Skip to content

وزیراعظم کیخلاف تحریک جمع، عدم اعتماد کا میدان سج گیا، 86 ارکان کے دستخط، اپوزیشن ممبران کو 20 روز اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت

اسلام آباد (نیوزایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) عدم اعتماد کا میدان سج گیا، اپوزیشن نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں قومی اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن اور وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی۔ ذرائع کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک اور اجلاس بلانے کی ریکوزیشن ایک ساتھ جمع کرائی گئی، 200سے زائدارکان کی حمایت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کیخلاف جمع کرائی گئی۔ تحریک عدم اعتماد پر 86ارکان کے دستخط ہیں۔ پیپلزپارٹی کے نوید قمر کا کہنا ہے کہ اجلاس بلانے کے ریکوزیشن پر 140اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں،قواعد کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پر 7 روز کے اندر کارروائی کرنی ہوگی۔ اپوزیشن اپنے ارکان قومی اسمبلی کو 20 روز اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے ناپاک وزیراعظم کو نکال کر کسی شریف آدمی کو اقتدار پر بٹھایا جائے، 172سے زیادہ ووٹ ملیں گے، مسلم لیگ (ن) کے صدر و قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا عدم اعتماد لانے میں تاخیر کرتے تو قوم معاف نہ کرتی، حکومت کو تاریخی شکست ہو گی، پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا عمران خان نے غیرملکی ایجنڈا مسلط کیا، جانا اسکا مقدرہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں تحریک عدم اعتماد کی قرارداد تیار کر لی گئی۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر دستخط کر دیئے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق اسپیکر کی غیر موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن رہنما قومی اسمبلی سیکرٹریٹ پہنچے اور وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کرادی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے جمع کرائی گئی ریکوزیشن سے متعلق پیپلز پارٹی کے نوید قمر کا کہنا تھا کہ 140 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط کے ساتھ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی گئی ہے، قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آنے والی ہے، قومی اسمبلی اجلاس کی ریکیوزیشن جمع کرائی جائیگی، تمام ممبران اسلام آباد میں رہیں، کسی بھی وقت قومی اسمبلی اجلاس ہوسکتا ہے۔ پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف حکومت مخالفت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں، حکومت کو تاریخی شکست ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے دعویٰ کیاہے کہ انہوں نے نمبرز پورے کرلئے ہیں اور اس وقت انکے پاس 197سے 202اراکین کی حمایت موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کے 27ارکان اور ایک اتحادی جماعت کے اراکین کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں لیگی قیادت نے تمام ارکان کو ابتدائی طورپر اگلے 20دن تک اسلام آباد میں قیام کی ہدایت کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی قیادت نے اپنے ارکان کو بتایا کہ اگلے تین ہفتے انتہائی اہم ہیں لہٰذا اسلام آباد سے غیر حاضری کسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ سےمختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم آگے بڑھ کر اس ناپاک وزایراعظم کو نکالیں اور اسکی جگہ کسی اور شریف آدمی کووزیراعظم کی کرسی پر بٹھائیں اور ملک چلانے میں ہم اسکی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے حکومت سنبھالی تو ایک سال میں گندم اور چینی کا بحران ختم کردیا تھا، پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہم حکومت سنبھال کر آپ کے مسائل حل کرینگے۔ ادھر متحدہ اپوزیشن کے قائدین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف پر امید ہیں عدم اعتماد کامیاب ہو گی، 172 ارکان سے زیادہ ووٹ لینگے۔ اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اور مسلم لیگ(ن) اور ہمارے ساتھ منسلک اتحادی پارٹیوں کی طرف سے ہم نے ملکر مشاورت کی اور ہم نے فیصلہ کیا کہ آج ہم تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کروائینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو خفیہ رکھا تھا اور اسکی سب نے پاسداری کی، آج تمام جماعتوں نے ریکویزیشن اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنے اراکین سے دستخط لیے اور آج ہم نے اسکو جمع کرا دیا ہے۔ انکا کہناتھا کہ پونے چار سال بعد اس تحریک عدم اعتماد کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ اس سلیکٹڈ حکومت اور وزیراعظم نے جو کچھ اس ملک کے ساتھ معاشی، سماجی، معاشرتی حوالے سے کردیا ہے اسکی نظیر پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، قرضے لیکر ملک کے 22کروڑ عوام اور ہماری نسلوں کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور ان کھربوں کے عوض بھی اس ملک میں ایک بھی نئی اینٹ لگی ہوئی نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر نے کہاکہ انکو صرف ایک کام آتا ہے کہ یہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے منصوبوں پر لگائی گئی تختیاں اکھاڑ کر لگا رہے ہیں اور خارجہ محاذ پر انکی بدترین ناکامی ہے کہ پاکستان کے وہ دوست جنہوں نے اچھے اور برے وقتوں میں پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا، انہوں نے ان کو ناراض کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے چین کے حوالے سے سی پیک کو نشانہ بنایا گیا، حکومت میں آنے سے قبل عمران خان اور انکے موجودہ وزرا نے کیڑے نکالے، کرپشن کی باتیں کیں، چین پر بے الزامات لگائے اور تنقید کی، چین جیسے دوست کو ناراض کہاں کی خارجہ پالیسی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب ہمارا بہترین دوست ہے جبکہ میلسی میں تقریر کے دوران انتہا کردی اور بیٹھے بٹھائے ہمارے یورپی یونین اور دوسرے ممالک کو ناراض کردیا، سب کو پتہ ہے کہ پاکستان یورپ اور شمالی امریکا میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے اور آپ نے بیٹھے بٹھائے کارتوس چلا دیے، انہوں نے جو زبان استعمال کی وہ انہیں زیب نہیں دیتی۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کی خواہش پر کیا جو اس حکومت کیخلاف دست با دعا ہے لہٰذا اس کو غیرملکی سازش قرار دینا احمقانہ اور بات اور بے بنیاد الزام ہے۔ انہوں نے حکومتی بیانیے کے جواب میں سوال کیا کہ کیا یہ مہنگائی غیرملکی سازش سے ہوئی، کیا بیروزگاری، مہنگی گیس خریدنا، قرض لے لے کر ملک کا بیرا غرق کرنا، مہنگی ترین بجلی پیدا کرنا اور پوری اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ چن دینا بین الاقوامی اور خارجہ پالیسی ہے؟۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا اور یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کی خواہشات اور دعاؤں کا عکاس ہے، آج ہم نے تحریک عدم اعتماد اسپیکر کے دفتر میں جمع ہو چکی ہے۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں اس حکومت سے کوئی خوش فہمی نہیں تھی، جب سے انہوں نے این جی اوز کے ذریعے سے مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی تو ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستانی نہیں ہے، یہ کسی بیرونی ایجنڈے کا ایجنٹ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے 2018 انتخابات کے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک متفقہ مؤقف تیار کر لیا تھا کہ الیکشن ناجائز ہوا ہے، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے اور ہم اسکے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اسکے بعد تحریک کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی ریلیوں اور مارچ سے ان سلیکٹڈ حکمرانوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا ہے، ہم قوم کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں، ہم نے جو کہا تھا وہ ایک ایک بات حقیقت بن کر عام آدمی کے سامنے موجود ہے اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ ملک انحطاط کی طرف گیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ جب 17-2018 کا بجٹ پیش کیا جا رہا تھا جو تو شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تھی اور اگلے سال سالانہ ترقی کا تخمینہ ساڑھے چھ فیصد لگایا گیا تھا لیکن یہ حکومت ہماری سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے لے آئی، ملک کی معیشت کمزور ہو گئی اور معیشت کمزور ہونے کے بعد اب کوئی ملک آپ کو پیسہ دیکر ضائع کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ انکا کہنا تھاکہ آج اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے اور اب انکے دن گنے جا چکے ہیں، انکی بساط لپٹ چکی ہے اور اب کوئی آئیڈیل باتیں ان کیلئے سودمند نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اپوزیشن ملک کے مفاد پر متحد ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت چین کے ساتھ رابطے میں رہی اور سی پیک کی طرف بڑھ رہی تھی، مسلم لیگ کی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ پیپلز پارٹی نے غلط کیا بلکہ فروغ دیا اور ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھی اور چین جیسے ملک کے ذریعے دنیا سے تجارت کا شاہراہ دیا، ہم نے اتنے بڑے دوست کو مایوس کردیا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں، کسی ادارے سے بھی کوئی دشمنی نہیں لیکن انکے فیصلوں اور رویوں سے اختلاف کا جب بھی موقع آیا ہے تو اسکو چھپایا بھی نہیں ہے، برملا اور بصد احترام اختلاف رائے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو چکی ہے، ہم کامیابی پر یقین رکھتے ہیں اور تحریک عدم اعتماد ان نااہلوں اور نالائقوں کیخلاف کامیاب ہو گی اور قوم عنقریب نجات کی خوشخبری سنے گی۔ دوران پریس کانفرنس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہم اپوزیشن کے دوستوں نے سوچا کہ اب نہیں تو کبھی نہیں کیونکہ یہ سلسلہ چلتا جا رہا ہے اور یہ اتنا خراب ہو جائیگا کہ اسکو کوئی بنا بھی نہیں سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم سب ملکر بیٹھے، مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی اکیلی جماعت پاکستان کو اس مشکل سے نہیں نکال سکتی، ہمیں مل کر ساتھ کام کرنا پڑیگا اور ان دوستوں کو بھی دعوت دیں گے جو ہم سے دور ہیں، ہم سب ملکر پاکستان کو اس مشکل سے آزادی دلائینگے۔ ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ ہم 172ارکان کو ایوان میں لائینگے اور اسکے ساتھ ساتھ ان سے 172 سے زائد ووٹ لینگے، صرف ہم نہیں بلکہ کئی دوست بیزار ہیں، اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اپنی پارٹی اور ان کے اپنے دوست بیزار ہیں، ان کو اپنے حلقوں میں جانا ہے تو وہ کیا جواب دینگے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ جس طرح 1989 میں غلام اسحٰق خان اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود تحریک عدم اعتماد کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *