120

پاکستانی خواتین اگلے 25 سالوں میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں؟

پاکستانی خواتین اگلے 25 سالوں میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں؟
ماں کی ہو یا بہن کی۔۔۔ لڑائیوں میں بڑے ہوتے یہی گالی سنی اور کئی بار تو یہ گالی پڑنے پر ہی لڑائی شروع ہوگئی۔ اپنے آس پاس کے مردوں کو ہی یہ طے کرتے دیکھا کہ خواتین کی عزت کیا ہے؟ اور مجروح کب ہوتی ہے؟
اس معاشرے میں مردوں کو تو گھومنے پھرنے کی، بلا خوف کسی بھی وقت پبلک پارک جانے کی، یہاں تک کہ مغرب کے بعد نکلنے کی مکمل آزادی ہے۔
پاکستان کو بنے آج 75 برس ہوگئے ہیں۔ لیکن ایک ماڈرن خاتون جس کی اپنی سوچ اور اپنے خواب ہیں، کیا وہ صحیح معنوں میں اپنے آپ کو آزاد تصور کرتی ہے؟
ظاہر ہے ملک میں 10 کروڑ سے زیادہ خواتین ہیں اور سب کے تجربات بھی مختلف ہوں گے، مگر میں نے سوچا کیوں نہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین سے ہی پوچھا جائے کہ آج کا پاکستانی معاشرہ کیا ان کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟
کیا پاکستانی خواتین خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں؟
جنوبی پنجاب کے شہر حاصل پور کے پاس ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی علیزہ سحر ایک وی لاگر ہیں اور یوٹیوبر کمیونٹی میں کافی مشہور بھی ہیں۔
ان کے گاؤں تک سفر کرتے میں یہی سوچتا رہا کہ ان کے سبسکرائبرز کی تعداد کروڑوں میں ہے تو ظاہر ہے کوئی پروفیشنل ٹیم ہی ان کا ساتھ دیتی ہوگی۔ لیکن ان کے گھر داخل ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ ساری تو فیملی گیم ہے۔
علیزہ کے بھائی اور والد ہی ان کو ویڈیوز بنانے میں مدد کرتے ہیں جن ویڈیوز کے ذریعے وہ لوگوں کوگاؤں کا کلچر دکھاتی ہیں۔
میں نے جب علیزہ سے پوچھا کہ کیا انھیں گاؤں میں رہتے ہوئے لوگ روکتے ہیں کہ یہ کام نہ کرو؟ تو انھوں نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ ’منع کوئی بھی نہیں کرتا، جب گھر والے زیادہ سپورٹ کریں تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی۔علیزہ کے بقول وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں کیونکہ ان کے والدین نے انھیں بہت سپورٹ کیا ہے۔
فیملی سپورٹ کے بغیر بھی خواتین کو تحفط کا احساس ہونا چاہیے
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک پول کے مطابق دنیا میں خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میی پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ جبکہ ہیومن رائٹس واچ پاکستان کے مطابق ہر سال ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔انہی تلخ حقائق کو جب میں نے ایک عالی شان دفتر میں بیٹھی فاطمہ بخاری کے سامنے رکھا تو ان کا موقف علیزہ سے قدرِ مختلف تھا۔ فاطمہ کے نزدیک خواتین میں پائے جانے والا عدم تحفظ پاکستانی معاشرے میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔فاطمہ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں اور آج کل مساوی نامی ایک کمپنی میں بطور سی ای او کام کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’محفوظ ہونے کے لیے کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کہنا کہ میں صرف تب محفوظ محسوس کرتی ہوں جب میرا بھائی میرے ساتھ ہو یا میری فیملی مجھے سپورٹ کر رہی ہو۔ یہ غلط ہے، کسی بھی خاتون کو اس سب کے بغیر بھی تحفط محسوس کرنا چاہیے۔‘
فاطمہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم ایک پدر شاہی معاشرے میں رہتے ہیں اور اس کا احساس آپ کو ہر جگہ ہوتا ہے چاہے آپ عدالت میں جائیں یا پولیس سٹیشن میں۔’
قانونی ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے فاطمہ نے تذکرہ کیا کہ کیسے خواتین کی اکثریت ان لوگوں سے زیادہ غیر محفوظ ہے جن کے ساتھ ان کا روز کا اٹھنا بیٹھنا ہے، وہ بے شک ان کے گھر والے ہوں یا رشتے دار۔
ورک فرام ہوم متعارف تو کووڈ کے دوران ہوا لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والی اُمیہ طلحہ نے 2017 میں گھر سے ہی کرافٹس انک کے نام سے ایک ایونٹ کمپنی شروع کی اور وہ گھر بیٹھے بیٹھے ہی سالگرہ سے لے کر شادی تک کے ایونٹس کروا چکی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں محفوظ محسوس کرتی ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں پریولجڈ (سماجی طور پر بہتر جگہ) ہوں۔ میں ایک ایسی جگہ پر رہتی ہوں جہاں مجھے اپنے تحفظ کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا پڑتا۔’جیسا میں محسوس کرتی ہوں شاید ویسا بہت سی پاکستانی خواتین نہ محسوس کرتی ہوں۔‘
کیا خواتین کو وہ تمام مواقع دستیاب ہیں جو اسی معاشرے میں مردوں کو ہیں؟
اُمیہ طلحہ کے مطابق 10 سے 15 سال پہلے خواتین کے پاس وہ مواقع نہیں تھے۔ ’وہی دو چار شعبے تھے جن کا انتخاب خواتین کرتی تھیں۔ اب بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین کام کر رہی ہیں۔’
امیہ کے مطابق پہلے معاشرے میں ایسا تاثر پایا جاتا تھا کہ خاتون کے کام کرنے کو اس سے ہی جوڑا جاتا تھا کہ ’شاید فیملی میں مالی مشکلات ہوں گی اسی لیے یہ کام کر رہی ہے۔‘ ان کے مطابق اب یہ تاثر آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔’اب مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو سمجھ آگئی ہے کہ صرف مالی وجوہات کی بنا پر کوئی خاتون کام نہیں کرتی بلکہ اس کے بھی خواب ہوتے ہیں، اس کا بھی کوئی شوق ہوسکتا ہے اور وہ انھیں پورا کرنے کے لیے بھی کام کر سکتی ہے۔‘
اس کے برعکس فاطمہ بخاری نے خواتین کو مواقع نہ ملنے کو گھر سے ملنے والی تربیت سے جوڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شروع سے شروع ہوتا ہے، گھر سے شروع ہوتا ہے جب والدین آپ کو کہتے ہیں کہ یہ آپ کا بھائی کرسکتا ہے اور یہ آپ نہیں کر سکتی۔ تو ابتدا سے ہی خواتین کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ معاشرہ ان سے کیا چاہتا ہے کہ وہ کیا کریں۔‘
فاطمہ کے مطابق یہ عمل شروع سے ہی ذہنی طور پر خواتین کے لیے دستیاب مواقعوں کو محدود کردیتا ہے۔
لیکن امیہ سے انھوں نے اس بات پر ضرور اتفاق کیا کہ ابتدائی تربیت اور پدر شاہی معاشرے کے باوجود خواتین اب باہر آ رہی ہیں۔ ’ہر شعبے میں وہ مواقع ملنے کا انتظار نہیں کر رہیں (بلکہ) وہ خود اپنے لیے مواقع پیدا کر رہی ہیں۔‘
پاکستان میں ایک بہت بڑی تعداد لڑکیوں کی اب بھی سکول سے باہر ہیں اور فاطمہ کے مطابق ’اب بھی کئی گھروں میں اگر یہ چوائس ہو کہ لڑکے کو پڑھانا ہے یا گھر کی بیٹی کو، تو ترجیح گھر کے مرد کو دی جاتی ہے۔‘
’کیونکہ یہ تصور پایا جاتا ہے کہ روزی اسی نے کمانی ہے۔‘
25 سال بعد آپ خواتین کو کہاں دیکھتی ہیں؟
پاکستان کے دیہی علاقوں میں تو اب بھی فیملی نظام کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔
اس کا اندازہ وی لاگر علیزہ سحر کی اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جب انھوں نے کہا کہ ‘اگر لڑکیوں کے گھر والے، ان کے والدین انھیں زیادہ سپورٹ کریں اور معاشرہ بھی ان کا ساتھ دے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔‘
علیزہ کے مطابق گاؤں کی لڑکیاں بھی وی لاگنگ کر سکتی ہیں۔ ’ضروری نہیں کہ باہر گھومنا پھرنا ہے۔ وہ گاؤں میں رہ کر بھی کھانے پینے کی، سلائی کڑھائی کی ویڈیوز بنا سکتی ہیں۔ وہ ماسک پہن کر بھی ویڈیوز بنا سکتی ہیں۔ ان کے پاس بہت آپشنز ہیں۔‘
امیہ بھی پاکستانی خواتین کے مستقبل کے بارے میں خاصی پُر امید نظر آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی شاید ہم اتنا محفوظ نہ محسوس کرتے ہوں لیکن میں پُرامید ہوں اور اللہ سے بھی یہی دعا ہے کہ اگلے 25 سال میں خواتین مکمل طور پر بااختیار ہوں گی۔’
رویوں اور سوچ میں تبدیلی سے متعلق فاطمہ کا خیال ہے کہ وہ تبھی آئے گی جب زیادہ سے زیادہ خواتین باہر نکلیں گی اور مختلف شعبوں میں ترقی کریں گی اور ان کی رائے میں اسی سے باقی خواتین کے لیے بھی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
’میرے خیال سے اگر آپ نے یہاں رہنا ہے، آپ یہاں کام کرتے ہیں، اپنے آپ کو پاکستان کا شہری مانتے ہیں اور آپ کو بھی لگتا ہے کہ اس ملک کے وسائل پر آپ کا بھی پورا حق ہے تو آپ کو پُرامید رہنا چاہیے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں