوں۔ ہمارے انداز حکمرانی۔ سیاسی جماعتوں کے طریق سیاست۔ عام لوگوں کی طرز زندگی پر ان عالمی۔ علاقائی اور مقامی المیوں، ناکامیوں اور بحرانوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہم اب تک وہی جمہوریت اور آمریت۔

سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کے تضادات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم بڑے سرمایہ دار ملکوں کی منڈی تھے اور اب آن لائن سماج کے بعد ان کے لئے اور زیادہ منافع بخش مارکیٹ بن گئے ہیں۔

امریکہ یورپ نے افغانستان میں 20سال فوجی مشقیں کیں۔ اپنے اسلحے اور انٹیلی جنس کو آزمایا۔ اور اس انتخابی جمہوریت کو آزمانے کی کوشش کی جس کے ہم دیوانے ہیں۔ پاکستان میں امریکہ یورپ طویل کاروباری مشقیں کررہے ہیں۔ ہم عوام۔ حکومتیں۔

سیاسی فوجی قیادتیں۔ اپوزیشن۔ تاجر۔ صنعت کار کوئی مزاحمت نہیں کررہے۔ کیا تاریخ کا تقاضا یہی ہے۔ کیا پاکستان سے امریکہ کبھی نہیں نکلے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں